نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت مسترد

121

 

اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق سفیر کی صاحبزادی نور مقدم کے قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے 8 ہفتے کے اندر ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دیدیا ہے۔

 

دلائل مکمل ہونے پر ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ ہوا تھا جسے آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے سنایا۔

 

گزشتہ سماعت کے دوران ایڈووکیٹ شاہ خاور نے موقف اختیار کیا تھا کہ نور مقدم کیس کا ٹرائل صدارتی آرڈیننس کے تحت سپیشل کورٹ میں ہونا چاہیے، اس پر جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ لگتا ہے آپ ٹرائل میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں کیونکہ آرڈیننس کی مدت اب ختم ہو چکی ہے۔

 

ایڈووکیٹ شاہ خاور کا کہنا تھا کہ کیس کو تاخیر کا شکار کرنا میرا قطعاً مقصد نہیں ہے، ہم نے مقدمے میں کسی غیر ضروری گواہ کو شامل نہیں کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ملزم ظاہر جعفر واقعے کے روز اپنے والدین سے مسلسل رابطے میں تھا۔ نور مقدم قت کیس سے ان کا تعلق بنتا ہے، مقتولہ کو انتہائی بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا، اس لئے ان کو ضمانت نہ دی جائے۔

 

جسٹس عامر فاروق نے ان سے استفسار کیا کہ ضمانت کی درخواست کرنے والوں اور تھراپی ورکس کمپنی کا کیا تعلق ہے، اس کا جواب دیتے ہوئے وکیل کا کہنا تھا کہ ملزم ظاہر جعفر کی والدہ تھراپی ورکس والوں کیلئے بطور کنسلٹنٹ کام کرتی رہی ہیں۔

 

اس سے قبل پیشی پر ملزمان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا تھا کہ پولیس نے چالاکی سے خود کہانی بنا لی ہے، ریمانڈ لینے کے بعد ان کے موکل سے کوئی بیان نہیں لیا گیا۔

 

ایڈووکیٹ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ پولیس نے جسمانی ریمانڈ میں عصمت آدم جی اور ذاکر جعفر کوئی پوچھ گچھ نہیں کی، پولیس چالان میں کہا گیا ہے کہ اگر ذاکر جعفر قتل سے پہلے پولیس کو بتے دیتے تو قمتولہ نور مقدم کی جان بچ سکتی تھی۔

 

ان کا کہنا تھا کہ پولیس چالان کے مطابق ظاہر جعفر کے والدین نے واقعے میں اعانت کی، اگر پولیس کی اس بات کو مانا بھی جائے، پھر بھی جو دفعات لگائی گئی وہ نہیں بنتیں۔

تبصرے بند ہیں.