جھونپڑی

120

کالی گھٹائیں اور گرجتا بادل اس ماں کے دکھ کو اور بھی گہرا کر رہا تھا،وہ کبھی آسمان کی طرف دیکھتی تو کبھی اس کی نگاہ بچوں پر مرتکز ہو جاتی،وہ حفظ ما تقدم ایندھن اکھٹا کر کے اسے محفوظ کر رہی تھی، اسے یہ بھی فکر لاحق تھی کہ مینہ جم کر برسا تو کھانا کیسے پکے گا، وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعائیں کر رہی تھی کہ کاش بادل کہیں اور جا کر برسے، بچے اس صورت حال سے بے خبر اپنی دھن میں مست تھے،جب آسمان پر بجلی چمکتی تو وہ سہم کر ماں سے لپٹ جاتے وہ انہیں جھونپڑی میں دھکیل کر سامان کو سمیٹنے میں مصروف ہو جاتی، اس کو یہ بھی غم کھائے جارہا تھا کہ اس کا شوہر ابھی تک گھر نہیں آیا، تیز آندھی اور بارش ایک ساتھ آگئی تو وہ کس کس چیز کو سنبھال پائے گی، بادل آج پھرجم کر برسا ہر طرف پانی ہی پانی تھا، جہاں اس خاندان کی جھونپڑی تھی وہ جگہ ذرا گہری تھی، پانی آہستہ آہستہ اس میں داخل ہوتا رہا،یہ سارا خاندان دو چار پائیوں پر مقید ہو کر رہ گیا، جب بارش تھم گئی تو اس نے بچوں کی مدد سے چار پائی اٹھا کر سڑک پر ڈال دی،کالونی کے خالی پلا ٹوں میں اس طرح کے کئی خاندان رہائش پذیر تھے، آسمان صاف ہو گیا تو ماں کو بچوں کے کھانے کی فکر ہوئی، گھر کا بہت سا سامان پانی میں تیر رہا تھا، وہ ایک ایک کو اٹھا کر اونچی جگہ پر رکھ رہی تھی،کھانے برتن اکھٹے کرنے کے بعد اس نے آگ جلائی تاکہ بچوں کے لئے روٹی بنا سکے،ترپال کے نیچے رکھا ایندھن قدرے محفوظ رہا۔
ہم یہ منظر سرکاری بالائی منزل سے دیکھ رہے تھے، ہم نے اردگرد آبادی پر نگاہ دوڑائی تو بچوں کو گلیوں میں پانی میں کھیلتے دیکھا، کچھ شرارتوں میں مصروف تھے، دوران بارش بہت سے نوجوان نہانے میں مگن تھے اکثر اس سہانے موسم سے لطف اندوز ہو رہے تھے، بعض نے اسکی مناسبت سے میوزک بھی چلا رکھا تھا، کچھ صنف نازک اپنے گھروں کی چھتوں پر براجمان تھیں اور چائے پی کر اچھے موسم کی رونق کو دوبالا کر رہی تھیں، اس موسم سے صرف وہی لطف اندوز ہورہے تھے جو بلندو بالا عمارات کے مکیں تھے جن کے مکان خستہ حالت میں تھے اِنکی جان پر بنی ہوئی تھی، آبادی سے بلند ہونے والی آوازیں اس سارے منظر کی کہانی بیان کر رہی تھیں، اس بارش نے سماج کے تمام طبقات کو نمایاں کر دیا تھا،دولت مندوں کے چہرے کھلے کھلے تھے، حالت غربت میں جینے والوں کے چہروں پر فکر مندی نمایاں تھی، ان میں سب سے نازک معاملہ تو جھونپڑی میں اس خاندان کا تھا جو آسمان سے باتیں کرتی عمارات کے درمیاں بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔
محلات میں مقیم بچوں کو تو یہ سہولت بھی حاصل ہوتی ہے، کہ انہیں مخمل کے گرم بستر دستیاب ہوتے ہیں، بارش میں سردی لگنے کا امکان ہو تو مائیں فوراً شہد کھلا سکتی ہیں،انڈہ اور گرم دودھ سے تواضع کی جاسکتی ہے، معاملہ ذرا بگڑنے لگے تو ڈاکٹر تک رسائی کر نا انتہائی آسان ہے، لیکن یہ سب کچھ جھونپڑی میں مقیم بچوں کا مقدر کہاں؟ کیا اللہ تعالی ٰ نے ایسی ماؤں کا دل سخت رکھا ہے جو اپنے بچوں کے ہر غم کو سہہ لیتی ہیں، وہ شکوہ کناں ہو ں بھی تو کس سے، ارباب اختیار کے پاس تو معقول بہانہ ہے کہ اس قماش کے لوگ ایک جگہ قیام کریں تو انہیں بھی دیگر شہریوں کی طرح بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔
اس طبقہ کے بچے ان معروضی حالات ہی کو اپنا نصیب سمجھ کر خاموش ہو جاتے ہیں، انہیں کیا معلوم کہ اسلامی تاریخ میں ایک ایسا بھی حکمران گزرا ہے جو اپنے کندھے پر آٹا اٹھا کر جب بڑھیا کے پاس جاتا ہے تو ہاتھ باندھ کر فریاد کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کی شکایت نہ کرنا ورنہ عمرؓ ہلاک ہوجائے گا، ان بچوں نے تو اسی ماحول میں آنکھ کھولی، اپنے آباؤ اجداد کو حالت سفر ہی میں دیکھا۔
اردگرد خوبصورت عمارات کو دیکھ کر ان کے دل میں بھی یہ آرزو تو جنم لیتی ہو گی کہ کاش وہ بھی اس طرح کے پرتعیش کمروں میں سو سکتے، موسم کی حدت اور شدت سے بچ سکتے، انہوں نے خود کو ایسے در پر بھیک مانگتے ہی پایا، کیا اللہ ہی نے اِنکا مقدر ایسا لکھا تھا، انہیں کیا معلوم کہ اس ریاست کے وسائل پر انکا بھی حق ہے یہ تو اس بات سے بھی بے خبر ہیں کہ اس ریاست کی اقلیت کے تسلط میں زیادہ جبکہ اکثریت کے پاس کم قومی وسائل ہیں۔ انہیں تب ہی معلوم ہو سکتا تھا اگر ان بچوں کو کسی مدرسہ میں پڑھنے کے مواقع میسر آتے، تب یہ کسی سے سوال بھی کرتے، ان بچوں نے اپنے بڑوں کو کسمپرسی کی زندگی گزار کر لہد میں اترتے دیکھا ہے، گمان ہے کہ جب اس سماج میں کسی عفت مآب بہن یا بیٹی کی عزت کے حوالہ سے میڈیا پر چرچا کیا جاتا ہے تو اِنکے زخم بھی تازہ ہو جاتے ہیں، انہیں وڈیروں، جاگیر دارروں اور بگڑے نوابوں کے ہاتھوں اپنی عزت پر لگے داغ یاد آجاتے ہیں،یہ بھی اپنی آنکھوں سے اس طرح کے عیاش لوگوں کو سزا ملتی دیکھنا چاہتے ہیں، مگر اس ریاست کا انصاف اور غربت اِنکے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے، انکی بچیاں اس گلوبل ولیج میں بھی غلامی کی سی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، یہ بھی ہزاروں خواہشیں سینے میں دفن کر کے خود زیر زمین ابدی نیند سو جاتی ہیں کس کس برانڈ کی ہاؤسنگ سوسائٹیاں یہاں بن رہی ہیں، سرکار نے مکانات کی تعمیر کے لئے عام شہری کے لئے کونسی سکیم فنانشل لانچ کی ہے یہ اس سے بھی لاعلم ہیں۔
ایک ہی ریاست کے ہم شہری ہیں آئین پاکستان کے مطابق ہمارے یکساں حقوق رقم ہیں لیکن زمینی حقائق بتا تے ہیں کہ یہ ہر گز کتابی معاشرہ نہیں ہے یہاں ہر کسی کو اپنا اپنا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے،دوست نے جھونپڑی سے پانی نکالتی بچوں کی ماں کو دیکھ کر کہاکہ انکے حقوق کے لئے آواز کیوں نہیں اٹھائی جاتی، انہیں تیسرے درجہ کے شہری کیوں خیال جاتا ہے، اِنکی حالت اس وقت دیدنی ہوتی ہے جب کوئی وڈیرہ، زمین کا مالک انہیں کوچ کر جانے کا حکم دیتا ہے، ایسے قبیلوں پر نجانے کتنی ڈاکومنٹری بن چکی ہیں کسی کو بھی ان کی حالت زار پر رحم نہیں آیا، ٹھنڈے کمروں میں برا جماں این جی اوز کے نمائندے موسم کی حدت اور شدت میں دیکھیں کہ انکے بزرگوں پر کیا بیتتی ہے۔انکا شمار بزرگ شہریوں میں کیوں نہیں ہوتا؟
دوست گویا ہوا کہ روایت ہے،کہ مدینہ میں کسی صحابیؓ کاعالی شان مکان نبی مہربانؐ نے دیکھا تو مسجد نبویؐ میں اس پر خفت کا اظہار کیا، دلیل یہ دی کہ جب مسلمانوں کی حالت معاشی طور پر ناگفتہ بہ ہے تو کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کی دل آزاری کرے،کہا جاتا ہے کہ جب صحابی رسول کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اس گھر کو اپنے ہاتھوں سے گرا دیا،محلات میں مقیم مقتدر طبقہ اس لاچار طبقہ کے بچوں پر کب ترس کھائے گا، کہ یہ بھی کبھی خوبصورت موسم سے لطف اندوز ہو سکیں اور انہیں اپنے ہی جھونپڑی میں اپنے اور اہل خانہ کے ڈوبنے کا قلق نہ ہو۔

تبصرے بند ہیں.