جب شام ڈھلی!

158

میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ملک کے نامور دانشور و بیوروکریٹ ڈاکٹر صفدر محمود کی وفات پر اُن کی کچھ افسرانہ خوبیوں کا ذکر کیا تھا، اُن کی کارکردگی پر بات کی تھی، عرض کیا تھا وہ ایک انتہائی ایماندار افسر تھے۔ وہ دوران سروس جس انداز میں ہر حال میں اپنی عزت آبرو کو مقدم رکھتے رہے، اور اپنی اِس خصوصیت کے نقصان میں کئی بار جس طرح لمبے لمبے عرصے تک وہ ”اوایس ڈی“ رہے، یہ ایک طویل داستان ہے، حکمرانوں کی خوشامد کے فن سے وہ ناآشنا تھے۔ چنانچہ اُنہیں ہمیشہ ایسے عہدوں پر تعینات کیا جاتا جہاں حکمرانوں کو ناجائز کام کروانے کی ضرورت ذرا کم محسوس ہوتی تھی، …… آج جناب عطا الحق قاسمی نے اُن پر بڑا خوبصورت کالم لکھا ہے۔ اپنے کالم میں اُنہوں نے معروف ماہر اقبالیات پروفیسر مرزا منور کے ساتھ اُن کی محبت کا تذکرہ بھی کیا،…… مرزا منور کے ساتھ اُن کی محبت و عقیدت کا یہ عالم تھا وہ اُنہیں ادبی شخصیت نہیں ”روحانی شخصیت“ سمجھتے تھے، وہ دوسروں سے بہت کم متاثر ہوئے، دوسروں کی تعریف کے معاملے میں ذرا کنجوس تھے، مگر چند شخصیات جن کا وہ دِل سے احترام کرتے، اور کُھل کر اُن کی تعریف کرتے ایک اُن میں مرزا منوردوسرے مجید نظامی تھے، وہ بڑی سنجیدہ شخصیت کے مالک تھے، مگردوستوں کی محفل میں بعض اوقات ایسے کھلتے اپنی سرکاری پوزیشن کا خیال بھی نہ کرتے، ایک بار روزنامہ جہاں نما کے ایڈیٹر طارق فاروق (مرحوم) کے گھرواقع بیڈن روڈ(لکشمی منیشن) میں ایک نشست ہوئی، عطا الحق قاسمی، امجد اسلام امجد، دلدار پرویز بھٹی کے علاوہ ڈاکٹر صفدر محمودبھی وہاں تھے، اُس وقت وہ پنجاب کے سیکرٹری ایجوکیشن تھے۔ جس محفل میں عطا الحق قاسمی، امجد اسلام امجد اور دلدار پرویز بھٹی ہوتے وہاں کسی کی دال نہیں گلتی تھی، ڈاکٹر صفدر محمود اُس روز ایسے کُھلے، ایسے ایسے کمال کے لطیفے اُنہوں نے سنائے، ایسے ایسے فقرے کسے، دلدار بھٹی نے اُن سے پوچھا ”سرتُسی گجرای اوناں؟“……ڈاکٹر صاحب بولے ”اللہ داواسطہ جے مینوں ”بھٹی“ نہ سمجھ لینا“…… وہ بلاشبہ ایک عظیم انسان تھے۔ ایک بار وہ حکومت پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات وثقافت تھے، ہمارے ایک کالم نگار جو اِن دنوں ”صاحب فراش“ہیں نے اپنے ایک کالم میں اُن کے قادیانی ہونے کا تاثر دیا، وہ کالم نگاراُن دنوں ایک سرکاری کالج میں پڑھاتے تھے، ڈاکٹر صفدر محمود اگر چاہتے اِس الزام پر اُنہیں ملازمت سے برخواست کروا دیتے، یا کم ازکم اُنہیں عدالت میں لے جاتے، اُن پر کیس کرتے، پر اُنہوں نے صبر کیا، بھیگی ہوئی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور فرمایا ”میں یہ معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں“…… یہ اُن کی عظمت تھی، اور اب جوواقعہ میں عرض کرنے لگا ہوں وہ عظمت کے اُس مقام پر جاکر کھڑے ہوگئے اُس کے بعد میں جب بھی اُن سے ملا اُن کے گھٹنوں کو ہاتھ لگانے یا اُن کے قدم چُھونے کو باقاعدہ ایک اعزازیا کارثواب سمجھا،…… ہوایوں کچھ ہی عرصے بعد اُسی کالم نگار کی بیٹی کے دل کا ایک بڑا آپریشن تھا۔ اُسی دوران اُن کا بیٹا بھی معدے کی کسی بیماری میں مبتلا ہوکر ایک پرائیویٹ ہسپتال میں داخل ہوگیا، ڈاکٹر صفدر محمود کو جب یہ پتہ چلا، اُنہوں نے مجھے فون کرکے اپنے پاس بلایا، فرمانے لگے ”مجھے کسی نے بتایا ہے اُس کالم نگار کی بیٹی کے دل کا آپریشن ہے اُس کا بیٹا بھی ہسپتال میں داخل ہے، اللہ اُن کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے، یہ ایک لاکھ روپے ہیں، یہ تم اُنہیں اپنی طرف سے دینا، اِس موقع پر پیسوں کی بہت ضرورت ہوتی ہے، …… اُن کی اِس عظمت پر میں پُھوٹ پُھوٹ کر رونے لگا، مجھے لگا یہ شعر اُن کا ہے جو اُنہوں نے شاید اُس کالم نگار کے لیے لکھا ہے ”میں نے تم کو دِل دیا اور تم نے مجھے رُسواکیا…… میں نے تم سے کیا کیا اور تم نے مجھ سے کیا کیا…… پاکستان سے اُنہیں والہانہ محبت تھی، اُن کی کوئی تحریر ایسی نہیں جس میں ”پاکستانیت“ کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی نظر نہیں آتی تھی، قائد اعظم ؒکے ساتھ اُن کے عشق کا یہ عالم تھا کوئی محفل ایسی نہیں ہوتی تھی جس میں کسی نہ کسی حوالے سے وہ قائداعظم ؒ کا ذکر نہ چھیڑ بیٹھتے۔ کچھ عرصہ پہلے میرے محترم بھائی طارق عباس قریشی نے جب وہ آرپی او گوجرانوالہ تھے مجھے حکم دیا میں قائداعظمؒکے یوم پیدائش پر گوجرانوالہ پولیس کی جانب سے منعقدہ تقریب میں ڈاکٹر صفدر محمود کو لے کر آؤں، وہ تقریبات میں جانے سے ہرممکن حدتک گریز فرماتے تھے، یہ میرے لیے بڑا مشکل ٹاسک تھا، میں جب گزارش لے کر اُن کے پاس گیا اُنہوں نے حسب توقع معذرت کرلی۔ فرمانے لگے ایک تو میں پولیس کی تقریب میں بالکل نہیں جاتا، نہ میں اِس پوزیشن میں ہوں ڈیڑھ دو گھنٹے کا سفر کرکے گوجرانوالہ جاؤں اور پھر اتنا ہی سفر کرکے واپس آؤں“…… میں نے بہت کوشش کی مگر وہ نہیں مانے…… رات کو اُن کا فون آگیا، کہنے لگے ”میں جب تمہیں رخصت کررہا تھا تمہاری اُداسی مجھ سے برداشت نہیں ہوئی، پھر میں نے گوجرانوالہ میں مقیم اپنے کچھ عزیزوں سے آرپی او طارق عباس قریشی کی شہرت معلوم کی پتہ چلا وہ  ایک انتہائی عاجز، ایماندار، انسان دوست پولیس افسر ہے، سو اب میں اِس شرط پر تمہارے ساتھ گوجرانوالہ جانے کے لیے تیار ہوں کہ تم شام ڈھلنے سے پہلے پہلے مجھے واپس گھر پہنچا دوگے“…… میں نے عرض کیا مجھے آپ کی یہ شرط منظور ہے…… گوجرانوالہ چیمبر آف کامرس ہال میں منعقد ہونے والی یہ ایک یادگار تقریب تھی جس میں قائداعظم ؒ کی جدوجہد اور اُصولوں پر وہ دوگھنٹے مسلسل بولتے رہے، اس دوران پانی کا ایک گھونٹ پینے کی ضرورت اُنہوں نے محسوس نہیں کی۔……تقریب کے بعد محترم بھائی طارق عباس قریشی نے اُنہیں کھانے کی دعوت دی، وہ فوراً مان گئے، کھانے کی میز پر گوجرانوالہ کے دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں وہ اتنے محو ہوئے اُنہیں اپنی یہ شرط بھی یاد نہ رہی کہ شام ڈھلنے سے پہلے پہلے میں نے انہیں گھر پہنچانا ہے،میں ایک آدھ دِن مزید گوجرانوالہ رُکنا چاہتا تھا مگر مجھے اچھا نہیں لگا وہ اکیلے واپس جائیں، یہ اُن کے ساتھ میرا یادگار اور آخری سفر تھا، اِس سفر میں اُنہوں نے فرمائش کی میں اُنہیں اپنی کوئی غزل سناؤں، میں نے عرض کیا اپنے کوئی غزل تو اِس وقت مجھے یاد نہیں آرہی، میں نے اُنہیں قمر جلالوی کی غزل سنائی ”کبھی کہانہ کسی سے تیرے فسانے کو…… نہ جانے کیسے خبر ہوگئی زمانے کو……اِس غزل کا ایک شعر اُنہیں بہت پسند آیا ”دبا کے قبر میں سب چل دیئے دعانہ سلام……ذراسی دیر میں کیا ہوگیا زمانے کو …… سفر تمام ہونے تک یہ شعر بار بار وہ مجھ سے سنتے رہے، ڈنگہ گجرات میں انہیں لحد میں اُتارنے کے بعد میں جب واپس مُڑا۔ میرے کانوں میں اُن کی آواز پڑی…… دبا کے قبر میں سب چل دیئے دعا نہ سلام…… ذرا سی دیر میں کیا ہوگیا زمانے کو…… شام ڈھل رہی تھی اور مجھے گوجرانوالہ جانے کے لیے اُن کی یہ شرط یادآرہی تھی ”شام ڈھلنے سے پہلے پہلے مجھے گھرواپس پہنچا دینا“……!! 

تبصرے بند ہیں.