اگر طالبان پر پابندیاں عائد کی گئیں تو انسانی بحران جنم لے گا: وزیراعظم عمران خان

134

اسلام آباد: وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ طالبان نے 20 سال بعد حکومت سنبھالی ہے، ان پر پابندیوں سے انسانی بحران جنم لے گا، داعش سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا واحد راستہ طالبان ہی ہیں، پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک افغانستان میں ایک جامع حکومت چاہتے ہیں ، امریکہ قائدانہ کردار ادا کرے اور دنیا کو بھی افغانستان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہئے۔ دنیا کشمیر کے مسئلے پر کیوں بات نہیں کرتی جہاں بھارت انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کر رہا ہے، کشمیریوں کو ان کا سیاسی اور اخلاقی حق ملنا چاہئے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’مڈل ایسٹ آئی‘ کو دئیے گئے انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جہاں طالبان نے 20 سال بعد حکومت سنبھالی ہے، کرپٹ اور کٹھ پتلی حکومت کیلئے افغان عوام کیوں ساتھ دیتے، افغانستان کو تنہاءچھوڑنے سے منفی اثرات مرتب ہوں گے اور طالبان پر پابندیوں سے انسانی بحران جنم لے گا کیونکہ افغانستان کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے اور وہاں خانہ جنگی سے بہت تباہی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو افغانستان کی صورتحال سے دھچکا لگا مگر اب وہ اس معاملے میں قائدانہ کردار ادا کرے کیونکہ افغان حکومت کے بجٹ کا 75 فیصد انحصار بیرونی امداد پر ہے جبکہ دنیا کو بھی افغانستان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہئے، مضبوط طالبان حکومت دہشت گردوں سے نمٹ سکتی ہے، جب تک امریکہ پہل نہیں کرتا، ہمیں پریشانی ہے کہ افغانستان میں انتشار پیدا ہوگا اور پاکستان اس سے سب سے زیادہ متاثر ہو گا، مستحکم طالبان حکومت ہی داعش کا مقابلہ کر سکتی ہے، اور یقین جانیں داعش سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا واحد راستہ طالبان ہی ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان خطے کے ممالک کیلئے اہم تجارتی راہداری ہے جس کے ذریعے وسط ایشیائی ریاستیں بحر ہند اور پھر افغانستان کے راستے پاکستان تک پہنچ سکتی ہیں، پاکستان خطے میں اقتصادی تعاون کا فروغ چاہتا ہے اور ایک جامع حکومت کاقیام چاہتا ہے جبکہ افغانستان کے پڑوسی ممالک بھی جامع حکومت چاہتے ہیں ۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی جنگ کا حصہ بننے پر دہشت گرد گروپ پاکستان پر حملہ آور ہوئے اور پاکستان میں دہشت گردی کے 16 ہزار واقعات ہوئے۔ حقیقت میں امریکہ کا ساتھی بن کر پاکستان جتنا نقصان کسی ملک نے نہیں اٹھایا نائن الیون کے بعد پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا گیا جس نے دہشت گردی کے خلاف 80 ہزار جانوں کی قربانیاں دیں، 50 کے قریب مختلف گروپ تھے جو پاکستان میں حملہ آور ہوئے۔ لیکن اب ہم کسی مسلح تنازع کا دوبارہ حصہ نہیں بننا چاہتے اور ایسے گروہوں سے بات کر رہے ہیں جو صلح چاہتے ہیں۔
وزیراعظم نے مسئلہ کشمیر سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کشمیر کو پاکستان کے قومی مفاد کا مسئلہ سمجھتی ہے مگر میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ دنیا کیوں کشمیر کے مسئلے پر بات نہیں کرتی اور انسانی حقوق پر بھارت کو کیوں تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ میں سمجھتا ہوں بھارت اور اسرائیل بہت قریب ہیں اور مودی اسرائیل کے دورے کے بعد مقبوضہ کشمیر پر چڑھائی کر دیتا ہے، بھارت کو امریکہ کی ویٹو پاور کا اندازہ ہے اس لئے وہ بچ نکلتا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے جس کی توثیق اقوام متحدہ نے کی ہے لیکن انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی مقبوضو کشمیر میں ہو رہی ہے اور بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنے کی کوشش کر رہا ہے، کشمیر میں صورتحال خطرناک ہے لیکن اس مسئلے کو نظرانداز کر دیا گیا۔ مشرقی تیمور کے لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا تو یہ حق کشمیر کے لوگوں کو کیوں نہیں دیا جاتا۔

تبصرے بند ہیں.