طالبان کے باپ

216

میں جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے ساتھ ساتھ جمعیت العلمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا حامد الحق حقانی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ جامعہ حقانیہ کی شہرت طالبان کو جنم دینے والے دینی مدرسے کی ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ یہاں سے ہی طالبان کے جتھے نکلے جنہوں نے پہلے نوے کی دہائی میں افغانستان فتح کیا، نائن الیون کے بعد مزاحمت کی ایک نئی تاریخ رقم کی اور اب اکیسویں صد ی کے تیسرے عشرے کے آغاز میں انہوں نے فتح مکہ کی تاریخ دہرائی ہے۔ مغربی میڈیا جامعہ حقانیہ کو’یونیورسٹی آف جہاد‘ کے نام سے بھی یاد کرتا ہے مگر حامد الحق حقانی اس امیج کی نفی کرتے ہیں۔ وہ تفصیل کے ساتھ بتا رہے تھے کہ ان کا مدرسہ افغانستان کے قریب ہے، وہ پشتو سپیکنگ ہیں۔ جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا اور پاکستان نے اپنے بارڈر کھولے تو افغان نوجوانوں کے لئے آسان تھا کہ وہ جامعہ حقانیہ آجاتے، وہاں تعلیم حاصل کرتے۔ وہ اس تاثر کی نفی کرتے ہیں کہ دارالعلوم حقانیہ میں فوجی تربیت دی جاتی تھی۔ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ چند برس پہلے تک تو جامعہ کی چاردیواری بھی نہیں تھی اور وہاں ہر کوئی دیکھ سکتا تھا کہ کون سی تربیت دی جا رہی ہے۔ جامعہ حقانیہ حامد الحق حقانی کے دادامولانا عبدالحق نے 1947 میں قائم کیا تھا۔ اس مدرسے نے تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں اہم ترین کردارادا کیا۔ مولانا سمیع الحق کے دور میں افغانستان کا بحران پیدا ہوا اور وہ ’طالبان کے باپ‘ کہلائے۔ مولانا سمیع الحق کی شہادت کے بعد حامد الحق جمعیت العلمائے اسلام کے بھی سربراہ ہیں۔ دادا کے نام پر انہوں نے اپنے بیٹے کا نام عبدالحق ثانی رکھا ہے اور وہ بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔
میں نے حامد الحق حقانی سے پوچھا، جب طالبان نے کابل فتح کر لیا، آپ کے مدرسے کے بہت سارے سابق طالب علم افغانستان کی طالبان کابینہ کا حصہ ہیں توآپ کریڈٹ لینے کے بجائے مجھے ’ڈیفینسو‘ لگ رہے ہیں۔ وہ مسکرائے اور بولے، ہمارے اوپر بڑی بھاری ذمہ داری ہے۔ ہمیں اپنے وطن کے امن کے داعی کے طور پر امیج کا دفاع کرنا ہے۔ ہمیں جذباتیت اور نادانی میں کوئی ایسی بات نہیں کرنی جو پاکستان کے مفاد کے منافی ہو۔ ہمیں اس گرد کو صاف کرنا ہے جو ہمارے چہرے پرڈالی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید واضح کیا کہ جب ان کے مدرسے کے پڑھے ہوئے طالب علم اپنے وطن واپس گئے اور وہاں روس نے حملہ کر دیا تو بتائیں کہ اگر کوئی ہمارے ملک، یا دنیا کے کسی بھی ملک، پر حملہ کر دے تو کیا وہاں کی فورسز اور شہری اپنے وطن کی آزادی کے لئے نہیں لڑیں گے، کیا انہوں نے اس کا حلف نہیں اٹھا رکھا۔ وہ میرے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے بتا رہے تھے کہ وہ اپنے ملک کے آئینی اور جمہوری ہونے کے ہرگز مخالف نہیں ہیں، ان کے جد امجد نوشہرہ سے کئی بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ ان کے والد مولانا سمیع الحق سینیٹ کے رکن رہے۔ وہ خود رکن قومی اسمبلی رہے تو وہ کیسے اس نظام کے مخالف ہوسکتے ہیں مگر وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ مغرب کی جمہوریت کا نظام دوغلا ہے۔ یہ ہماری ضروریات اور تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔ میرا سوال تھا کہ تو کیا آپ سب مل کر یہاں طالبان کا نظام لانا چاہتے ہیں تو انہوں نے سنجیدگی سے جواب دیا کہ افغانستان اور پاکستان کے حالات بہت مختلف ہیں۔ یہاں پر ایک آئین اور قانون موجود ہے۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا، آپ لوگ یہ نظام کیسے لا سکتے ہیں کہ دینی جماعتیں تو ایک طرف رہیں خود دیوبندی مکتبہ فکر کی ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں ہیں، انہوں نے جواب دیا تو ہمارے مخالف سیکولر کون سے متحد ہیں، وہ بھی بٹے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے والد کی بنائی ہوئی دفاع افغانستان کونسل بعد میں متحدہ مجلس عمل میں تبدیل ہوئی تھی، علامہ شاہ احمد نورانی، مولانا عبدالستار خان نیازی سمیت دیگر کی اس مساعی نے عوامی اعتماد بھی حاصل کیا۔ وہ اب بھی ایسے کسی اتحاد کے لئے اپنے عہدے چھوڑنے کے لئے تیار ہیں۔
جامعہ حقانیہ والوں کے طالبان سے رابطوں سے انکا رنہیں کیا جا سکتا سو میں نے بھی ان کی معلومات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ امریکا کے مطلوب ترین شخص اسامہ بن لادن کے ساتھ میری ملاقات افغانستان میں ہی ہوئی تھی جہاں میں رحیم اللہ یوسف زئی مرحوم اور رؤف طاہر مرحوم سمیت دیگر ساتھیوں کے ساتھ گیا تھا۔ اسامہ بن لادن نے امریکا اور سعودی عر ب کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تھا۔ نائن الیون کے بعد ایک نئی تاریخ لکھی گئی اور بعد ازاں پیپلزپارٹی کے دور میں امریکا نے ایبٹ آباد میں ایک آپریشن کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو لے جانے او رمار کر سمندر میں پھینک دینے کا دعویٰ کیا۔ ہمارے بہت سارے دوست اس دعوے کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں،ا س آپریشن کو محض دھوکا قرار دیتے ہیں مگر حامد الحق حقانی نے پروپیگنڈے کے مقابلے میں حقائق کی بات کرتے ہوئے کہا کہ جب افغانستان میں امریکا نے بمباری شروع کی تو اسامہ بن لادن کے پاس تین راستے تھے کہ وہ چین، ایران یا پاکستان چلے جاتے۔ انہوں نے ممکنہ طور پر پاکستان کا انتخاب کیا۔ وہ اپنے ایک بیرسٹر رشتے دار (جن کا نام وہ نہیں بتاتے) کے حوالے سے کہتے ہیں کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کی بیوہ کا مقدمہ عدالتوں میں لڑا اور پھر انہیں پاکستان سے روانہ کیا گیا،وہ نتیجہ دیتے ہیں کہ آپریشن ایک حقیقت تھا۔
میر ے ذہن میں تاثر تھا کہ جمعیت العلمائے اسلام، پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی ہے مگر انہوں نے اس کی نفی کی اور پی ٹی آئی پر بے وفائی کا الزام لگایا جس نے ان کے حلقے تک ان سے لے لئے۔ میں نے پوچھا کہ دارلعلوم حقانیہ کو پی ٹی آئی نے تیس کروڑ روپے کیوں دئیے تو جواب ملا کہ عمران خان کواس گرانٹ کا علم بھی نہیں ہوگا، یہ گرانٹ ان کے ایم پی اے کے ذریعے پرویز خٹک کی صوبائی حکومت نے اسی طرح دی جس طرح مدارس کو دی جاتی ہے۔ میں نے بے نظیر بھٹو کے قتل میں جامعہ حقانیہ میں صلاح و مشورے بارے سوال بھی کیا تو انہوں نے ایک اور بات بتائی کہ بے نظیر بھٹو نے بطور وزیراعظم کہا کہ مولانا سمیع الحق اگر اپنے ترقیاتی فنڈز گلی محلوں کے بجائے مدرسے اور تعلیم پر خرچ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی اجازت دی جانی چاہئے۔ انہوں نے ایک کروڑ روپے کے فنڈز جاری کئے تو اس سے حدیث کی تعلیم کا شاندار ہال تعمیر کیا گیا۔ یہ ایسا قومی اسمبلی کی طرح ایسا شاندار ہال تھا کہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کابینہ میں سوال رکھا کہ ہم کئی کروڑ خرچ کر کے ایسا ہال نہیں بنا سکتے جو انہوں نے ایک کروڑ میں بنا لیا ہے تو اس کا جواب تھا کہ ہم کرپشن اور کمیشن پر یقین نہیں رکھتے، ایک ایک پیسہ امانت سمجھ کر خرچ کر تے ہیں۔
دارالعلوم حقانیہ نے ملا محمد عمر کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی اور حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی بھی مدرسے کے طالب علم رہے تاہم حامد الحق حقانی کہتے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک ریگن دور میں امریکا کو پیارا تھا مگر پھر ان کے مفادات بدل گئے۔ ان کے مدرسے کے طالب علم اپنے نام کے ساتھ حقانی لگاتے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جلا ل الدین حقانی کے صاحبزادے خلیل حقانی بھی یہاں پڑھتے رہے جو اس وقت افغان حکومت کے وزیر پناہ گزین ہیں۔ جا معہ کے مشہور طالب علموں میں ملا محمد عمر کے جانشین ملا منصور اختر بھی شامل ہیں اور طالبان کے موجودہ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد بھی جامعہ حقانیہ کے طالب علم ہیں تاہم عبدالحق ثانی اس امر کی تردید کرتے ہیں کہ ملا عبدالغنی برادر کے بیٹے یہاں زیر تعلیم رہے مگر یہ امر حقیقت ہے کہ اس وقت کئی وزرا جامعہ حقانیہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ دارالعلوم پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے جس کے ذریعے ہم اپنے بہت سارے فاصلے ختم کر سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.