گوئبل سے گوئبلز تک۔۔۔

212

ہٹلر کے دور میں ہر سرکاری وردی اور سرکاری عمارت پر بدنام زمانہ سواستیکا علامت ہٹلر کی تصاویر ہر جگہ دکھائی دیتی تھی۔جرمن ایک دوسرے کو ہیل ہٹلر کے ساتھ سلام کرتے! بازو کی سلامی۔ اور یہ سب کروانے کا ذمہ دار سرکاری شعبہ ڈاکٹر روشن اور پروپیگنڈا تھا، جس کے سربراہ ڈاکٹر جوزف گوئبلز تھے۔
اس کا کام مختلف طریقوں کے ذریعے لوگوں کو نازیوں کی اطاعت اور ہٹلر کو بت بنانا تھا۔
تمام اخبارات حکومت کے زیر کنٹرول تھے اور وہ صرف نازی حکومت کے حق میں کہانیاں چھاپ سکتے تھے۔ریڈیو، جسے ‘پیپلز رسیور’ کہا جاتا تھا، بہت سستے میں فروخت کیا گیا تاکہ زیادہ تر افراد تک حکومتی پیغام پہنچ سکے۔ تمام ریڈیو آؤٹ پٹ کو گوئبلز کی وزارت کنٹرول کرتی تھی۔
لاؤڈ اسپیکر کے ساتھ ریڈیو سیٹ بھی نازیوں نے کیفے، فیکٹریوں، قصبے چوکوں اور گلی کوچوں میں رکھے تھے، تاکہ ہر کوئی نازی پیغام سن سکے۔عوامی مقامات پر لاؤڈ اسپیکروں نے نازی پروپیگنڈے کو بھی بھڑکایا۔ جرمنوں کو موصول ہونے والی زیادہ تر معلومات نے آریائی نسلی برتری کے پیغام کو تقویت بخشی جبکہ یہودیوں اور حکومت کے دوسرے ‘دشمنوں ‘ کو تباہ کیا۔1934 میں منظور شدہ بدنیتی پر مبنی گپ شپ قانون نے اینٹی نازی مذاق کو جرم قرار دیا، جس کے نتیجے میں جرمانہ یا قید ہو سکتی ہے۔
ہٹلر کی طرح، گوئبلز نے اپنی عوامی بولنے کی مہارت کو آئینے کے سامنے مشق کیا۔ جلسوں سے پہلے رسمی مارچ اور گانا ہوتا تھا، اور مقامات کو پارٹی بینروں سے سجایا جاتا تھا۔ اس کا داخلہ ہمیشہ دیر سے  ہوتا۔ گوئبلز نے عام طور پر پہلے سے طے شدہ اور کوریوگرافیڈ انفیکشن اور اشاروں کا استعمال کرتے ہوئے وقت سے پہلے اپنی تقریروں کا احتیاط سے منصوبہ بنایا، لیکن وہ اپنے سامعین کے ساتھ اچھا تعلق بنانے کے لیے اپنی پریزنٹیشن کو بہتر بنانے اور ڈھالنے میں بھی کامیاب رہا۔اس نے تقریروں کی طرف توجہ مبذول کروانے کے لیے لاؤڈ اسپیکر، آرائشی شعلے، یونیفارم اور مارچ کا استعمال کیا
اس نے برلن کے علاقے کے لیے پروپیگنڈا گاڑی کے طور پر اخبار ڈیر اینگریف (دی اٹیک) کی بنیاد رکھی، جہاں چند لوگوں نے پارٹی کی حمایت کی۔ یہ ایک جدید طرز کا اخبار تھا جو جارحانہ لہجے کے ساتھ تھا۔ 
 بیت بازی کی ایک مسلسل مہم شروع کی گئی جس کا نشانہ  مخالفین تھے۔ گوئبلز نے ادبی دنیا میں داخل ہونے کی کوشش کی، آخر کار ان کی کتاب مائیکل کاشائع ہوئی، برلن میں اس عرصے کے دوران اس کے کئی خواتین کے ساتھ تعلقات تھے، بشمول ان کی پرانی شعلہ انکا اسٹالرم، جو اب شادی شدہ تھی اور ایک چھوٹا بچہ تھا۔ وہ جلدی سے محبت میں پڑ گیا، لیکن آسانی سے ایک رشتے سے تنگ آ گیا اور کسی نئے کے پاس چلا گیا۔ 
قارئین کرام یہ سب وہ حربے تھے  جو ہٹلر نے اپنے دور میں استعمال کئے اور اپنے اقتدار پر گرپ حاصل کرنے کی کوشش کی۔آج جب ہم پاکستان کی سیاست کو دیکھتے ہیں تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا ہر آنے والا ہر وزیر اعظم ہٹلر سے بھی آگے جانے کی کوشش کرتا ہے اس کے پاس تو ایک گوئبل تھا لیکن یہاں تو وزراء کو رکھنے کا معیار ہی یہ ہے کہ وہ چھوٹا موٹا گوئبل ہو جو جتنا برا گوئبل ہو گا اس کی وزارت بھی اتنی ہی بری ہو گی اور وزرا کا کام ہی گوئبل کے اس قول پر عمل کرنا رہ گیا ہے کے جھوٹ اتنا بولو کہ سچ لگے۔اور یہ حربہ صرف موجودہ حکومت نہیں ماضی کی حکومتیں بھی استعمال کرتی رہی ہیں۔اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لئے اپنی مرضی کے قوانین نافذ کرنا اپنی نالائقی کو اپنی کامیابی قرار دینا جیسا کہ ہمارے ہاں موجودہ  حکومت کے وزراء کہتے ہیں کہ مہنگائی تو ہے ہی نہیں پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے وغیرہ وغیرہ  اس مقصد کے لئے وہ سوشل میڈیا سے بھی کام چلا رہے ہیں اور اپنے اس بیانئے کو ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔  افسوس تو اس بات کا ہے کہ اپنے بیانئے کو تقویت دینے کے لئے میڈیا کے لئے بھی ایسے قوانین لانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اسے بھرپور قابو کیا جا سکے اگر تاریخ دیکھی جائے تو گوئبل نے بھی یہی کیا تھا۔دوسری مثال چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع کا ہے جس کے لئے نیب آرڈیننس نافذ کیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ ہم اگر زیادہ پیچھے نہ جائیں تو یہ کام بے نظیر بھٹو کے پہلے دور سے شروع ہوا اور پھر یہ بڑھتا گیا ہر دور میں چاہے وہ مشرف ہو نواز شریف ہو یا پیپلز پارٹی سب ایک دوسرے پر بازی لیتے گئے  اور عوام بے چارے گوئبلز کے پیروکاروں کو دیکھ کر پریشان ہوتے رہے۔اب ہمارے حکمرانوں کو بھی علم ہو جانا چاہئے کہ یہ ڈیجیٹل دور ہے اس میں عوام کو بیوقوف بنانے کے یہ طریقے پرانے ہو چکے ہیں ہمیں گوئبل کی پیروکاری سے توبہ کر کے اس ہستی  یعنی نبی آخرالزمان حضرت محمد ؐ کی پیروی کرنا ہو گی جن کی ہم امت ہیں۔ وقت ہے کچھ کر کے دکھا دیں ورنہ سیاستدانوں سے اعتبار ختم ہو جائے گا۔

تبصرے بند ہیں.