بھوک بھنگڑے ڈال رہی ہے

67

گلوبل ہنگر انڈیکس کے سامنے آنے کے بعد بھی اگر حکمران چین کی نیند سو رہے ہیں تو اس پر حیرت ہونی چاہیے اور جب یہ بیانات سنتے ہیں کہ اپنے کھانے کو کم کر لیا جائے تو رونا آتا ہے کہ یہ حکومت لوگوں کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کرنے کے بجائے ان سے نوالہ چھین رہی ہیں۔بھارت کی حالت ہم سے بھی بری ہے اور اس پر خوشی کے شادیانے بجانے کے بجائے فکرمند ہونے کی ضرورت ہے کہ یہ دونوں ہمسایہ ایٹمی طاقتیں اپنے عوام کے منہ سے نوالہ چھین کر اپنے وسائل ہتھیاروں کی خریداری میں جھونک رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے وسائل کو عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے مہلک ہتھیاروں کی خریداری پر استعمال کر رہے ہیں۔ اس دوڑ میں ہار دونوں ملکوں کی ہو رہی ہے اور دنیا ہم سے آگے نکلتی جار ہی ہے۔ ویسے اس بات پر بھی حیرت ہے کہ یہ پاک و ہند کا خطہ جو انتہائی زرخیز ہے اس کی زمین کیا اپنے باسیوں کے اناج کی ضروریات کو پوری کرنے کے قاصر ہو چکی ہے۔ کیا ہماری زمین بانجھ ہوتی جا رہی ہے یا ہم نے زیادہ بچے پیدا کرنے شروع کر دیے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ اس خطے میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے مگر ہم نے وسائل کو بڑھانے کی طرف توجہ دینے کی کوشش نہیں کی۔
قومیں اپنی کمزوریوں کو طاقت میں بدلنے کا ہنر جانتی ہیں مگر ہم اس ہنر سے عاری ہیں، ہمیں تو اپنی طاقت کو بھی صحیح طریقے سے استعمال کرنے کا ہنر معلوم نہیں۔ کوئی بے خبری سی بے خبری ہے۔دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور ہم اس تبدیلی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں جو چند سال پہلے ملک پاکستان پر مسلط کی گئی تھی۔ جمشید چیمہ کو وزیراعظم نے اپنا فوڈ سیکیورٹی کا مشیر نامزد کیا ہے اور وہ ہر روز پیداوار کو بڑھانے کے طریقے بتاتے رہتے ہیں ہو سکتا ہے کہ آَنے والے دور میں ہم ان کے طریقوں سے مستفیذ ہو سکیں مگر ابھی صورتحال خراب ہے۔ دشت کو دیکھا تو گھر یاد آیا ہماری صورتحال اس سے مختلف نہیں ہے۔ میں بات کر رہا تھا کہ گلوبل ہنگر انڈیکس میں پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں بچوں کو پوری خوراک نہیں مل رہی اور اس وجہ سے وہ پانچ برس سے پہلے ہی موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کبھی اپنے بچوں کو غور سے دیکھا ہے کہ وہ لاغر اور کوتاہ قد کیوں ہو رہے ہیں۔ اسی دھرتی کے بچوں کو شیر جوان کہا جاتا تھا آج ان کے بچے پوری خوراک نہ ملنے کے باعث مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ مناسب خوراک نہ ہونے کے باعث ان میں قوت مدافعت کی کمی ہو رہی ہے۔ حیرت اس پر بھی ہے کہ بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا کی حالت ہم سے بہتر ہے۔ بھوکے ننگے لوگ آج ہمارے لیے مثال بن رہے ہیں۔
گلوبل ہنگر انڈیکس یہ ظاہر کرتا ہے کہ مختلف ممالک میں لوگوں کو کیسے اور کتنا کھانا ملتا ہے۔ یہ انڈیکس ہر سال تازہ ترین اعداد و شمار کے ساتھ جاری کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے دنیا بھر میں بھوک کے خلاف جاری مہم کی کامیابیوں اور ناکامیوں کی بھی عکاسی کی جاتی ہے۔اس سکور کا تعین چار اشاروں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے: غذائیت کی کمی، بچوں کا کمزور ہونا، بچے کے قد کا چھوٹا ہونا اور بچوں کی اموات۔
آئی ایم ایف کی شرائط کو تسلیم کرنے کے بعد پاکستان میں ایک بار پھر بھوک، افلاس اور بیماریوں میں اضافہ ہو گا اور مناسب خوراک کی کمی کی وجہ سے اموات کی شرح بڑھ جائے گی۔ کسی دور میں ہم بہت خوش ہوتے تھے کہ پاکستان میں کوئی بھوکا نہیں سوتا مگر افسوس اب ایسی صورتحال نہیں ہے اور بھوک سے خودکشیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ تمام تر پابندیوں کے باوجود ایران اس حوالے سے ہم سے بہتر ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی آبادی کی غذائی ضروریات پوراکرنے کے لیے اناج پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چین پہلے اٹھارہ ممالک میں شامل ہے جہاں کے لوگوں کو بھوک کا کوئی خطرہ موجود نہیں ہے۔ میں نے پہلے بھی اپنے ایک کالم میں یہ عرض کی تھی کہ پاکستان کو اپنی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ میں نے برازیل کی مثال بھی دی تھی کہ اس نے کس طرح بھوک کا مقابلہ کیا اور اپنے لوگوں کے لیے وافر مقدار میں اناج کو پیدا کیا۔ ہم برازیل سے بیج اور ٹیکنالوجی لے سکتے ہیں اور برازیل کے تجربات اپنے ہاں کر کے اس مسئلہ پر قابو پا سکتے ہیں۔ ویسے بھی ہماری تعلیمات یہ ہیں کہ علم و ہنر مومن کی میراث ہے وہ جہاں سے ملے اسے لے لیا جائے۔ اس قسم کے اعشاریے سو فیصد درست نہیں ہوتے اور اس میں جو اعدادوشمار دیے جاتے ہیں وہ عام طور پر حکومتوں کے فراہم کردہ ہوتے ہیں مگر یہ اعشاریے یہ ضرور بتا دیتے ہیں کہ ہمیں چین سے بیٹھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہم اپنی گندم کی فصل کو ۲۵ سے ۳۰ من فی ایکڑ سے بڑھا کر ۵۰ سے ۶۰ من فی ایکڑ پر لے جائیں تو ہماری غذائی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں اور ہم دنیا کو خوراک بھی فراہم کر سکتے ہیں اور یہ کوئی نا ممکن کام نہیں ہے۔ تیل کی قیمتیں بڑھنے سے حالات یہ ہو گئے ہیں کہ زراعت کی ان پٹس کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہاہے اور کاشتکار انتہائی پریشانی کا شکار ہے۔ 2020 میں نیوزی لینڈ کے ایک کاشتکار ایرک واٹسن نے ایک ہیکٹر سے 17.398 ٹن گندم حاصل کی ہے اب حساب آپ خود ہی لگا لیں کہ ایک ایکٹر سے کتنے من پیداوار حاصل ہوئی ہے۔ پاکستان کے بعض کاشتکاروں نے بھی ایک ایکٹرسے 50 من کی پیداوار بھی حاصل کی ہے ان کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ہو گا جب کاشتکار کو بیج،ڈیزل اور کھادیں مناسب قیمت پر دستیاب ہوں گی۔
قصور صرف اس حکومت کا نہیں ہے حقیقت میں ہم نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ہماری ترجیحات میں اس طرح کے منصوبے شامل نہیں ہیں اور اجتماعی سوچ یہاں آ کر رک جاتی ہے کہ تیل کی قیمت بڑھی ہے تو سائیکل کو چمکا کر اس پر سفر شروع کریں اور یہ سفر بھی وہ فیس بک کی حد تک ہی کرتے ہیں عمل کوئی نہیں کرتا۔ سب یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک لٹر کی قیمت دس روپے بڑھنے سے باقی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو بھی پر لگ جائیں گے۔ ویسے بھی لگ یہ رہا ہے کہ اس ملک کو آئی ایم ایف کو ٹھیکے پر دے دیا گیا ہے اور انہو ں نے آپ کے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینا ہے۔ کسی ملک کی معیشت آئی ایم ایف کے قرضے سے بہتر نہیں ہوئی ہماری کیسے ہو جائے گی اورجس تیزی سے ڈالر بڑھا ہے اس سے پاکستان کے قرضے دو گنا ہو گئے ہیں اور لوگوں کی آمدنی آدھی ہو گئی ہے۔ جناب وزیراعظم تسلیم کر لیں کہ آپ ناکام ہو گئے ہیں اور جو ٹیم آپ لے کر ائے تھے وہ اس قابل نہیں ہے کہ قوم کو گرداب سے نکال سکے۔ جب حکومت میں اہل افراد کی بجائے نالائق بٹھا دیے جائیں تو ایسا ہی نتیجہ سامنے آتا ہے ایسے میں انجینئر افتخار چوہدری جیسے لوگ کب تک حکومت کا دفاع کر پائیں گے اور جو دفاع کررہے ہیں ان کی مکروہ شکلوں کو عوام دیکھنا پسند نہیں کرتی۔ ایسی ایسی کوڑی لاتے ہیں کہ الامان الحفیظ۔

تبصرے بند ہیں.