جہاد کشمیر دراصل غزوہ ہند کا مقدمہ ہے

225

قلم کاروان،اسلام آبادکے زیر انتظام مجلس مشاورت میں مقبوضہ کشمیرکے ضلع پلواماکے نوجوان ادیب عاقب شاہین کے لکھے ہوئے ناول ”وہ جوخواب ہی رہا“کا تعارف پیش کیا گیا جس پر صدرمجلس پروفیسر نورالحق رضانے تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ جہادکشمیردراصل غزوہ ہندکا مقدمہ ہے اور یہیں سے پھوٹنے والی تحریک بالآخر ہندوستان سمیت پوری دنیامیں اسلامی نشاۃ ثانیہ کاباعث بنے گی۔ پیشین گوئیوں کے مطابق اب بہت جلدحالات کروٹ بدلیں گے اورعالم انسانیت کواچھے دن دیکھنے کو ملیں گے۔
غزوہ ہند یا حدیث غزوہ ہند پیغمبر اسلام ؐ کی پیش گوءِیوں میں مذکور ایک جہاد ہے جس کے متعلق چند احادیث روایت مروی ہیں۔ اس پیش گوئی کے مطابق برصغیر میں مسلمانوں اور کافروں کے درمیان میں ایک جنگ ہو گی، جس میں مسلمان فتح یاب ہوں گے۔حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ:”میرے جگری دوست رسول اللہ نے مجھ سے بیان کیا کہ” اس امت میں سندھ و ہند کی طرف لشکروں کی روانگی ہوگی” اگر مجھے کسی ایسی مہم میں شرکت کا موقع ملا اور میں (اس میں شریک ہوکر) شہید ہو گیا تو ٹھیک، اگر (غازی بن کر) واپس لوٹ آیا تو میں ایک آزاد ابو ہریرہ ہوں، جسے اللہ تعالیٰ نے جہنم سے آزاد کر دیا ہوگا”امام نسائی نے اسی حدیث کو اپنی دو کتابوں میں نقل کیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ:”نبی کریمؐ نے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ فرمایا۔ (آگے ابوہریرہؓ فرماتے ہیں) "اگر مجھے اس میں شرکت کا موقع مل گیا تو میں اپنی جان و مال اس میں خرچ کردوں گا۔ اگر قتل ہو گیا تو میں افضل ترین شہداء میں شمار کیا جاؤں گا اور اگر واپس لوٹ آیا تو ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا۔
محمدؐبن عبد اللہ کے آزاد کردہ غلام ثوبانؓ روایت کرتے ہیں۔میری امت میں دو گروہ ایسے ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ نے آگ سے محفوظ کر دیا ہے، ایک گروہ ہندوستان پر چڑھائی کرے گا اور دوسرا گروہ جو عیسیٰ ابن مریمؑ کے ساتھ ہوگا۔ابوہریرہؓ کی دوسری حدیث ہے، ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریمؐ نے ہندوستان کا تذکرہ کیا اور ارشاد فرمایا:”ضرور تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا، اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا فرمائے گا حتیٰ کہ وہ (مجاہدین) ان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے اور اللہ ان کی مغفرت فرمادے گا۔ پھر جب وہ مسلمان واپس پلٹیں گے تو عیسیٰ ابن مریمؑ کو شام میں پائیں گے۔
اکثر علما کا ماننا ہے کہ اس پیشن گوئی میں غزوہ محمد بن قاسم سے لے کر محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، احمد شاہ ابدالی اور قضیہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کی مجوزہ جنگ بھی شامل ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ عہد ِنبوت سے لے کر تا قیامت برصغیر (ہندوستان) میں پیش آنے والی مسلمانوں اور غیر مسلموں کی تمام لڑائیوں کو ‘غزوہ ہند’ قرار دے دینا درست ہے۔
جناب میرافسرامان نے ناول اور ناول نگار کا تعارف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ناول نگار مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ سے تعلق رکھتے ہیں جو ایک طویل عرصے سے بھارتی سیکولرفوج کی ریاستی دہشت گردی کا شکارعلاقہ ہے اور برہمن کی انسان دشمنی کے باعث وہاں کی زندگی اجیرن کردی گئی ہے۔ قلم کاروان کی لہروں کے دوش پر ہونے والی ادبی نشستوں میں یہ نوجوان شریک رہے۔ پھرانہوں نے اپنے ناول کی ایک نقل ارسال کی اور قلم کاروان کے ذمہ داروں نے اس ناول کی تعارفی تقریب منعقد کر کے مقبوضہ وادی کے مظلوم باسیوں کے ساتھ اس طرح اظہاریکجہتی کے اظہارکامنصوبہ بنایا۔ اس ناول پر ڈاکٹر ساجد خاکوانی، میرافسرامان اور اکرم الوری نے تحریری تبصرے پیش کیے۔ان تبصرہ نگاروں نے ناول کے مکالمے، کردار کرداروں کے نام اور واقعات کی حسن ترتیب کو بے حد سراہا،تبصرہ نگاروں نے خاص طورپر ناول کے مرکزی کردارکی شہادت کو ادب میں ایک اچھوتااندازقراردیاکیونکہ ناولوں میں عمومی طورپر مرکزی کردارکو کہانی کے انجام تک پہنچاکراسے کامیابی سے ہمکنارکیاجاتاہے جب کہ یہاں کے مناظر چنداں مختلف تھے۔
ناول نگارکے تحریرکردہ مناظر دراصل اس کے سامنے پیش آنے والے واقعات کی حقیقت نگاری ہے۔خاص طورپر انہوں نے ناول میں درج ایسے واقعات کا ذکرکیاجب بچوں کے سامنے ان کے والدین اور بزرگوں کوہندوستانی فوج تشددکانشانہ بناتی ہے اور اسی طرح بزرگوں کے سامنے ان کے نوجوان بچوں کو قتل کردیاجاتاہے یابھارتی سرکاری عسکری و نیم عسکری اداروں کے ہاتھوں اغواکرکے ان کے لخت جگرلاپتہ ہوجاتے ہیں۔
پانچ اگست کے بعد سیکڑوں نابالغ اور کمسن کشمیری بچوں کو حراست میں لیا گیا تھا اور اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھارت کے چیف آف ڈیفنس سٹاف بپن راوت نے بھارت میں نام نہاد بحالی یا ”ڈی ریڈکلائزیشن“ کیمپوں میں نابالغ اور کمسن کشمیری بچوں کی موجودگی کا خوفناک رونگٹے کھڑا کرنے والا اعتراف کیا ہے۔ اس انکشاف پر مقبوضہ کشمیر میں زبردست تشویش اور فکرمندی کی ایک لہر پیدا ہوئی ہے۔ کیونکہ دراصل کشمیری نوجوانوں اور بچوں کی بحالی اور اصلاح کے نام پر بنائے گئے تعذیب خانے ہیں جو انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر معذور بنانے کے لئے بنائے گئے اور یہ کشمیریوں پر بھارتی ظلم و ستم کی ایک نئی شکل ہے۔ بھارتی حکومت کومقبوضہ وادی میں اسلامیان کشمیرکی طرف سے جس شدید مزاحمت کا سامنا ہے وہ اس سے خوفزدہ ہو کر کمسن کشمیری بچوں اورکڑیل نوجوان کی برین واشنگ کیلئے شرمناک اورمذموم منصوبے بنارہی ہے تاکہ جدوجہد آزادی کی تحریک کی شدت اور حدت کو توڑا جا سکے۔
قابض افواج نے بے گناہ اور نہتے کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑتے ہوئے صرف دو سال میں سیکڑوں کشمیری نوجوانوں، بزرگوں اور خواتین سمیت بچوں کو یا تو بینائی جیسی نعمت سے یکسر محروم کردیا ہے اور یا پھر ان کی بینائی صرف 30 فیصد رہ گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم کشمیریوں پر یہ ظلم بھارت کی قابض افواج نے پیلٹ گنز کے اندھا دھند اور بے دریغ استعمال سے ڈھایا ہے۔

تبصرے بند ہیں.