تعیناتی کو طوفان بنانے کی کوشش

91

حکمت و تدبر یہ ہے کہ مسائل بڑھانے کے بجائے حل کیے جائیں آئے روز نیا بحران پیداکرنا اور پھر کہناگھبرانا نہیں ہے حکمت وتدبر کے منافی ہے ایک طرف مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ اور کاروباربند جبکہ قرضے ملکی تاریخ کی بلند ترین شرح کو پہنچ چکے ہیں ایسے میں گھبرانا نہیں ہے کے مشورے کو کوئی پسند نہیں کر سکتا لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کو عوامی مشکلات کا احسا س ہے اگر ہوتا تو مسائل نظر انداز کرتے ہوئے تمام توجہ مستقبل کی سیاسی شطرنج سجانے پر ہرگز نہ دیتے سابق حکمرانوں کی صفائی دینا یا انہیں بہتر قرار دینا مقصود نہیں مگر اِس میںشائبہ نہیں کہ سابق حکمرانوں میں لاکھ خامیاں سہی ناقص حکمرانی کے باعث لوگ اب انہیں یادکرنے لگے ہیں حکمرانی بازیچہ اطفال نہیں امتحان کا نام ہے اور امتحان کی ناکامی کو گھبرانا نہیں ہے کا جملہ بول کر کامیابی نہیں کہہ سکتے ۔
اِداروں میں پختگی آرہی ہے عسکری اور عدالتی تقرریوں میں بیرونی مداخلت کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی دور کیوں جائیں سپریم کورٹ نے لاہورہائیکورٹ سے ایک جج کو سپریم کورٹ لے کر نئے چیف جسٹس کی تقرری کی مگر حکومت نے چیف جسٹس کی سفارشات کے برعکس ترقی و تعیناتی کا حکم نامہ جاری کیا تو ججز نے حکومتی حکم نامے پر عملدرآمد کے بجائے وہی کیا جو چیف جسٹس کی منشا تھی یہ ایسا سبق تھا کہ حکمرانوں کو کچھ سیکھنا چاہیے تھا لیکن یہاں نہ کوئی سیکھنے کا متمنی ہے اور نہ ہی کوئی مشاورت کا قائل ہے بلکہ عقلِ کل کے مرض میں مبتلا لوگوں کی بھرمار ہے اور عملی طور پر کچھ کرنے کے بجائے ہوائی قلعے بنانے کے آرزومندوں کی کثرت ہے جو فنِ تقریر میں طاق ہونے کی خوبی کوہی مسائل کے زہر کاتریاق سمجھتے ہیں حالانکہ فنِ تقریر سے مسائل حل ہوتے تو ملک کی معاشی حالت ایسی تباہ ہوتی؟یاد رکھیں کبھی کبھار کچھ کہنے کے بجائے خاموشی اختیار کرنا بہتر ہوتاہے لیکن کیا کریں جب عنانِ اقتدار انجمن ستائش باہمی کے پاس ہو تو شورشرابے کو ہی کامیابی کا نام دیا جاتا ہے۔
اہلیت و صلاحیت دعوے کرنے یا حریفوں کے لتے لینے کانام نہیں بلکہ کون کیا ہے چیلنجز کے دوران پتہ چلتا ہے ہر امتحان میں حماقتوں کے انبار لگانا اہلیت و صلاحیت نہیں ہوتی عسکری سپاہ سالار کو مزید عرصہ عہدے پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تو اپوزیشن نے خطے کے حالات کے پیشِ نظر تائید کر دی اتفاقِ رائے کا تقاضا تھا کہ فیصلہ سوچ وبچار اور مشاورت سے کیا جاتا لیکن نوٹیفکیشن کرتے ہوئے غلطیاں نہیں حماقتیں کی گئیں جس سے سپاہ سالار کا منصب بے توقیر ہوا جب وزیر ومشیر کی تقرری کا پیمانہ گالی کلچر میں مشاق ہونا ہی ہو تو بھلا عقل و دانش کا کیا کام؟ آخر کار عدالت کو ہدایات جاری کرنا پڑیںتب جاکر قواعد وضوابط کے مطابق نوٹیفکیشن جاری کیا گیا اب بھی لگتا ہے حکومت نے سبق حاصل کرنے کے بجائے رسوائیاں سمیٹنے کو ہی ترجیح بنا رکھا ہے اسی لیے اِداروں کو بھی جماعت کا زیلی ونگ سمجھنے کی غلطی کی جارہی ہے لیکن حماقتوں سے اِداروں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اِس لیے حکمرا ن ووٹ دینے کی عوام کو کڑی سزا دے چکے اِداروں کو ہی بخش دیں۔ 
کچھ پہلوان کشتی لڑتے ہوئے کسی سے شکست نہیں کھاتے مگر کبھی کبھار اپنے بھاری بھرکم وجود کی بنا پر خود ہی منہ کے بل گرجاتے ہیں حکومت بھی اسی روش پر گامزن ہے نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کو طوفان بنانے کی کوشش ثابت کرتی ہے کہ وزیرِ اعظم اپنے بھاری بھرکم وجود سے گرنے کے قریب ہیں بلاشبہ ڈی جی آئی ایس آئی براہ راست وزیرِ اعظم کو جوابدہ ہوتا ہے مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بطور لیفٹیننٹ جنرل آرمی چیف کے حکم کا بھی پابند ہے ملک کو درپیش حالات اور افغانستان کی صورتحال کے تناظر میںاگروزیراعظم چاہتے ہیںکہ موجودہ ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ہی مزیدعرصہ عہدے پر کام کریں تو انہیں سپاہ سالار سے بات کرتے ہوئے کیا ہچکچاہٹ ہے؟ مگر ایسا طرزِ عمل اپنایا گیا جیسے فوج کی طرف سے سویلین حکومت سے بالا بالا ہی فیصلے کیے جا رہے ہیں جن سے حکومت خوش نہیں اس سے افواہ ساز فیکٹریوں کو متحرک ہو نے کا موقع ملا یوں ایک اہم ترین تقرری کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی جس کے بعد بھی کابینہ کو گھبرانا نہیں ہے کی تلقین کوتاہ اندیشی کے سوا کچھ نہیں۔
آصف زرداری کی طرف سے اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا بیان اور نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی کی طرف سے عسکری اِدارے پرتنقید کی وجہ سے مخصوص قوتوں کے لیے عمران خان ابھی تک واحد چوائس ہیں لیکن واحد چوائس کا متبادل تلاش کرنا دشوار نہیں اگر نواز شریف نے برادرِ خورد کو آزادانہ مرضی سے کام کرنے کا موقع دے دیا تو مجھے نہیں لگتا کہ چند نشستوں کے سہارے قائم حکومت مزید چند ہفتے بھی رہ سکے ابھی تو شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کے بیانیے کی وجہ سے خاموش اور سیاست میں سُست ہیںلیکن ایسا تاحیات نہیں رہ سکتا آج نہیں تو کل صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے اِس لیے واحد آپشن کے زعم کاشکار کاسیاسی حوالے سے نقصان سے دوچارہونا بعید ازقیاس نہیں چھ اکتوبر کوتبادلے ہوئے مگر نوٹیفکیشن جاری نہ ہوا دس تاریخ کو عشرہ رحمت العالمینؐ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کہتے ہیں کہ دنیا میں خالد بن ولید ؓ سے شاید ہی کوئی بڑا جنرل ہو کیونکہ انہوں نے کوئی جنگ نہیں ہاری لیکن حضرت عمرؓ نے ان سے کمان چھڑا کر دوسرے کو سونپ دی اِس میں سمجھداروں کافی پیغام ہے ۔ 
پاک فوج کی عوام کی نظروں میں عزت و توقیر کم کرنے کے لیے کئی بیرونی عناصر مصروف ہیں نت نئی من گھڑت خبریں اور افواہیں پھیلائی جاتی ہیں جن کو غیر موثر بنانے کے لیے حکومت کو فعال ہونا چاہیے تھا مگر ہوابرعکس ہے وزیرِ اعظم اپنے اختیار کا رونا رو کر بیرونی عناصر کی پھیلائی من گھڑت خبروں اور افواہوں کی تائید کر رہے ہیں ملکی معیشت کا کباڑہ کرنے کے بعد اِداروں سے محاذ آرائی بڑھا کر حکومت کِس کے ایجنڈے پر عمل پیراہے؟ وزارتِ دفاع نے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے لیے جنرل سرفراز،ندیم انجم اور ثاقب ملک کے ناموں پر مشتمل سمری وزیراعظم ہائوس بھیج دی ہے وزیراعظم اور آرمی چیف میں مشاورت بھی ہو چکی اِس لیے جلد از جلد نئی تعیناتی کا فیصلہ ہو جانا چاہیے اگر تعیناتی کو طوفان بنانے کی کوشش کی گئی تو ممکن ہے اپوزیشن جماعتوں کی کمی عوام خود سڑکوں پر آکر پوری کردیں اور اختیار کا رونا روتے روتے فنِ خطابت میں طاق اپنے ہی بھاری بھرکم وجود سے گر پڑے فیصلوں میں جتنی تاخیر ہوگی نقصان حکومت کاہی ہو گا کیونکہ اِداروں میں ڈسپلن ہوتاہے جہاں تک وزیروں و مشیروں کا تعلق ہے انہیں کون سا حکمران جماعت نے فکری تربیت دی ہے یہ کئی جماعتوں سے آئے ہیںجو کسی انہونی کی صورت میں سابقہ جماعتوں کی طرف لوٹ سکتے ہیں وزیرِ دفاع اور وزیرِ داخلہ نے تین رکنی وزارتی کمیٹی میں شامل ہونے سے معذوری کا اظہار کردیا مزید کیا سُننے کی تمناہے اِس لیے وسوسوں اور خدشات کا جتنی جلدی ہو سکے خاتمہ ہی بہترآپشن ہے۔

تبصرے بند ہیں.