کوئٹہ: وزیراعلی بلوچستان جام کمال نے استعفے سے متعلق دو ٹوک اعلان کرتے یوئے کہا کہ استعفیٰ نہیں دیا اور نہ دے رہا ہوں۔
اپنے ایک بیان میں وزیراعلی بلوچستان سردار جام کمال نے کہا کہ میں نے کوئی استعفی نہیں دیا اور نہ ہی دینے جا رہا ہوں۔
ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد 21 ستمبر کو پیش کی جائے گی جس پر 16 اپوزیشن اراکین کے دستخط ہیں کسی حکومتی رکن کے دستخط نہیں ہے۔ کچھ پارٹی اراکین کو تحفظات ہیں، ناراض لوگوں کو منانےکے لئے چیئرمین سینیٹ کوئٹہ میں ہیں۔ پی ٹی آئی بلوچستان کا مشاورتی اجلاس بھی ہوا ہے۔
ادھر تحریک انصاف کے اعلامیے کے مطابق بی اے پی کی اکثریت جو فیصلہ کرے گی اس کے بعد دوبارہ ان سے مذاکرات کریں گے۔ امید ہے بی اے پی اراکین کوئی مثبت فیصلہ کریں گے۔
گزشتہ روز تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے وزیر اعلی بلوچستان جام کمال صوبائی وزراء ، اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کے ہمراہ پارلیمانی سربراہ پاکستان تحریک انصاف سردار یار محمد رند کے گھر گئے تھے۔
سردار جام کمال اور سردار یار محمد رند کے درمیان ملاقات میں موجودہ سیاسی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ ۔پارلیمانی سربراہ پاکستان تحریک انصاف نے موجودہ صورتحال پر پارلیمانی کمیٹی کے اراکین سے مشاورت اور وزیر اعظم عمران خان سے حتمی منظوری کے لیے وقت مانگا تھا۔
خیال رہے کہ 14 ستمبر کو اپوزیشن ارکان نے وزیراعلیٰ بلوچستان کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی تھی۔ وزیر اعلی بلوچستان جام کمال کے کیخلاف تحریک عدم اعمتاد اپوزیشن کے 16 ارکان نے سیکرٹری بلوچستان اسمبلی کے پاس جمع کروائی۔
سپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو سمیت حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے بعض ارکان وزیر اعلیٰ سے ناراض ہیں۔ اپوزیشن اس حوالے سے پر امید ہے کہ انہیں حکومت کے ناراض ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری جانب حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ آپس کے اختلافات کو حل کرلیا جائے گا اور کسی رکن کو اپوزیشن کے ساتھ شامل نہیں ہونے دیا جائے گا۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) سے تعلق رکھنے والے وزیرِاعلیٰ جام کمال اور سپیکر صوبائی اسمبلی عبدالقدوس بزنجو کے درمیان اختلافات کی خبریں سامنے آئیں۔ دونوں نے ایک دوسرے پر شدید تنقید کی ہے۔
سپیکرعبدالقدوس بزنجو نے الزام لگایا کہ وزیراعلیٰ جام کمال پارٹی کے سینیئر ارکان کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا کر ان کو سیاسی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ ہاؤس میں عوام کو جانے کی اجازت نہیں اس پر ڈیڑھ ارب روپے خرچ ہو رہے ہیں لیکن صوبائی اسمبلی کے لیے دو روپے کے فنڈز بھی جاری نہیں کیے جا رہے۔
عبدالقدوس بزنجو نے دو روز قبل ایک ویڈیو بیان میں وزیراعلیٰ جام کمال کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان پر حلقے میں مداخلت، فنڈز نہ دینے اور پارٹی کو نقصان پہنچانے کے الزامات لگائے۔
قدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ ہم نے تین سال پہلے حکومت گرا کر ایک جماعت بنائی تاکہ صوبے کے عوام کی محرومیاں دور کریں، ہم سب نے مل کر جام کمال کو پارٹی کا صدر بنایا مگر انہوں نے پارٹی بہتر بنانے کی بجائے پارٹی کے سینئر ارکان کو سیاسی نقصان پہنچانے اور انتقام کا نشانہ بنانا شروع کردیا تاکہ کوئی ان کے خلاف نہ بولے۔ سردار صالح بھوتانی بھی اس کی مثال ہیں۔
عبدالقدوس بزنجو کے بقول وزیراعلیٰ تین سال مسلسل میرے حلقے میں مداخلت کرتا رہا، وہاں سیاسی طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہا۔ میں باہر خاموش رہا مگر پارٹی کے اندر بارہا ان خدشات کا اظہار کیا، اس کے باوجود وزیراعلیٰ نے اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لائی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سپیکر اور پارٹی میں سینئر ہونے کی حیثیت سے میرا حق بنتا تھا کہ مجھے زیادہ سے زیادہ فنڈز دیے جاتے مگر جام صاحب نے میرے علاقے کو نظرانداز کیا۔ جام صاحب اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لاتے تو ہم خاموش نہیں رہیں گے۔‘
وزیراعلیٰ جام کمال نے جواب میں عبدالقدوس بزنجو کو آواران کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ بزنجو پہلے دن سے پارٹی توڑنے کی نیت سے آئے اور پارٹی کو اب تک جو بھی نقصان ہوا ہے اس میں ان کی سازشوں کا ہاتھ ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے عبدالقدوس بزنجو کے الزامات کا سخت جواب دیتے ہوئے انہیں سپیکر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں ٹھیک سے نبھانے کا مشورہ دیا ہے۔ وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ کیا کبھی ایوان اتنی غیر ذمہ داری، غیر سنجیدگی اور غیر دلچسپی سے چلا ہے جو اب چل رہا ہے؟ ۔
وزیراعلیٰ نے جون میں بجٹ اجلاس کے موقع پر اپوزیشن کے احتجاج کے دوران ہنگامہ آرائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اسمبلی پر حملے کی پوری ذمہ داری سپیکر پر عائد ہوتی ہے جو قریب ہی سرینا ہوٹل میں بیٹھ کر تماشا دیکھ رہے تھے۔
جام کمال نے کہا کہ موصوف اپنے حلقے پر توجہ دیں جہاں وہ تین سال میں ایک بار بھی نہیں گئے، جو شخص اپنا حلقہ چلا سکے اور نہ ہی اسمبلی، وہ اپنے بچگانہ مشورے اپنے پاس رکھے اور کام پر توجہ دے۔
حلقے میں مداخلت کے الزام پر وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’آواران کو تباہی تک لے جانے والا شخص چاہتا ہے کہ صوبے کا حال بھی ایسا کر دے۔ میں ایک غیرسنجیدہ شخص کے ہاتھوں آواران کو اس طرح بے یارومددگار نہیں چھوڑ سکتا۔لوٹ مار کا بازار گرم ہو، منصوبے تباہ ہوں اور ہم کچھ نہ کریں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ حکومت نے پہلے بھی ایکشن لیا اور اب بھی لے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی بہتر ہورہی ہے اور جو بھی نقصان ابھی تک ہوا ہے اس میں قدوس بزنجو کی سازشوں کا بڑا ہاتھ ہے، جو شخص پہلے دن سے پارٹی کو توڑنے کی نیت سے آیا ہوں وہ پارٹی بہتر بنانے کا درس نہ دے۔ برداشت کی حد ہو گئی ہے اور ان کے بار بار کے ڈرامے سب پر عیاں ہو گئے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.