انسانیت میں ملاوٹ

145

گناہانِ کبیرہ میں سے چوبیسواں گناہ جس کے کبیرہ ہونے کی صراحت موجود ہے ناپ تول میں کمی کرنا ہے۔ اس کا حرام ہونا قران مجید،احادیث اجماع،اور عقل سے ثابت ہے۔امتِ محمدی ؐ سے قبل کئی نبیوں کی قوموں پر اللہ تعالیٰ کے عذاب نازل ہوئے۔ جن میں قوم شعیب کا ذکر بھی نمایاں ہے۔ حضرت شعیب ؑ کی قوم بھی عذابِ الہٰی میں مبتلا ہوئی جن کی سب سے بڑی برُی خصلت ناپ تول میں کمی اور ناقص چیزوں کی فروخت تھی۔ناقص چیزوں کی فروخت آج کل ہمارے معاشرے میں بھی عام ہے۔گھی میں ناقص تیل کی ملاوٹ کرنا،مرچوں میں سرخ مٹی کی ملاوٹ کرنا،دودھ میں پانی اور سنگھاڑے کے پاؤڈر کی ملاوٹ،پیٹرول میں ملاوٹ،سونے میں ملاوٹ،عرض یہ کہ زندگی بچانے والی ادویات تک میں ملاوٹ کی جا رہی ہے۔جب خریدار ایک چیز کا پورا دام ادا کر رہا ہے تو اس کا حق ہے کے اسے مطلوبہ چیز بغیر کمی اور نقصان کے پوری پوری حاصل ہو۔لیکن اب تو شاید ہی بازار میں کوئی ایسی چیز موجود ہو جو پوری طرح ملاوٹ سے پاک ہو۔آج ہمارے معاشرے میں وہ تمام برائیاں اظہر من التشمس ہیں جن کی وجہ سے قومِ شعیب عذابِ الٰہی میں مبتلا ہوئی۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:۔اے میری قوم انصاف سے ناپ اور تول کو پورا کرو،اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد نہ مچاؤ۔افسوس کے ہمارے ملک ہیں کم تولنا،ڈنڈی مارنا،نفع کے لالچ میں قانونی حدود توڑنا،جھوٹ،افترابازی،اقراپروری،غرور وتکبر،،سُود لینا،سُود دینا،حسد کرنا،خود کو برتر اور دوسروں کو کم تر سمجھنا،اور دوسروں کے حق تلفی کرنا،چیزوں میں ملاوٹ کرنا اب ہمارے معاشرے میں عام ہے جسے لوگ برائی شمار ہی نہیں کرتے۔ایک ایک بات جس کے نتیجے میں قومیں تباہ و برباد کر دی گئیں آ ج ہمارے معاشرے میں عام نظر آتیں ہیں۔فرمانِ نبوی ؐہے کہ ”جو شخص ناپ تول میں خیانت کرے گااس کو دوزخ کے نچلے طبقہ میں ڈال دیا جائے گاجہاں اس کی جگہ آگ کے دو پہاڑوں کے درمیان ہو گی“۔جس طرح ناپ تول میں کمی کرنا حرام ہے اسی طرح کم گن کر دینا بھی حرام ہے۔ کپڑا یا زمین اگر ان کی پیمائش میں ایک سنٹی میٹر بھی کمی کی گئی ہو تو اسے بھی گناہ اور حرام کہا گیا ہے۔اسی طرح گھٹیا مال کو اچھا اوربڑھیا مال بتا کر دھوکے سے بیچ دینا جیسے اعلیٰ گندم کے اندر درمیانی قسم کی گندم ملا کر دے دینا،خالص گھی کی تہہ میں عام گھی ڈال کر دے دیناسب حرام خوری کے زمرے میں آتا ہے۔حرام خوری کا تعلق صرف چوری اور ڈاکے کے ساتھ نہیں بلکہ اس میں یہ سب چیزیں شامل ہیں مگر افسوس کہ اس طرف دھیان ہی نہیں کہ ہم حرام خوری میں مبتلا ہیں۔جس طرح کوئی تاجر کم ناپ کر دوسرے کا حق مارکر حرام کماتا ہے اسی طرح وہ ملازم اور مزدور بھی حرام کما رہا ہے جو اپنی تنخوا اور اجرت تو پوری لیتا ہے لیکن ڈیوٹی میں کمی کرتا ہے جیسے دیر سے آنا جلدی واپس جاناز ڈیوٹی کے اوقات میں ذاتی کام کرنا۔ظاہری بات ہے کہ اس صورت میں تنخواہ کا وہ حصہ حرام ہوگا جو اس وقت کے بدلے لیا گیاجس میں کام نہیں کیا گیا۔آج پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک صحت کے لاتعداد مسائل سے دوچار ہیں۔اس کی ایک اہم اور بڑی وجہ کھانے اور پینے کی اشیا کا اصل اور قدرتی شکل میں دستیاب نہ ہونا ہے۔اچھی صحت کے لیے اشیائے خورونوش کا اچھا اور پاک صاف ہونا ضروری ہے مگر ہمارے ہی جیسے کچھ مفاد پرست دنیا کے لالچ میں مبتلا لوگوں کی وجہ سے آج حالات کچھ اور ہیں۔انسان کی خود غرضی نے اسے اسقدر حریص بنا دیا ہے کہ وہ انسانیت کی تمام حدیں پار کرنے اور دوسروں کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ہر دوسرے روز جعلی ادویات اور ناقص تیل کی فیکٹریوں کو سیل کرنے کی خبریں موجود ہوتی ہیں مگر پھر بھی یہ کاروبار جاری وساری ہے۔ ہمارے معاشرے میں موجود بعض مفاد پرست مردہ ضمیر عناصر صرف اور صرف اپنی جیبیں بھرنے کے لیے معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے میں مصروفِ عمل ہیں ان کو خوفِ خدا ہے نہ فکرِ آخرت۔حدیث ِ مبارکہ ہے کہ جب بھی وہ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں ان کو قحط سالی،روزگار کی تنگی اور بادشاہ کے ظلم کے ذریعے سزا دی جاتی ہے۔اور جولوگ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں ان کی روزی سے برکت ختم کر دی جاتی ہے اورپھر وہ روزی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں لاکھوں روپیہ گھنٹوں میں کماتے ہیں مگر ان کے دل کا چین اور روح کاسکون چھین لیا جاتا ہے اور کچھ پتا نہیں چلتا کہ دولت کدھر سے آئی اور کہاں گئی۔تجارت پیشہ ِدیانت داری ہے مگر چند لوگوں نے ذاتی مفاد کی خاطر اس پیشہ کو بدنام کر کے رکھا ہوا ہے۔کرپشن آج ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ ہے جو لوگوں کی بدیانتی اور خیانت کی وجہ سے عام ہے۔ہمارے لوگوں نے زندگی کے معاملات میں دہرے پیمانے بنا رکھے جو اپنے مفاد کے حصول میں تو بہت تیز اور دوسرے کا حق ادا کرنے میں بخیل ہیں۔ہم میں سے بیشتر لوگوں نے زندگی کے ہر شعبے میں ان خود ساختہ دوہرے پیمانوں کو اختیار کیا ہوا ہے اور اپنے آپ کو حدیث ِ مبارکہ میں دی گئی اس سنگین وعید کے مستحق بنا رکھا ہے۔آج ہمارا معاشرہ بے چینی اور پریشانیوں کا شکار ہے اور یوں ہی رہے گا جب تک ہمیں قرآن و حدیث میں بار بار دی جانے والی وعید سے ڈر نہ لگے،جب تک ہمارے معاشرہ میں کمزور کی حق تلفی،بدعنوانی اور غبن جیسے سنگین جرائم میں کمی واقع نہ ہو گی تب تک ہمارامعاشرہ یوں ہی مفلسی اور پریشانیوں کا شکار رہے گا۔بقول شاعر۔
تیرے اعمال سے ہے تیرا پریشاں ہونا،
ورنہ مشکل تو نہیں مشکل کا آساں ہونا،
پورے عالم پہ حکومت ہو تیری،اے مسلم!
تو سمجھ جائے اگر اپنا مسلماں ہونا

تبصرے بند ہیں.