ابھی دو سال باقی ہیں

185

تین سال گزر گئے، دو سال ابھی باقی ہیں، ہمیں یہ عذاب ابھی مزید دو سال بھگتنا ہو گا۔ عمران خان کو لانے کا تجربہ کس قدر بھیانک اور افسوس ناک رہا، یہ بات وہ لوگ بھی مان گئے جوخان صاحب کی الیکشن کمپین میں پیش پیش تھے۔ مجھے دلی افسوس ہے کہ میں نے تحریک انصاف کے لیے الیکشن کمپین بھی کی اور دوستوں سے ووٹ بھی مانگے۔ اگرچہ مجھے میرے سیاسی دوست کہتے رہے کہ آپ غلطی پر ہیں، عمران خان لیڈر اچھا ہے مگر بطور ایڈمنسٹریٹر اس کے اندر کوئی کوالٹی نہیں مگر میں عمران خان کے جلسوں، دھرنوں اور تبدیلی کے نعروں سے اس قدر متاثر تھا کہ دوستوں کی ایک نہ سنی، خود بھی تحریک انصاف کو ووٹ دیا اور قریبی دوستوں کو بھی مجبور کیا کہ وہ عمران خان پر بھروسہ کریں۔ آج جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو دل سے آواز نکلتی ہے کہ گزشتہ تمام حکومتیں (غریب کے لیے) موجودہ حکومت سے ہزار درجے اچھی تھیں۔ کم از کم غریب کو روٹی میسرتھی، دو کروڑ نوکریاں تو نہیں تھیں مگر ملازمت کے مواقع تھے، لوگوں کو سکون میسر تھا، کسی کو اس چیز سے غرض نہیں تھی کہ نواز شریف ملک کو لوٹ کے کھا گیا ہے یا زرداری، اگر غرض تھی تو گھر کا چولہا جلنے کی، جو کسی نہ کسی طرح جل رہا تھا۔
آج ہم کس نہج پر کھڑے ہیں، ایسا لگا رہا ہے جیسے پاکستان پچاس سال پیچھے چلا گیا ہے، ہر دوسرے پاکستانی کو روٹی کی فکر لاحق ہے، سرکاری نوکریاں تو دور یہاں پرائیویٹ ملازمت کے مواقع تک ختم کر دیے گئے، سرمایہ کار خاموش ہو کر گھر بیٹھ گیا، بزنس مین حکومت جانے کا منتظر ہے، فیکٹریاں اور مل مالکان نے مزدوروں کی چھٹی کرائی اور خود گھر بیٹھ گئے، بیرون ملک پاکستانی واپس آنے کا نام نہیں لے رہا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ واپس جاؤں گا تو اہلِ خانہ سمیت بھوکا مر جاؤں گا۔ دیہاڑی دار طبقہ صبح سے شام تک فکرِ معاش میں گھوم رہا ہے۔جب حکومتی نمائندوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ ملک کی یہ حالت کیوں ہے تو آگے سے ایک ہی جواب ملتا ہے کہ نواز شریف چور تھا، زرداری نے اربوں کی کرپشن کی، مافیا اس ملک کی جڑوں میں بیٹھ گئے۔ 
حیرانی کی بات ہے کہ جب اس ملک کو مافیا لوٹ رہا تھا، جب اس ملک کو زرداری و شریف برادران لوٹ رہے تھے، اس ملک کے عوام آج سے کہیں زیادہ خوش حال تھے۔ آج ایمان دار قیادت موجود ہے، آج مافیا کا راستہ بند کر دیا گیا ہے، آج شریف برادران کا احتساب بھی جاری ہے، آج زرداری و بھٹو خاندان بھی احتساب کے کٹہرے میں کھڑا ہے مگر ملک پچاس سال پیچھے چلا گیا ہے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے قطعاً افسوس نہیں کہ عمران خان پر اعتماد کرنا، ایک بھیانک تجربہ رہا اور ہمیں اس تجربے کے ساتھ ابھی مزید دو سال گزارنا ہوں گے۔ یوں سمجھیں کہ موجودہ ایمان دار قیادت کے ساتھ مزید دو سال گزاریں اور اگر اگلے الیکشن تک ”زندہ رہے“ تو دیکھیں گے کہ ملک کی تقدیر کون بدلتا ہے۔
کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن ہوئے، پنجاب میں مسلم لیگ نون نے جس طرح میدان مارا اور بزدار کی کارکردگی کو ٹھکرایا یہ بات حکومت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ عمران خان نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے ساتھ جیسے ظلم کیا، پنجابی اسے کبھی معاف نہیں کریں گے۔ بزدار کو محض اس لیے وزیر اعلیٰ بنا دینا کہ وہ اس کے اشاروں پر ناچے گا اور اپنی مرضی نہیں کرے گا، کس قدر افسوس ناک رویہ ہے۔ عمران خان بزدار کے بجائے اپنے اتحادی پرویز الٰہی پر بھروسہ کر لیتا تو یقین کریں پنجاب کی حالت کہیں زیادہ اچھی ہوتی کیونکہ ایک زمانہ اس بات کا اعتراف کر چکا کہ بطور انڈمنسٹریٹر چودھری پرویز الٰہی، بزدار سے کہیں زیادہ بہتر تھا، مزید ایسی ہی صورت حال رہی تو اگلی دفعہ پنجاب دوبارہ نون لیگ کے پاس ہو گا اور شہباز شریف بطور ایڈمنسٹریٹر پنجاب میں موجود ہو سکتا ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ چودھری نثار اور چودھری پرویز الٰہی کا اتحاد ہو جائے۔ سندھ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم لے اڑے، بلوچستان اور کے پی کے بھی عمران خان کے ہاتھ سے نکل جائے۔ میانوالی، عمران خان کے اپنے حلقے میں صرف وہی تعمیراتی کام ہوئے جو شہباز شریف کے دور میں منظور ہوئے تھے البتہ میانوالی وتہ خیل چوک میں ایک ورلڈ کپ لگا دیا، یہ کارنامہ عمران خان کے سر جاتا ہے۔
باقی علاقوں کی صورت حال کا آپ خود اندازہ لگا لیں، عمران خان اپنے گھر کے ووٹرز کو مطمئن نہیں کر پایا تو باقی ملک کا کیا کرے گا۔ اب تو لوگ دعائیں مانگ رہے ہیں کہ خدایا ہمیں یہ ایمان دار قیادت نہیں چاہیے، بس دوبارہ سے وہی پرانا مافیا آ جائے تاکہ ہمیں دو وقت کی روٹی تو مل سکے۔ میں نے گزشتہ پانچ برس عمران خان کو سپورٹ کیا، اپنے کالموں میں ہمیشہ قوم کو امید دکھائی کہ انتظار کریں، تبدیلی آ رہی ہے مگر یقین کریں اب تو تبدیلی کا لفظ بولتے ہوئے اپنی ہنسی نکل جاتی ہے،  لہٰذا گفتگو کے دوران اگر تبدیلی کا لفظ بولنا بھی بڑے تو بات کا موضوع بدل لیتے ہیں۔ کیونکہ سامنے بیٹھے عوام سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں سر پر کوئی چیز نہ دے ماریں۔ میرے اس کالم کا مقصد قطعاً یہ نہیں کہ میں شریفوں اور زرداریوں کی لوٹ مار کا دفاع کر رہا ہوں، میرا مقصد تو یہ ہے کہ اگر مافیا کے دور میں غریب کو دو وقت کی روٹی میسر تھی تو وہی دور ”سنہری دور“ ہے۔ اس ایمان دار قیادت نے جینا حرام کر دیا، غریب، غریب تر ہو گیا اور امیر، امیر ترین۔مارا تو بے چارہ غریب گیا، پہلے مافیا نے جینا حرام کیے رکھا، پھر تبدیلی سرکار آئی اور باقی کسر اس نے نکال دی۔ عمران خان صرف ایک مہنگائی پہ کنٹرول کر لیتا تو حالات بہت مختلف ہوتے مگر سچ یہ ہے کہ عمران خان صرف لیڈر اچھا ہے، عمران خان صرف مقرر اچھا ہے، عمران خان صرف باتونی اچھا ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ ایڈمنسٹریشن اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ آپ کسی بھی ادارے میں چلے جائیں، آپ کو پہلے سے کہیں زیادہ تباہ نظر آئیں گے اور یہ سب گزشتہ تین برس میں ہوا۔ دو برس ابھی باقی ہیں، ہمیں دو برس مزید اس حکومت کو برداشت کرنا ہے، عمران خان وقت سے پہلے بھی الیکشن کرا سکتا ہے اور خود باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر سکتا ہے مگر اس بارے میں واضح کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کے قریبی احباب نے بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ جناب اب ہماری بس ہو گئی، اب اگر کچھ کر سکتے ہوتو کر لو ورنہ استعفیٰ دو اور گھر جاؤ، خیر جو بھی ہو، دو سال تو مزید برداشت کریں۔

تبصرے بند ہیں.