دو کوزہ گر

144

شمس العلما مولانا شبلی نعمانی فروری ۱۸۸۳ ء سے اواخر ۱۸۹۸ء تک علی گڑھ کالج سے وابستہ رہے۔وہ اس تاریخی دانش گاہ میں عربی کے استاد اور طلبا کی ادبی تربیت کے لیے بنائی گئی مجلس ”لجنۃ الادب“کے نگران تھے۔علی گڑھ میں اپنے سو سالہ قیام کے دوران کئی نسلوں کی آبیاری کی،ان کے شاگردوں میں مولانا محمد علی جوہر‘مولانا شوکت علی‘مولانا حسرت موہانی‘مولانا حمیدہ الدین فراہی‘مولوی عزیز مرزا‘خواجہ غلام الثقلین‘مولوی عبد الحق‘سید محفوظ علی بد ایونی‘ڈاکٹر سر ضیاء الدین اور خوشی محمد ناظر جیسے لوگ شامل ہیں،اسی سلسلے میں ایک نام مولانا ظفر علی خان کا بھی آتا ہے۔اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ مولانا شبلی کے جس شاگردِ رشیدنے قومی سطح پر علمی خدمات سرانجام دیں اور اپنے پیچھے بہت بڑاادبی سرمایہ چھوڑا‘وہ مولانا ظفر علی خان ہیں۔بقول محمد حمزہ فاروقی”مولانا شبلی غضب کے مردم شناس تھے‘وہ عام طلبہ پر ضرورت سے زیادہ توجہ نہ دیتے لیکن جن طلبہ میں علمی صلاحیت پاتے وہ التفاتِ خصوصی کے حق دار ٹھہرتے‘انھیں تحریر و تقریر کی مشق کراتے اور تحقیق کی رغبت دلاتے“۔ظفر علی خان کا شمار بھی جلد ہی ایسے طالب علموں میں ہونے لگا جنھیں مولانا شبلی کی طرف سے خاص توجہ ملی اور جنھوں نے مولانا شبلی کی صحبت میں خاصا وقت گزارا۔اس تربیت کے اثرات مولانا ظفر علی خان کی علمی و ادبی زندگی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے اپنی تازہ کتاب”دو کوزہ گر“میں شبلی اور مولانا ظفر علی خان(استاد اور شاگرد)کے تعلق کو جس احسن انداز میں پیش کیا ہے‘بلاشبہ یہ عظیم کام وہی کر سکتے تھے۔بلکہ اس سے قبل بھی ظفر علی خان پر ان کے تحقیق کارناموں کی فہرست خاصی طویل ہے اور انھیں اس موضوع اور ظفر علی خان سے گہرا لگاؤ ہے۔جیسا کہ ان کی ظفر شناسی پر کتب میں ’مکاتیب ظفر علی خان‘،’مولانا ظفر علی خان کی کتابیات‘، ’کلیاتِ نثر ظفر علی خان‘ اور’خطوط و خیوط ظفر علی خان‘ نہایت اہم ہیں۔
مولانا شبلی نعمانی کی اپنے شاگرد(ظفر علی خان) سے محبت نے ظفر علی خان کی علمی و ادبی تربیت نے بہت اہم کردار ادا کیا‘ظفر علی خان نے درجنوں مقامات پر اس محبت اور شفقت کا کھلے دل سے اعتراف بھی کیا۔استاد کی شاگرد سے محبت بلاشبہ شاگرد کے لیے ترقی کی راہیں ہموار کرتی ہے اور یہ محبت ہی شاگرد کوعلمی و تحقیق کام کی جانب لانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ظفر علی خان نے جس انداز میں مولانا شبلی سے اثر قبول کیا‘ان کے اسلوب اور تحریروں میں بھی اس کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ شبلی کا انداز تدریس اور طالب علموں سے شفقت آمیز رویہ‘طالب علموں کو اپنی جانب متوجہ کر لینے والا تھا‘بقول ڈاکٹر سید معراج نیر ”وہ (شبلی) مورخ’شاعر اور ادیب تھے‘ان کی جماعت میں بیٹھ کر جی خوش ہوتا تھا، ادبی نکات‘اساتذہ کے اشعار اور لطائف سنا کر تاریخی واقعات اس طرح بیان کرتے تھے کہ درس کا حق ادا ہو جاتا تھا“۔یہی وہ دور تھا جب ظفر علی خان نے مولانا شبلی کی جماعت میں بیٹھ کر سبق لیا اور ایسے وہ تاریخی‘اخلاقی اور سیاسی موضوعات کی طرف متوجہ ہوئے اور پھر مذکورہ شعبوں میں اس قدر تحقیقی و تخلیقی کام کیاکہ اب سیاسی‘اخلاقی اور تاریخی شاعری کی تاریخ مولانا ظفر علی خان کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہے۔اس میں بالکل دو رائے نہیں کہ عہدِ حاضر میں مولانا شبلی جیسے استاد تلاش کرناخاصا مشکل ہے۔ایسے اساتذہ جن کی جماعت میں بیٹھ کر مولانا شبلی نعمانی کی یاد آئے‘جو شبلی نعمانی کی طرح اپنے طالب علموں کی علمی و ادبی تربیت میں اپنا اہم کردار کریں۔
علی گڑھ جیسی علمی و ادبی دانش گاہ میں ظفر علی خان نے شبلی سے جو سیکھا‘اس کا ظہار ان کی تخلیقی زندگی میں دیکھا جا سکتا ہے۔علی گڑھ نے کیسے کیسے ہیرے تراشے اور کتنے ہی عظم لوگ پیدا کیا‘ایک طویل فہرست ہے۔بلکہ شبلی کی ذاتی زندگی میں بھی علی گڑھ بننے سے ایک تغیر آیا۔بقول ڈاکٹر زاہد منیر عامر”خود شبلی کے ہاں بھی قومی شاعری کا ظہور علی گڑھ کے ماحول کے زیر اثر ہوا،علی گڑھ جانے سے پہلے وہ قدیم خیالات کے شخص تھے اور بقول خود”حرف بہ اردو زدن آئین نہ بود“۔بقول ڈاکٹر شیخ محمد اکرام”…….علی گڑھ آنے کے بعد ان کی شاعری کا محور بدل گیا اور غزلوں کی جگہ قومی نظموں نے لے لی“۔ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے مذکورہ کتاب (دو کوزہ گر)میں شبلی و ظفرعلی خان کے تعلق کو جس محنت اور تحقیق سے پیش کیا ہے‘پڑھنے کے لائق ہے۔یہ کتاب گزشتہ ماہ مولانا عبد الستار عاصم نے بھیجی جو انہی کے ادارے قلم فاؤنڈیشن نے شائع کی ہے۔ کتاب میں ظفر علی خان کے اخبار ”زمیندار“ میں شائع ہونے والی شبلی کے متعلق تحریریں اور شبلی کی وفات پر ”زمیندار“میں شائع ہونے والے مضامین کا بھی تفصیل سے ذکر ہے۔”ادبیاتِ شبلی“ کے حصے میں بھی شبلی کے بارے خاصا اہم مواد موجود ہے۔
شبلی و ظفر کے تعلق میں بعض اوقات دراڑ پیدا ہوئی جس کا سبب ظفر علی خان کی متلون مزاجی کو قرار دیا جا سکتا ہے جیسا کہ ظفر علی خان کے مزاج میں منصوبہ سازی کا عنصر بہت تھا۔وہ منصوبے بہت تیزی سے بناتے اور جلد ہی فراموش کر دیتے۔شبلی کے خطوط میں ظفر علی خان کے تلون کا شکوہ ہے۔کتاب میں مصنف نے شبلی اور ظفر علی خان کے تعلق میں پیدا ہونے والی اس ساری صورت حال کو بھی انتہائی تفصیل سے بیان کیا ہے۔شبلی شناسی اور ظفر شناسی سے لگاؤ رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک ایسا تحفہ ہے جو ان کے مزاج میں تحقیق و تدوین کے کئی در وا کرے گا۔شبلی نے چراغ بن کر جیسے اپنے شاگردوں کو علم کی روشنی سے منور و معطر کیا‘اس کی مثال تاریخ میں اور عہدِ حاضر کی درس گاہوں میں بہت کم ملتی ہے۔میں استادِ مکرم زاہد منیر عامر کا ممنون ہوں انہوں نے اس کتاب کے ذریعے میری ایک اہم ترین موضوع کی جانب توجہ مبذول کرائی اور مجھے شبلی و ظفر کے بارے جاننے کا موقع دیا۔یہ کتاب صرف ادب و صحافت سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کو ہی نہیں پڑھنی چاہیے بلکہ دانش گاہوں اور تعلیمی اداروں میں بیٹھے اساتذہ کو بھی پڑھنی چاہیے تاکہ استاد اور شاگرد کے ایک آئیڈیل تعلق کے بارے جان سکیں۔عبد الستار عاصم کا بارِدگر شکریہ کہ انھوں نے اس بہترین کتاب سے نوازا اور مجھے روشنی سے مالا مال کیا۔

تبصرے بند ہیں.