انسانی غلامی کی نئی قسم… سیاسی غلامی

223

انسان نے انسان کو غلام بنانے کا سلسلہ تقریباً بارہ ہزار برس پہلے شروع کیا جب کھیتی باڑی شروع ہوئی۔ یہ پتھر کے زمانے کا آخری دور تھا۔ اس کے بعد کانسی اور لوہے کا زمانہ آیا اور گزر گیا۔ تب انسانی تاریخ لکھی جانے لگی۔ صفحہ صفحہ لکھتے لکھتے بارہ ہزار برس بیت گئے اور ہم اکیسویں صدی میں پہنچ گئے۔ انسان نے پتھر سے انفارمیشن ٹیکنالوجی تک کا جادوئی اور جناتی سفر طے کرلیا لیکن انسان کے ہاتھوں انسان کو غلام بنانے کا جرم ختم نہ ہوا۔ انسانی ترقی کے ساتھ انسانی غلامی کی ترقی یافتہ نئی صورتیں سامنے آتی گئیں جسے ’’ماڈرن سلیوری‘‘ کہا گیا۔ ماڈرن سلیوری کی تعریف میں انسانی سمگلنگ، جبری مشقت، بچوں سے مزدوری اور زبردستی کی شادیاں وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم ماڈرن سلیوری کے ضمن میں انسانی غلامی کی ایک ایسی بری صورت موجود ہے جس کا اصل چہرہ دیکھتے ہی لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ بہت ہی تشویش کی بات یہ ہے کہ لوگوں کو انسانی غلامی کی اِس چڑیل صورت کے بارے میں بتانے کی بجائے اِسے بہت خوبصورت بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ آج کے اِس کالم میں خوشبو میں لپٹی ماڈرن انسانی غلامی کی اِسی منفرد غلاظت کو پہلی بار زیربحث لایا جارہا ہے۔ لوگوں کو غلامی سے نکال کر آزاد اور بااختیار بنانے کے لیے جمہوریت کا نظریہ پیش کیا گیا۔ ابراہم لنکن نے اِس فلسفے کو سادہ ترین زبان میں بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’عام آدمی کے ذریعے عام آدمی کی حکومت عام آدمی کے لیے جمہوریت کہلاتی ہے‘‘۔ بعض مکار گروہوں نے اپنے ممالک میں حکمرانی کے بھینی خوشبو والے مذکورہ فلسفے کو صرف سرورق کے طور پر استعمال کیا اور اندر سے عام آدمی کی حکومت کی مکمل طور پر نفی کی۔ ایسے مکار گروہوں کا عام آدمی کو حکومتوں کی سربراہی سے دور رکھنے کا مقصد ریاست پر خاندانی تسلط برقرار رکھنا تھا۔ جمہوریت کے خوشنما سرورق کے ساتھ خاندانی تسلط کے بدنما ملاپ کے باعث کوئی آپشن نہ رکھنے والے کروڑوں ووٹروں نے انسانی غلامی کی جدید ترین خفیہ
صورت کی حیثیت سے جنم لیا۔ اس طرح سیاسی جماعتوں کی سربراہی اور اُن کی پالیسیوں پر اختیار اور انتخابات کے ذریعے بننے والی حکومتوں کا کنٹرول مسلسل مخصوص خاندانوں کے پاس ہی رہا۔ اِن مخصوص خاندانوں نے سیاست کو پیشے کے طور پر اپنایا اور سیاست کو ذاتی جاگیر سمجھتے ہوئے اِسے وراثت میں اپنی نئی نسل کو منتقل کیا جس سے کروڑوں ووٹروں کے پاس اس بات کے علاوہ کوئی آپشن نہیں رہی کہ وہ انہی مخصوص خاندانوں کو اپنا حکمران چنیں۔ اِس ماڈرن انسانی غلامی کی خفیہ صورت کو ہم پولیٹیکل سلیوری کہہ سکتے ہیں جس کی نمایاں مثال پاکستان میں موجود ہے۔ ہمارے ہاں تقریباً سب سیاسی جماعتیں مخصوص خاندانوں کے زیرتسلط ہیں۔ جمہوریت میں کسی بھی شہری کو اگر سیاسی عمل سے روکا جائے تو وہ ناقابل قبول جرم ہوتا ہے۔ جمہوری حقوق کی اسی شق کا فائدہ اٹھاکر ہمارے ہاں مخصوص خاندانوں کے افراد اپنی سیاسی جماعتوں کے براہ راست سربراہ بن کر ڈائریکٹ حکومتی سربراہ بننے کے لیے ماردھاڑ شرو ع کردیتے ہیں۔ پولیٹیکل سلیوری کی تازہ ترین جھلک ہماری بڑی سیاسی جماعتوں کے نوجوان قائدین کا ابن سلطان یا بنت سلطان ہونے کے باعث اپنی سیاسی جماعتوں کا قائد بن جانا ہے جوکہ جمہوری فلسفے کے قتل کے مترادف ہے۔ جمہوریت میں فرد اپنی ذاتی صلاحیتوں کی بنیاد پر پہلی سیڑھی سے آخری سیڑھی تک جاتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اگر کسی فرد میں کوئی غیرمعمولی صلاحیتیں ہوں تو بہت کم ایسا ہوا ہے کہ وہ صلاحیت اُتنے ہی معیار کے ساتھ اُس کی آئندہ نسل میں بھی موجود ہو۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو میں غیرمعمولی صلاحیتیں موجود تھیں تو یہ ضروری نہیں کہ بلاول میں بھی وہی صلاحیتیں موجود ہوں۔ بلاول سیاسی حکمرانی کا سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان بنایا۔ ان کے مرنے کے بعد اب تک یہ نعرہ کہیں سنائی نہیں دیتا کہ آج بھی قائداعظم زندہ ہے ہرگھر سے قائداعظم نکلے گا جبکہ سیاسی جماعتیں قائداعظم کے بجائے اپنے ہی قائدین کے حوالے سے مذکورہ نعرے لگواتی ہیں جو دراصل جمہوریت کے تحت کروڑوں ووٹروں کو پولیٹیکل غلام بنانے کی بدبخت شکل ہے۔ اگر یہ نعرہ اتنا ہی جمہوری اور فائدے مند ہوتا تو دنیا میں یہ نعرے کیوں نہیں لگتے کہ آج بھی ابراہم لنکن زندہ ہے ہرگھر سے ابراہم لنکن نکلے گا، آج بھی چرچل زندہ ہے ہرگھر سے چرچل نکلے گا، آج بھی مائوزے تنگ زندہ ہے ہرگھر سے مائوزے تنگ نکلے گا، آج بھی لینن زندہ ہے ہرگھر سے لینن نکلے گا، آج بھی سٹالن زندہ ہے ہرگھر سے سٹالن نکلے گا۔ ہمارے ہاں اکثر قائدین کی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ کارکن اور بعض اوقات بچے بھی دوڑتے ہیں جس سے انسانیت اور اصل جمہوریت شرم سے ڈوب جاتی ہے کیونکہ عموماً اسی طرح بیمار اور بھوکے آوارہ کتے گاڑیوں کے ساتھ ساتھ کچھ دور تک ایسے ہی بھونکتے اور بھاگتے جاتے ہیں۔ وہ عوام جو اپنے نوزائیدہ بچوں کو بھوک سے مرنے سے نہیں بچا سکتی، وہ عوام جو غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے کیا وہ عوام اپنے لیڈروں کی صرف صورت دیکھ کر خوشی سے خودبخود جھوم اٹھتی ہے؟ کیا یہ ہسٹری اور فلسفے کی تمام کتابوں کی نفی نہیں ہے کہ بھوکا اور غیرمحفوظ انسان سیاسی لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے پاگل ہو جائے؟ کیا یہ مذہبی اور سماجی جرم کے زمرے میں نہیں آتا کہ سیاسی جلسوں میں عورتوں کو سرعام نچایا جائے؟ انویسٹی گیٹو جرنلزم کرنے والے یہ کیوں نہیں بتاتے کہ اِن بھوکی عورتوں اور بچوں کو دیہاڑی کے کتنے پیسے کا لالچ دے کر بلایا جاتا ہے یا ان کو وڈیرے کے خوف کے چابک سے یہاں تک ہانکا جاتا ہے؟ وہ بچے جو گاڑیوں کے ساتھ بھاگ رہے ہوتے ہیں کیا اُن کی زندگی کو کوئی حادثہ پیش نہیں آسکتا؟ کیا بچوں کو اس جان لیوا خطرے سے دوچار کرنے والوں کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہوگا؟ دنیا کے مشہور سیاسی فلاسفر اور معیشت دان ایڈم سمتھ نے ہماری جیسی جمہوریت کے حوالے سے کہا تھا کہ ’’یہ ناممکن ہے کہ اِن جمہوری ری پبلکن معاشروں سے غلامی کو ختم کیا جاسکے کیونکہ ایسی جمہوریت میں پارلیمان کے بیشتر رکن اور سیاسی رہنما خود انسانی غلامی کے مالکان ہوتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو سزا نہیں دے سکتے‘‘۔

تبصرے بند ہیں.