بھارت اور بنگلہ دیش…… اقلیتوں کا مسئلہ

95

برصغیر میں فرقہ وارانہ فسادات کی پرانی تاریخ ہے۔ان فسادات کے دوران لوٹ مار، آگ اور خون اور انسانی جانوں کا زیاں عام بات ہے۔ بھارت کے انتہا پسند لوگ آئے روز یہ حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ بلکہ وہاں تو ریاستی جبر و تشدد بھی عام ہے۔آسام کے مسلمان ہوں یا گجرات کے، کشمیر کے مسلمان ہوں یا کسی اور دوسری ریاست میں مقیم مسلمان۔ یہ سب وقتاً فوقتاً مسلم کش فسادات کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں یوپی کی ایک مسجد میں حملہ کیا گیا۔ ان تمام واقعات کے باوجود بھارت کی خصوصاً موجودہ حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ پچھلے ہفتے بنگلہ دیش کے ایک مندر میں ایک واقعہ ہوا، جس میں تقریباً 6ہندو ہلاک ہوگئے۔اس واقعے کا ردِعمل مغربی بنگال میں ہوا اور اب تک ہورہا ہے۔ اور وہاں کا تقریباً ہر میڈیا سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ بنگلہ دیش کے شہر کومیلا میں درگاہ پوجا کے تہوار کے موقعے پر مسلمانوں کو یہ پتا چلا کہ ایک مندر میں تقریب کے دوران ایک دیوتا کے پیروں پر قرآن شریف رکھا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ علاقے کے مسلمانوں نے جاکر خود اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا۔ جس کے بعد اس کی خبر پورے بنگلہ دیش میں پھیل گئی۔ احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا اور اس مخصوص علاقے کے مسلمانوں نے مندر پرحملہ کردیا۔ کافی توڑ پھوڑ ہوئی اور اس ہنگامے میں تقریباً چھ ہندو مارے بھی گئے۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے ہنگامے میں ملوث افراد کو گرفتار کرکے سزا دلوانے کا حکم جاری کیااور ساتھ ہی انہوں نے بھارت سے بھی کہا کہ وہاں بھی مسلمان اقلیتوں کے خلاف جو ظالمانہ اقدام ہوتے ہیں، ان کو روکا جائے، تاکہ بنگلہ دیش میں مقیم اقلیتوں اور خصوصاً ہندوؤں کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ بھارتی حکمرانوں نے بنگلہ دیش میں مندر پر حملے اور چھ ہندوؤں کی ہلاکت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے
صرف اتنا بیان دیا کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے حالات پر قابو پالیا ہے۔ بھارتی حکومت کے ایسے مفاہمانہ ردعمل پر بھارتی میڈیا سراپا احتجاج بن گیا ہے۔ بھارت کے اکثر شہروں، خصوصاً مغربی بنگال کے شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی جارہی ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ ہندوؤں کے ساتھ ایک ایسے ملک میں ایسا سلوک ہورہا ہے، جسے خود بھارت نے آزاد کروایا ہے۔ بنگلہ دیش میں بھارت نواز عوامی لیگ کی حکومت ہے اور کہا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت کو بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ جس کی بدولت وہاں کی حزب اختلاف بالکل کم زور ہوچکی ہے۔ اور عام انتخابات میں عوامی لیگ ہی ایک عرصے سے فتح یاب ہوتی چلی آرہی ہے۔ گزشتہ انتخاب کے نتائج پر تو امریکا اور چند مغربی ممالک نے بھی شک اور تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اس کے باوجود ماضی قریب میں بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان کشیدگی نظر آئی تھی۔ اس کی وجہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی مسلم دشمن کارروائیاں تھیں۔ حال ہی میں بھارت نے بنگلہ دیش، پاکستان اور دیگر ممالک کے ہندو باشندوں کو پیش کش کی ہے کہ وہ چاہیں تو بھارت کی شہریت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ اپنی اسی پالیسی کے تحت ایک سال قبل بھارت نے آسام میں مقیم بیس پچیس لاکھ بنگالی مسلمانوں کو بے دخل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان بنگالی مسلمانوں کی کثیر تعداد ان لوگوں کی ہے جو 1971ء کی مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کے دوران ملک چھوڑ کر بھارت چلے گئے تھے۔ بعدازاں وہیں رہ گئے تھے۔ شادی بیاہ ہوئے، گھر بار بنائے۔ کاروبار اور ملازمتیں کرلیں۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے نریندر مودی کی اس پالیسی کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ کیوں کہ اگر ایسا ہوا تو بیس پچیس لاکھ مہاجرین کا قافلہ یقیناً بنگلہ دیش میں داخل ہوگا اور یہ بوجھ بنگلہ دیش کے لیے تشویش ناک ہے۔ وہاں پہلے ہی دس لاکھ سے زیادہ میانمار کے روہنگیا مسلمان اور تقریباً ڈھائی تین لاکھ محصور پاکستانی کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ ادھر کچھ عرصے سے چین نے بنگلہ دیش میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ اس طرح بنگلہ دیش کا جھکاؤ چین کی طرف بھی ہے۔ پاکستان سے بنگلہ دیش کے تعلقات میں کشیدگی پرانی ہے اور ایک عرصے سے بنگلہ دیش میں پاکستان کا سفیر بھی نہیں تھا۔ مگر پاکستان نے پھر سے اپنا سفیر بھیجا ہے، جس نے اس سال کے اوائل میں وزیراعظم اور وزیرِ خارجہ سے خیرسگالی کی ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ بھارت کے بعض صحافتی حلقوں میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر شدید تنقید بھی کی جارہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ بنگلہ دیش کے مندر پر حملے کے واقعے پر بھارت نے کسی ردعمل کا مظاہرہ نہ کرکے بھارتی عوام کو ناراض کردیا ہے۔ اگر یہی واقعہ پاکستان میں ہوتا تو نریندر مودی اور ان کی پارٹی بین الاقوامی سطح پر طوفان کھڑا کردیتی۔ بعض حلقوں نے اس ضمن میں پاکستان کی تعریف بھی کی ہے۔ اس واقعے کا حوالہ بھی دیاگیا جس میں پاکستان کے ایک مندر کو شرپسندوں نے توڑ پھوڑ دیا تھا۔ اس واقعے پر پاکستان کی حکومت نے ذمّے داروں کے خلاف سخت کارروائی کی۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ شرپسندوں کو نہ صرف گرفتار کیا جائے، بلکہ ان کی جائیدادوں کو فروخت کرکے اس رقم سے دوبارہ مندر تعمیر کی جائے۔ عدالت اور انتظامیہ کی کارروائی کے نتیجے میں مندر کی مرمت کا کام کیا گیا اور علاقے کے مسلمانوں نے بھی خود تعمیر میں حصّہ لیا۔ اس طرح فرقہ وارانہ یکجہتی کی مثال قائم ہوگئی۔
آخری خبریں آنے تک بنگلہ دیش کے کئی شہروں میں قرآنِ پاک کی بے حرمتی کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ ڈھاکہ کو لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے۔ حکمران جماعت کے کارکنان ہندوؤں سے یکجہتی کے لیے مظاہرے بھی کررہے ہیں۔ نواکھالی کے علاقے میں ہندوؤں کی ایک بستی کو وہاں کے مسلمانوں نے آگ لگادی ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان اس قسم کی کشیدگیاں آگے چل کر کیا رنگ دکھاتی ہیں؟

تبصرے بند ہیں.