کینیڈا کے الیکشن

155

قارئین،آج کینیڈا میں عام انتخابات ہو رہے ہیں اور میں ان کا جائزہ لینے کے لئے یہاں موجود ہوں،یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ پاکستان کی طرح یہاں عام تعطیل نہیں بلکہ لوگ کام بھی کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے ووٹ کا بھی استعمال کر رہے ہیں۔چند روز پہلے میں کینیڈا پہنچا تو الیکشن کے لئے کوئی ہلہ گلہ نظرآرہا تھا نہ گلیوں بازاروں میں بڑے بڑے پوسٹر اور بینر نظرآرہے تھے۔ یہاں گھروں کے سامنے کہیں کہیں کسی امیدوار کا چھوٹا سا بورڈ نظرآجاتا ہے یا پھر مختلف ہالز اور کمیونٹی سنٹرز میں چھوٹے چھوٹے جلسے ہیں مگر الیکشن کا اصل چہرہ ٹی وی مباحثوں میں نظر آتا ہے۔یہ الیکشن صرف دو سال بعد ہی ہو رہے ہیں،پچھلے الیکشن میں جسٹن ٹروڈو کی  لبرل پارٹی سا دہ اکثریت سے بھی کم ووٹ حاصل کر سکی تھی مگر الیکشن میں سب سے بڑی پارٹی بننے کی وجہ سے وہ ایک اقلیتی حکومت بنا سکی تھی۔ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اکثریت حاصل کرنے کیلئے قبل از وقت 20ستمبر کو الیکشن کرانے کا اعلان کر دیا،کینیڈا میں عام انتخابات دو سال بعد2023ء میں ہونا تھے،جسٹن ٹروڈو نے گورنر جنرل میری سائمن سے ملاقات کر کے باضابطہ طور پر قبل از وقت الیکشن کرانے کی سفارش کی،جس کے بعد گورنر جنرل نے اسمبلی تحلیل کر کے الیکشن کا شیڈول دیا،الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی آئندہ پانچ سال تک حکمرانی کرے گی،ٹروڈو کی لبرل پارٹی نے 2015ء کے الیکشن میں اکثریت حاصل کی مگر2019ء کے الیکشن میں لبرل پارٹی نے157نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی، موجودہ الیکشن میں لبرل پارٹی کو اکثریت حاصل کرنے کیلئے334میں سے 172 نشستوں کی ضرورت ہے اور جسٹن ٹروڈو کو امید ہے کہ 20ستمبر کو ہونیوالے الیکشن میں وہ اکثریت حاصل کر لیں گے مگر رائے عامہ کے جائزے بتا رہے ہیں کہ یہ اب بھی ایک مشکل کام ہے،عوام کی بھی خواہش ہے کہ جو پارٹی منتخب ہو اسے اکثریت ملے تاکہ ملک میں ترقی اور معاشی استحکام ہو۔
کینیڈین وزیر اعظم ٹروڈو کو انتخابی مہم کے دوران کچھ مخالفت کا سامنا بھی رہا مگر انہوں نے اسے اہمیت نہ دی،مخالفین میں سر فہرست کورونا وائرس کی ویکسین نہ لگوانے والے ہیں،مہم کے دوان کچھ لوگ ویکسین کے خلاف نعرے بازی بھی کرتے رہے،ٹیلیویژن پر دکھائی گئی ایک فوٹیج میں دیکھا گیا کہ ٹروڈو اپنے محافظ کیساتھ جا رہے تھے تو انہیں سفید کنکرآکر لگے،گزشتہ ماہ ویکسین مخالفین کی جانب سے سکیورٹی خدشات کے باعث ایک تقریب بھی ملتوی کرنا پڑی تھی،ایک مرتبہ کسی نے کدو کے بیج بھی ان پر پھینکے تھے مگر جسٹن ٹروڈو نے اسے زیادہ اہمیت نہ دی،انتخابی امیدواروں میں سے 74فیصد نے کورونا ویکسین لے لی ہے،مگر ملک میں چوتھی لہر جاری ہے،اور ویکسین نہ لینے والے زیادہ تر افراد اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔
آج کے الیکشن میں لبرلز اور کنزرویٹوز میں کانٹے کا مقابلہ ہے،رائے عامہ کے جائزوں میں دونوں کو قریباً یکساں مقبولیت حاصل ہے، قدامت پسند پارٹی کے ایرن او ٹول نے بعض قسم کی بندوقوں سے متعلق اپنا انتخابی وعدہ واپس لے لیا ہے واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں کینیڈا میں فائرنگ کے متعدد واقعات ہوئے جس کی وجہ سے مسئلہ شدت اختیار کر گیا،ٹروڈو اس حوالے سے اپنا موقف دینے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس کرتے رہے،او ٹول نے ویکسین نہ لگوانے والے اپنے حامیوں کو روزانہ کی بنیاد پر کووڈ 19کا ٹیسٹ کرانے کی ہدایت کی،ایک سروے میں لبرل پارٹی کی مقبولیت34.1فیصد اور کنزرویٹو کی32فیصد رہی،اس سے قبل کے سروے میں لبرل33.4فیصد اور کنزرویٹوکو 34.9 فیصد مقبولیت حاصل تھی،44ویں عام انتخابات میں دو کروڑ73لاکھ ووٹر 348نمائندوں کو منتخب کریں گے،اگر لبرل پارٹی کو اکثریت ملی تو یہ اس کی مسلسل تیسری کامیابی ہو گی،لیکن 300نشستوں والے ہاؤس آف کامنز میں لبرلز کادوبارہ اکثریت حاصل کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے،ٹروڈو کے پاس اقلیتوں کی نشستیں ہیں اور حکومت سازی کیلئے اسے دوسری جماعتوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے،واضح رہے کہ ٹروڈو کو سب سے بڑی اقلیت سکھ برادری اور مسلمانوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔
انتخابی مہم کے دوران مختلف جماعتوں کے امیدوار کشمیریوں،پاکستانیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھانے کی یقین دہانیاں بھی کراتے رہے،امیدواروں سے ووٹرز سوال کرتے رہے کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کی جبری بے دخلی اور لاکھوں کی تعداد میں بیرونی آباد کاروں کو بسانے کے حوالے سے کیا پالیسی ہو گی، اس معاملہ پر کیا مؤقف اختیار کریں گے،اس حوالے سے جسٹ پیس ایڈووکیٹس،جسٹس فال آل کینیڈااور دیگر اداروں کی جانب سے تمام سیاسی جماعتوں کو خطوط لکھ کر ان کی قیادت سے مسئلہ کشمیر پر ان کے مؤقف بارے استفسار کیا گیا،جس کے جواب میں دارالعوام میں 32نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی گئی،اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے مطالبہ کی حمایت کی گئی،بھارتی ہائی کمیشن کو خط لکھ کر بھارتی آئین کی شق370کے خاتمے پرناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔
صوبہ کیوبک میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت آباد ہے جبکہ 41حلقوں میں بڑی تعداد میں اقلیتیں آباد ہیں،جو ان حلقوں میں انتخابات کا نقشہ بدل سکتی ہیں،ماضی میں بھی جنوبی ایشیائی تارکین وطن نے لبرل پارٹی کا ہی ساتھ دیا تھا،کینیڈا میں ووٹر کیلئے کم از کم عمر کی حد 18 سال اور کینیڈین شہری ہونا ضروری ہے،ووٹ ڈالنے کیلئے ووٹرز انفارمیشن کارڈ کی بی ضرورت ہوتی ہے،جس میں بتایا جاتا ہے کہ ووٹ کب کہاں اور کیسے کاسٹ کرنا ہے،پہلے سے ہی رجسٹرڈ ووٹر میل کے ذریعے بھی یہ کارڈ حاصل کر سکتے ہیں،غیر رجسٹرڈ ووٹر یہ کارڈ مقامی الیکشن آفس یا الیکشن کے روز ذاتی طور پر پولنگ سٹیشن سے حاصل کر سکتے ہیں،کینیڈا میں حالیہ دنوں میں مسلم دشمنی کے واقعات بھی الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں،انتخابی ماحول الیکشن نتائج کے حوالے سے حتمی بات کہنے میں رکاوٹ ہے۔
یہاں پاکستانی کینیڈین،پاکستانی سیاسی جماعتوں،ان کے رہنماؤں،پاکستانی کینیڈین صحافیوں کی اکثریت جسٹن ٹرودو کی حامی ہے، اسکی بڑی وجہ انکی امیگریشن پالیسیاں ہیں۔الیکشن کے متعلق جاننے کے لئے میری یہاں کے مقبول اردو ٹی وی کینیڈا ون کے چیف بدر منیر چودھری،صحافی ادریس ملک اور پاکستان پیپلز پارٹی،کینیڈا کے صدر چودھری جاوید گجر سے بات چیت رہی،ان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ الیکشن میں پاکستانی کمیونٹی بڑا اہم رول ادا کرتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.