ماحولیاتی تبدیلی کا چیلنج، برطانیہ اور اٹلی کی قابل تعریف کوششیں

171

ٹویٹر ہو انسٹاگرام یا فیس بک، آج کل ٹرینڈز میں آپ کو Pre-COP اور (COP26) کہیں نہ کہیں ٹرینڈنگ کرتے نظر آ ہی جاتے ہیں۔ ہمارے جیسے لوگ عام طور پر اس کو نظرا نداز ہی کر دیتے ہیں کہ جانے یہ کیا بلا ہے بلکہ ہم اسکرول کرتے ہیں کہ کہیں سیاسی لڑائی جھگڑے، سیاسی گالم گلوچ ، مینار پاکستان جیسے واقعات ، شو بزشخصیات کے لڑائی جھگڑے، شادی یا اُن کے ہاں بچے کی پیدائش، بچے کا نام اور بگ باس میں کام کرنے والے سی گریڈ فنکاروں کے اسکینڈلز مل جائیں، لیکن حالات بہت سنجیدگی کا تقاضہ کر رہے ہیں۔ یہ جو آپ کو ٹرینڈ پر Pre-COPاور(COP26) نظر آتے ہیں، یہ دراصل دنیا کے سب سے سنگین اور سلگتے ہوئے مسائل کی طرف آپ کی توجہ دلاتے ہیں۔

Pre-COPوہ ماحولیاتی کانفرنس ہے جو 30 ستمبرسے 2 اکتوبر 2021 تک اٹلی کے خوبصور ت شہر میلان میں ہو رہی ہے اور اس کے انعقاد میں اٹلی کو برطانیہ کا بھی تعاون حاصل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی اس میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز بخشا ہے اور انشاء اللہ میں اس کانفرنس کے دوران ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کے اقدامات اور کوششوں کو دنیا بھر کے نوجوانوں کےسامنے پیش کروں گی۔

 Pre-COP کانفرنس کے دوران پاکستان سمیت تقریباً چالیس ممالک سے آنے والے نوجوان ماحولیاتی تبدیلی کے موضوع پر گلاسکو میں ہونے والی (COP26) کانفرنس کا ایجنڈا طے کریں گے۔ کانفرنس کے ایجنڈے کے مطابق میں دنیا بھر سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اسمارٹ انداز اور تیز رفتاری کے ساتھ کام کرنے والے گروپوں میں شرکت کروں گی اور ٹھوس تجاویز COP26 میں شریک وزراء کو پیش کی جائیں گی ۔ اس بڑی کانفرنس کا موضوع UNITING THE WORLD TO TACKLE CLIMATE CHANGE منتخب کیا گیا ہے ۔ کانفرنس کی میزبانی برطانیہ کر رہا ہے۔

COP26 کے تحت برطانیہ تمام اسٹیک ہولڈرزکو ایک موقع فراہم کرے گا کہ وہ پیرس معاہدے اور ماحولیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کے تحت اہداف حاصل کرنے کے لئے کوششیں تیز کریں۔ میزبان کے طور پر برطانیہ تمام ممالک، انٹرنیشنل سول سوسائٹی، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور افراد سے مل کر ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ اس کانفرنس میں 35 سے 40 ممالک ، یو این ایف سی سی سی سیکریٹریٹ کے نمائندے ، کنونشن کے ماتحت اداروں کی چیئرز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز شرکت کریں گے۔

ہم یہ سمجھیں کہ (COP26) ماحولیاتی تبدیلی کے موضوع پر بڑی کانفرنس ہے اور Pre-COP اس موضوع پر چھوٹی کانفرنس ہے۔ تو اس چھوٹی کانفرنس کو اٹلی کی وزارت ماحولیات کر و ا رہی ہے اور اس کا موضوع Youth4Climate#DriveingAmbition منتخب کیا گیا ہے۔

جب سے اس کانفرنس کے لئے میرا انتخاب ہوا ہے، مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اٹلی نے مجھے گود لے لیا ہے۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد ایک ای میل آتی ہے کہ آپ کیسی ہیں؟ صحت کیسی ہے؟ کھانسی تو نہیں ہو رہی؟ آنکھیں تو نہیں جل رہیں؟ کھانا وقت پر کھائیں، پانی زیادہ پئیں، کانفرنس کی تیاری کے طور پرورچوئل اور انٹرایکٹو میٹنگز کا ایک سلسلہ جاری ہے جس میں شریک تمام ممالک کے نوجوان اپنے خیالا ت کا اظہار کر رہے ہیں ۔اس سلسلے کو Youth4ClimateLiveSeries کا نام دیا گیا ہے ۔یہ بات مجھے بھی بہت دیر سے پتہ چلی کہ اٹلی والوں کو میری کم اور اپنی فکر زیادہ ہے کہ کہیں کوئی بیمار ان کی سرزمین پر قدم رکھ کر انہیں بھی بیمار نہ کر دے۔ لاہور سے دبئی اور دبئی سے میلان تک صحت کے حوالے سے کن ہدایات پر عمل کرنا ہے، ان کو قلم بند کرنے کے لئے پوری کتاب درکا ر ہے، لیکن اس کا ذکر اگلے آرٹیکل میں کروں گی۔

مجھ سمیت دنیا بھر کے ماحولیاتی تبدیلی کے لئے کام کرنے والے ایکٹوسٹس کا خیال ہے کہ تیزی سے ہاتھوں سے نکلنے والی ماحولیاتی تبدیلی کو کنٹرول کرنے کے نئے عزم اور وعدوں پر عملدرآمد کرنے کے لئے (COP26) آخری موقع ہو سکتا ہے ۔کانفرنس کے دوران شریک ممالک کے منتخب گروپس ان امور اور پہلوؤں پر غور کریں گے کہ کس طرح بدلتے ہوئے موسم کے برے اثرات سے بچا جا سکتا ہے ۔ اقو ام متحدہ ترقی یافتہ ممالک کےساتھ مل کر تین دہائیوں سے تقریباً تمام ملکوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر رہا ہے تاکہ عالمی سطح پر آب و ہوا کے مسائل سے نمٹا جا سکے اور اسی کو COPs کہا جاتا ہے، یعنی ‘Conference of the Parties’ ۔

موجودہ دور میں ماحولیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ بن کر تقریباً تمام ملکوں کی ترجیح بن گئی ہے۔برطانیہ دنیا کےدیگر ممالک کےساتھ مل کر کوشش کر رہا ہےکہ ماحولیاتی تبدیلی کو کنٹرول کیا جا سکے۔

ہمارے ملک میں بھی اب موسم بدل رہا ہے۔ کراچی سے لے کر گلگت تک اور پشاور سے گوادر تک گرمی کی شدت کم ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن اگلے سال جون میں یہ دن دوبارہ آجائیں گے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ تپش میں مزید شدت آتی جائے گی۔ حالات اتنے اچھے نہیں جتنے نظر آتے ہیں ۔ کرہ ارض کے درجہ حرارت کو کنٹرول میں رکھنے کےلئے ضروری ہے کہ اس میں اضافے کو 1.5 ڈگری تک محدود کیا جائے۔ دنیا نے اپنے لئے ‘نیٹ زیرو’ کا ایک ہدف رکھا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس صدی کے نصف تک ہمیں کاربن کی پیداوار کم کرنی ہے ۔ اس وقت دنیا ایک کم کاربن مستقبل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے کارکن کے اخراج کو کم کرناہی کافی نہیں ہے۔سچ پوچھیں تو بہت سی قوموں کے لئے تصویر کا دوسرا رخ بہت بھیانک ہے ۔اگر ہم درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری تک محدود کرنے اور آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کو اپنانے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں اپنی زمین اور سمندروں کی دیکھ بھال کرنا ہوگا۔ اگر ہم دنیا کی بائیو ڈائیورسٹی کی حفاظت اور بحالی چاہتے ہیں تو COP26 میں تمام ممالک کو عزم مصمم کرنا ہو گا کہ دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر جنگلات اور خراب ہوتے ماحولیاتی نظام کی حفاظت کی جائے اور جہاں خرابی ہو چکی ہے اس کو درست کرنےکے لئے مل کر کام کریں ۔ امیر اور غریب کو مل کر پائیدار ، لچکدار اور فطری مثبت زراعت کی طرف منتقل ہونا پڑے گا۔

یہاں میں اگر ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے برطانیہ اور اٹلی کی کوششوں کا اعتراف نہ کروں تو بہت زیادتی ہوگی ۔برطانیہ تمام دنیا سے کہہ رہا ہے کہ وہ 2030 تک کاربن کے اخراج میں کمی کے اہداف کے ساتھ آگے بڑھیں اور ایسے اقدامات کریں کہ صدی کے وسط تک نیٹ زیرو کا ٹارگٹ حاصل کر سکیں ۔ برطانیہ اور اٹلی دنیا کو یاد کروا رہے ہیں کہ موسمی تبدیلی لمحہ موجود کا سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں طوفان ، سیلاب اور جنگلات کی آگ شدت اختیار کر رہی ہے، فضائی آلودگی خطرناک حد تک لاکھوں لوگوں کی صحت برباد کر رہی ہے، غیر متوقع موسم سے لاکھوں لوگ بے گھر ہو رہے ہیں اور دنیا بھر میں معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے، ان حالات میں ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے نمٹنے میں پیشرفت ، آنے والی نسلوں کو صاف ہوا اور اچھی ملازمت کی فراہمی ، فطرت کی بحالی اور مساو ی معاشی ترقی کے لئے دنیا کونہ صرف مل کر کام کرنا ہوگا بلکہ ہنگامی اقداما ت بھی کرنا ہوں گے۔

بات چل نکلی ہے تو ایک نظر 2015 کے پیرس معاہدے پر ڈال لیتے ہیں جب پہلی بار دنیا کو احساس ہوا کہ گلوبل وارمنگ بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے اور اب تمام دنیا کو مل کر کام کرنا ہو گا۔

12 دسمبر 2015 کو پیرس کی ماحولیاتی کانفرنس کے دوران دنیا نے ایک معاہدہ کیا جس کے تحت 2050 تک دنیا کے درجہ حرارت میں اضافے کو 2 ڈگری تک محدود کیا جانا تھا۔ اس معاہدے کے لئے پیرس میں دو ہفتے مذاکرات ہوتے رہے اور عزم کیا گیا دنیا بھر میں کاربن کے اخراج میں کمی کی جائےگی۔ معاہدے کے تحت عالمی دنیا اپنی کوششیں تیز کرے گی اور عالمی سطح پر درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری تک محدود کیا جائے گا۔ پیرس میں ا تفاق کیا گیا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے لاحق خطرات پہلے کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہیں، پیرس معاہدے کے تحت ہونے والی پیش رفت کا ہر پانچ برس بعد جائزہ لیا جائے گا۔ 2020 سے ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کےلئے سالانہ ایک سو ارب ڈالر کی مالی مدد فراہم کی جائے گی اور پھروقت کے ساتھ اس میں اضافہ کیا جائے گا۔ دنیا کے تمام ممالک عالمی سطح پر درجہ حرارت کو 2 درجے اضافے تک محدود کرنے کےقانونی طور پر عملدرآمد کے پابند ہوں گے۔

تھوڑا اور پیچھے جائیں تو 2009 میں امیر ممالک نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ 2020 تک ہر سال 100 بلین ڈالر کا فنڈ جمع کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچانے کےلئے تمام ممالک کی مدد کی جا سکے۔ اب اس ماہ کے آخر میں میلان میں Pre-COP اورگلاسکو میں (COP26)کے دوران ماضی پر نظر دوڑائی جائے گی کیا کھویا اور کیا پایا؟کس نے وعدے کر کے توڑ دیئے اور کس نے وعدے کو نبھایا۔ 2021 کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا ہو گا۔ یہ بات قابل ذکر اور قابل ستائش ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں نمایاں حصہ نہ ہونے کے باوجود پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کی مصیبت کا مقابلہ کرنے کے لئے نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔

زینب وحید ماحولیاتی تبدیلی کیلئے کام کرنے والی معروف سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور کیمرج کی طالبہ ہیں۔ وہ صف اول کی مقررہ، مصنفہ اور متعدد شہرت یافتہ اداروں کی سفیر بھی ہیں۔ انہیں اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری برائے یوتھ کی جانب سے اٹلی کی عالمی کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ زینب وحید پینڈیموس ایکشن انیشیٹوو کے نام سے سوشل ویلفیئر پروجیکٹ کی بانی بھی ہیں جس کا مقصد انسانوں کے درمیان ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کرنا ہے۔ اس پروجیکٹ کی سرپرستی یونیورسٹی آف ٹورنٹو کر رہی ہے۔ زینب وحید انٹرنیشنل یوتھ کانفرنس 2021 کی پینلسٹ ہیں۔ اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل سول سوسائٹی کے تحت کانفرنس میں پینلسٹ کے طور پر بھی شامل ہیں۔ زینب وحید کلائمٹ چینج ایکٹیوسٹ کی حیثیت سے فرائیڈے فار فیچر پاکستان کا حصہ ہیں۔ پنجاب ہارٹیکلچر اتھارٹی کی سفیر ہیں۔ یوتھ ایڈووکیسی نیٹ ورک کی والنٹیئر ہیں۔ پاکستان ڈیبیٹنگ سوسائٹی لاہور کی صدر ہیں۔ انٹرنیشنل میگزین "اسمبلی” کے ساتھ بھی منسلک ہیں۔ زینب وحید لمز جیسے تعلیمی ادارے میں لڑکیوں کی تعلیم کی سفیر بھی ہیں۔ زینب وحید مضمون نویسی کے متعدد بین الاقوامی مقابلے بھی جیت چکی ہیں جس کے بعد انہیں اقوام متحدہ کی یوتھ سمٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

زینب وحید کے سوشل میڈیا لنکس مندرجہ ذیل ہیں۔

Twitter:

Facebook:

https://www.facebook.com/uswaezainab.official/

Instagram:

https://www.instagram.com/uswa_e_zainab_/

linkedin:

https://www.linkedin.com/in/uswa-e-zainab-1a8a8817a/

تبصرے بند ہیں.