جیلوں کے لئے قابل تعریف اقدامات

108

قید خانے اگر عقوبت کے بجائے اصلاح گھر ہوں توسزا بھگتنے کے بعد قیدی مفید شہری بن کر معاشرہ میں ایک صحت مند اور موثر کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں مگر کیا کیا جائے کہ ہماری جیلوں میں آنے والے ملزم مجرم بن کر نکلتے ہیں اور مجرم پختہ کار مجرم بن جاتے ہیں،تنہا وارداتیں کرنے والوں کو گینگ اور گروہ میسر آتے ہیں،سرپرست بہم ہوتے ہیں اور مجرم یا ملزم بریت یا ضمانت کے بعد باہر نکلتے ہی بڑا وارداتیا بن کر نکلتا ہے۔یہ دراصل من حیث القوم المیہ،حکومت کیلئے لمحہ فکریہ اور اصلاح احوال کی دعویدار تنظیموں کیلئے سوچ بچار کا مقام ہے،ہر حکومت تھانہ کلچر تبدیل کرنے کا دعویٰ کرتی ہے اور اس ضمن میں اپنے تئیں کچھ حیل حجت بھی کی جاتی ہے مگر معمولی جرائم میں ملوث نوخیز ملزموں کو عادی مجرموں سے بچانے کی کوئی سائینٹفک،منطقی اور نتیجہ خیز کوشش دکھائی نہیں دیتی جس کے نتیجے میں جرائم کا قلع قمع ہونے کے بجائے فروغ ہو رہا ہے۔
پہلی مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اس حوالے سے عملی کوشش کا آغاز کیا ہے،یادش بخیر اس حوالے سے راقم نے انہی سطور میں جیل ملازمین کے ساتھ ہونے والے ظلم اور زیادتی کی بار بار نشاندہی کی تھی،ماتحت جیل ملازمین اور افسران ان تمام الاؤنسز سے محروم تھے جو پنجاب پولیس کو مل رہے تھے،ڈیوٹی اوقات بھی ناقابل برداشت جس کی وجہ سے جیل میں رشوت کا بازار گرم ہونا ایک فطری عمل ،ملازمین بد دلی سے فرائض انجام دیتے اور کسی کو قیدیوں کی اصلاح کی فکر نہیں ہوتی،نتیجے میں قیدی سزا بھگتنے کے بعد درست ہونے کے بجائے پکے مجرم بن کے نکلتے ہیں،مہذب دنیا میں ایسا نہیں ہوتا،نفرت مجرم سے نہیں جرم سے کی جاتی ہے،لہٰذا مجرم سے ہمدردی کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں جرائم پیشہ لوگ بھی سزا کے بعد کارآمد شہری بن جاتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے گزشتہ دنوں کوٹ لکھپت جیل کا دورہ کیااس موقع پر انہوں نے جیل ملازمین اور قیدیوں کے مسائل معلوم کئے اور موقع پر حل کیلئے احکامات جاری کئے،انہوں نے اس موقع پر اعلان کیا کہ 1894ء کے فرسودہ اور نا کارہ جیل قوانین کو تبدیل کیا جائے گا،127پرانے جیل قوانین بھی ہماری عاقبت نا اندیشی کا ایک ثبوت ہے،یہ قوانین انگریز سرکار نے اس دور میں بنائے تھے جب مجرموں کی بھی کوئی اخلاقیات ہوتی تھی،خواتین کا احترام تب چور ڈاکو بھی کرتے تھے،مگر آج کے تقاضے کچھ اور ہیں،سوا سو سال بعد یہ قوانین نہ صرف اپنی طبعی مدت پوری کر چکے بلکہ نتائج سے بھی عاری ہو چکے ہیں،اب نئے دور کے نئے تقاضوں کے مطابق قوانین کی ضرورت ہے جس کا ادراک پہلے کسی وزیر اعلیٰ نے نہ کیا۔
انہوں نے قیدیوں کے انسانی حقوق کی حفاظت کو بھی یقینی بنانے کی ہدایت کی،اس موقع پر عید میلاد النبی کی خوشی میں قیدیوں کی سزا میں 60دن کی معافی کا بھی اعلان کیا گیا،جیل کی ہر بیرک میں علی الصبح اخبار کی فراہمی کا بھی حکم صادر کیا گیا،ہر قیدی کو جیل میں تکیہ،میٹرس اور کمبل رکھنے کی بھی اجازت دیدی گئی،ورنہ اب تک ٹاٹ کے بچھونے اور سرخ کمبل میں قیدی بیماریوں سے دوچار ہو رہے تھے،موسم سرما میں قیدیوں کو گرم پانی کی فراہمی کیلئے تمام جیلوں میں گیزربھی نصب کیے جائیں گے،کیبل کے ذریعے نیوز اور انٹرٹینمنٹ چینل بھی دکھائے جائیں گے،خواتین قیدیوں کی بھی ہر ضرورت کو پورا کیا جائے گا،چھ سال سے کم عمر کے بچوں کیلئے تعلیم،تفریح اور ڈے کئیرسینٹر کا بھی اہتمام کیا جائے گا،جو بہت ہی اچھی روائت صحت مند مصروفیت ہو گی،محکمہ صحت ہر ماہ جیلوں میں میڈیکل کیمپ لگا کر تمام قیدیوں کا مکمل طبی معائنہ کرے گا،جیل ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور عملہ کی خالی اسامیوں پر فوری بھرتی کی جائے گی،بیمار قیدیوں کو ہسپتال منتقل کرنے کیلئے ہر جیل کو ایمبولینس دی جائیگی،جیل ڈاکٹروں کو خصوصی الاؤنس کی بھی منظوری دی گئی،اعلان کردہ اقدامات پر عملدر آمد کیلئے ساڑھے پانچ کروڑ روپے کی گرانٹ کی بھی منظوری دی گئی،جیل ملازمین کیلئے وزیر اعلیٰ نے تنخواہ اور الاؤنسز کیساتھ ایک ماہ کی اضافی تنخواہ کے برابر پریزن الاؤنس دینے کا بھی اعلان کیا،جیل واڈن،ہیڈ وارڈن،چیف وارڈن کی پوسٹوں کو اپ گریڈ کرنے کی بھی منظوری دی گئی،جیلوں کو21اضافی گاڑیاں دینے کا بھی اعلان کیا گیا،پولیس شہداء کی طرز پر جیل شہداء پیکیج میں اضافہ کی بھی منظوری دی گئی،شہداء کے بچوں کو سرکاری ملازمت بھی دی جائیگی۔
قیدی بھی انسان ہوتے ہیں مگر ماضی میں کسی حکمران نے ان کو دوسرے درجے کے شہری کا بھی درجہ نہ دیا،مگر عثمان بزدار نے قیدیوں کو باقاعدہ انسان سمجھا اور ان کو جم و فٹنس سینٹر کی سہولت فراہم کی،پنجاب حکومت کا قیدیوں کو کار آمد اور مفید شہری بنانے کا عزم کیا ہے اگر چہ یہ کام بہت پہلے شروع کر دیا جانا چاہئے تھا مگر چلو کسی نے تو ذمہ داری کا احساس کیا،اور مجرموں کو قابل نفرت بنانے کے بجائے ان کی اصلاح پر توجہ دی،مہذب دنیا میں قیدیوں کے حقوق عام شہریوں کے برابر ہوتے ہیں،اسلام نے بھی قیدیوں کو بے تحاشا حقوق دئیے ہیں،مگر کسی دور میں ان حقوق پر توجہ نہ دی گئی نہ مجرموں کی اصلاح کے حوالے سے کوئی پروگرام سامنے آیا،جیلوں کو عقوبت خانہ کے بجائے اصلاح گھر بنایا جاتا تو آج جرم کی نوعیت سنگین نہ ہوتی،مگر قیدیوں کو کسی دور میں بھی انسان نہ سمجھا گیا،قیدی تو رہے ایک طرف ان کی نگرانی پر مامور جیل عملہ کیساتھ بھی عرصہ دراز سے امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا تھا،عملہ کی شفٹ 12گھنٹے پر مشتمل ہوتی،ان کو قومی اور مذہبی تہواروں پر بھی چھٹی نہ ملتی،کوئی اضافی الاؤنس بھی نہ دیا جاتا،تنخواہ کا ڈھانچہ بھی پنجاب پولیس کے مقابلہ میں امتیازی تھا،اس حوالے سے راقم نے انہی سطور میں دو مرتبہ اس ظلم اور زیادتی کی جانب حکام بالا کی توجہ مبذول کرائی اور شواہد کے ذریعے ثابت کیا کہ جیل ملازمین مظلوم ہیں ان کی داد رسی کی جائے۔
وزیر اعلیٰ بزدارنے تمام معاملے کا جائزہ لیا اور حقائق کو سامنے رکھ کر سٹڈی کے بعد اصلاحات، اقدامات، سہولیات کا اعلان کیا،اب امید کی جا سکتی ہے کہ جیل عملہ بھی پورے عزم سے فرائض کی انجام دہی کرے گا۔اس وقت جیلوں میں سب اچھا نہیں ہے،نچلی سطح پر کرپشن کی بہت شکایات ہیں مگر جیلروں میں اچھے اور فرض شناس افسروں کی کمی نہیں۔آئی جی جیل شاہد سلیم بیگ ایک محنتی اور درد دل رکھنے والے نیک نام جیل افسر ہیں،انہیں چاہیے کہ جیل کے سینئر افسروں سے مل کر بہتری کے لئے اقدامات اٹھائیں تاکہ جیلیں عملی طور پر اصلاح گھر بن جائیں۔

تبصرے بند ہیں.