توسیع

141

مریم نواز نے کہا ہے میں توسیع کے گناہ میں شامل نہیں لیکن اگر یہ گناہ ہے تو اس کا ارتکاب مریم کے والد اور تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے میاں نوازشریف نے کیا تھا…… مریم ان ہی کی سیاسی وارث ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے اندر جو دبے لفظوں میں اقتدار کی جنگ چل رہی ہے اور اکثر اوقات اتنی شدت اختیار کر جاتی ہے کہ منظرعام پر آئے بغیر نہیں رہتی…… یوں ملک بھر میں زیربحث آ جاتی ہے…… اس جنگ میں بھی مریم بی بی مدمقابل چچا، شہباز شریف کی جگہ والد نوازشریف کی سیاسی وراثت پر قبضہ کر کے اگلا وزیراعظم بننے کی امیدوار ہیں …… دل سے شاید نوازشریف بھی یہی چاہتے ہیں مگر اس کے اظہار میں غیرمعمولی احتیاط سے کام لے رہے ہیں کیونکہ شہباز کو اپنے سیاسی قافلے سے جدا کرنا ان کے مفاد میں نہیں …… خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا جو بیچ مقطع کے آ گیا…… بات شروع ہوئی تھی توسیع کے گناہ سے جس میں مریم اپنے بقول شریک نہیں تھیں مگر مرتکب اس کے بہرصورت نوازشریف ہوئے تھے…… یوں اپنی سیاست کے اصولی دامن پر ایسا دھبہ لگا دیا جو اب مٹائے مٹ نہیں رہا…… نوازشریف بھی ہمیشہ سے توسیع کے مخالف رہے ہیں …… انہوں نے جنرل وحید کاکڑ کو یہ سہولت حاصل کرنے نہیں دی…… آصف علی زرداری صاحب نے صدر پاکستان کی حیثیت سے جنرل کیانی کو اس سے سرفراز کیا اور میاں نوازشریف نے قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے اپنے اختلاف کو ڈھکا چھپا نہیں رکھا…… ان کی تیسری وزارتِ عظمیٰ کے دوران جنرل راحیل شریف نے ہر طرح کی لابنگ کا حربہ استعمال کر دیکھا، دباؤ ڈالا…… ترغیبات بھی دیں تاکہ وزیراعظم ان کو توسیع دینے پر آمادہ ہو جائیں مگر میاں نواز شریف ٹس سے مس نہ ہوئے، پھر جنرل قمر جاوید باجوہ کے زمانے میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ایک بوگس فیصلے کے نتیجے میں ان کی برطرفی کا حکم جاری ہوا…… گھر آن بیٹھے…… نومبر 2019 میں علاج کی خاطر برطانیہ گئے تو معلوم نہیں کون سی مصلحت آڑے آئی اور اپنی جماعت کے اراکینِ قومی اسمبلی کو وہاں سے حکم بھیجا کہ جنرل باجوہ کی توسیع کے بل کی حمایت کریں …… اب مریم دو سال بعد اسے گناہ قرار دے کر باپ کا دھونا دھونے کے لئے سامنے آئی ہیں …… لیکن میں شاید اس وقت ملک بھر میں واحد لکھنے والا تھا اور میاں صاحب کی اصولی آئینی سیاست کی حمایت بھی کرتا تھا جس نے ’نئی بات‘ کے اندر اپنے کالم میں کھلے انداز اور غیرمبہم الفاظ میں لکھا میاں صاحب آپ سے بہت بڑی غلطی سرزد ہو گئی ہے جو آپ کا پیچھا کرتی رہے گی……
پچھلے دو اڑھائی ہفتوں کی خبروں کا بنظرِغائر جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شہباز شریف صاحب نے اسٹیبلشمنٹ یا جنرل باجوہ کی میاں نوازشریف کے ساتھ صلح کرانے میں بہت کوشش کی ہے…… کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کے نتائج سے بھی اسی جانب اشارہ ملتا ہے مگر یوں معلوم ہوتا ہے کہ مریم نواز کے محو بالا ایک بیان نے ان
کوششوں پر پانی پھیر دیا…… توسیع کے لفظ میں ایسی کیا بات پائی جاتی ہے تقریباً ہر آرمی چیف اس کا خواہشمند رہا ہے اور اب تو نوبت باایں جا رسید کہ نیب جیسے متنازع ترین ادارے کا اس سے بھی زیادہ متنازع موجودہ سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال بھی اس کا حد درجہ خواہشمند ہے اگرچہ اسے توسیع دینا قانون مملکت کے الفاظ اور روح دونوں کو پامال کر کے رکھ دینا ہو گا اس کے باوجود عمران حکومت کے پاؤں بھی پڑ جانے کے لئے تیار ہے کہ اپوزیشن کی ایسی تیسی کرتا رہوں گا تمہیں ہرگز زک نہیں پہنچاؤں گا…… ایسا آرڈیننس لاؤ مجھے توسیع عنایت فرماؤ…… خان بہادر وزیراعظم کو بھی انکار نہیں تھا…… مگر متعلقہ قوانین کا پوری طرح جھٹکا بھی کر کے رکھ دیا جائے تو آرڈیننس کی گنجائش نکل نہیں پا رہی…… تاہم اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہماری ملکی تاریخ میں ایک کے بعد دوسرے آرمی چیف نے اپنے طاقتور عہدے کی بدولت توسیع حاصل کی یا خود کو اس سے سرفراز کیا پھر ڈنڈے کی طاقت کے زور پر حکومت کاری کے مزے لوٹتے رہے…… اگرچہ ہرگز اس کا استحقاق نہیں رکھتے تھے بلکہ اصل بات یوں ہے کہ پہلے پاکستانی کمانڈر اِن چیف جنرل ایوب خان کو وزیراعظم ملک فیروز خان نون توسیع کی ’خلعت‘ نہ پہناتے تو وہ اس کے اڑھائی تین ماہ بعد میجر جنرل سکندر مرزا کی ملی بھگت کے ساتھ ملک میں پہلا مارشل لا نہ لگا پاتے جو اگلے دس برس تک قوم کی قسمت کے ساتھ کھیلتا رہا…… پھر جنرل یحییٰ مسلط ہوا جس نے اڑھائی برس کے اندر ملک و قوم کی لٹیا ہی ڈبو کر رکھ دی…… جنرل ضیاء الحق نے چیف آف دی آرمی سٹاف بننے کے دو سال کے بعد مارشل لا لگایا…… بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا…… اپنی غیرآئینی طاقت کے بل بوتے پر خدا جھوٹ نہ بلوائے خود کو تین مرتبہ توسیع عنایت فرمائی…… وگرنہ اس کی غیرآئینی ڈنڈا بردار حکومت برقرار نہ رہتی…… یہی حشر بقیہ ملک کی تاریخ کے ساتھ ہوتا رہا…… مثنیات بس یہ ہیں جنرل اسلم بیگ نے توسیع نہیں لی…… ان کے ہاتھوں سے مارشل لا بھی نہ لگا…… جیسا کہ اوپر لکھ چکا ہوں جنرل عبدالوحید کاکڑ ارادہ رکھتے تھے مگر نوازشریف آڑے آ گئے……
پھر جنرل آصف نواز کے بوٹوں کی چاپ سنائی دینے لگ گئی…… بہت سوں کو کان ہو گئے مگر فرشتہئ اجل نے آ لیا…… ورنہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے ساتھ دینے کی حامی بھر لی تھی…… مارشل لا بھی لگا لیتے اور بعد میں توسیع بھی لیتے رہتے…… جنرل جہانگیر کرامت شریف النفس آدمی تھا…… ساتھیوں کے بہکاوے میں آ گیا…… نیشنل سکیورٹی کونسل کی بات برملا کر بیٹھا…… نوازشریف نے نیا نیا ایٹم بم بنا کر خود کو طاقتور بنا رکھا تھا چنانچہ جنرل کرامت اس کے ایک دو سوالوں کی تاب نہ لاتے ہوئے استعفیٰ دے کر گھر جا کر بیٹھنے پر مجبور ہو گیا…… پھر جنرل پرویز مشرف نے تو وہ اُدھم مچایا کہ دنیا دانتوں میں انگلیاں دبا کر بیٹھ گئی…… کارگل کی مہم جوئی تھی…… وہاں کامیابی نہ ملی تو اقتدار پر قبضہ جما لیا…… پھر ایک کے بعد دوسری توسیع حاصل کی…… زرداری صاحب اُٹھتے بیٹھتے قوم پر احسان جتاتے ہیں کہ میں نے تمہاری اُس سے جان چھڑوائی…… جنرل کا اپنا خیال ہے کہ وردی نہ اُتارتا تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا…… کچھ مبصرین کی رائے ہے کہ نئے وردی پوش جنرل کیانی بھی اندر اندر سے ہاتھ کی صفائی دکھا رہے تھے…… وجہ جو بھی تھی، کیانی صاحب کو قائد حزب اختلاف کی مخالفت کے باوجود وقت آنے پر توسیع مل گئی…… مگر اب زمانہ بدل چکا تھا…… بے نظیر کو مشرف کے آخری دور میں سرعام قتل کیا جا چکا تھا…… نوازشریف جلاوطنی سے لوٹ آیا تھا…… اسٹیبلشمنٹ کے طاقتور عناصر نے طے کیا کہ ننگے مارشل لا کی بجائے اندر بیٹھ کر حکومت کی جائے…… فرنٹ پر دکھاوے کی خاطر سویلین کو رکھا جائے…… توسیع کی خواہش کو اس کے باوجود انہوں نے پالے رکھا…… پھر نوازشریف اور جنرل باجوہ…… یہ کہانی اتنی دفعہ دہرائی جا چکی ہے اور لمحہ موجود کی سیاست کا سلگتا ہوا موضوع بھی ہے…… مریم نواز نے اسے اپنے انداز سے چنگاری دکھائی ہے…… توسیع ایک جرنیل کی اپنے عہدے کے ساتھ چمٹے رہنے کی سب سے بڑی ضمانت کا کام دیتی ہے…… تو کیا نوازشریف 2019 میں یہ کام کر کے پچھتا رہے ہیں …… کیا مریم کا تازہ بیان اسی کی غمازی کرتا ہے…… اصل حقیقت جاننے میں شاید زیادہ دیر نہ لگے……

تبصرے بند ہیں.