5 سال حسرت بن گئے

131

آرمینیا کے شاعر جس کی شاعری اکثر منو بھائیؒ کے کالموں میں پڑھنے کو ملتی رہی کہتے ہیں کہ ’’اللہ نے جب کسی غریب کو خوش کرنا ہو تو اس کا صبح گم ہوجانے والا گدھا شام کو مل جاتا ہے‘‘ گویا وہ اپنے ہی گم جانے والے گدھے کے دوبارہ مل جانے پر خوشیاں مناتا ہے ‘‘اور ہو سکتا ہے کہ گدھے کے مل جانے کی خوشی کے اظہار پر جشن منانے کے سلسلے میں گدھے کی قیمت سے زیادہ خرچ ڈالے یہی حالت موجودہ غریب سیاسی حیثیت رکھنے والے حکمران ٹولے کی ہے کہ 23 سالہ بندوبست جس کو یہ جدوجہد کہتے ہیں کہ دوران کونسا دعویٰ ،وعدہ اور فلاحی منصوبہ تھا جس کو انہوں نے بطور منشور نہ دیا مگر بالآخر 5 سال حکمرانی کے پورے کرنے کو ہی کامیابی سمجھ لیا گیا۔ وہ وعدے ، دعوے، نعرے، مخالفین پر تہمتیں ، الزامات کیا ہوئے گویا گم شدہ گدھا مل جانے یعنی 5 سال حکمرانی کے پورے کرنے پر ہی کامیابی کے جشن منانا ہو ں گے۔ حالت یہ ہے کہ تحریک انصاف نام ہے اور جج انصاف کے لیے مع اہل و عیال اپنی ہی عدالت میں دیکھے گئے۔ ابھی تین سال گزرے ہیں تو عوام کو لگتا ہے کہ ان کو مسلط ہوئے تین صدیاں ہو چلی ہیں کیوں کہ دکھ، کرب، تکلیف، گھٹن ، مصیبت کے لمحے برسوں و صدیوں پر حاوی ہوتے ہیں۔ پارلیمانی نظام کے تحت حاکم ہیں مگر ایک دن بھی پارلیمانی روایات کو وقعت اور توقیر نہیں دی۔ حالیہ دنوں الیکشن کمیشن سے مذاکرات باقاعدہ ٹاکرا بن گئے اور ایک وزیر نے کرپشن کے الزامات ہی نہیں آگ لگانے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ اس پر دیگر وزراء کورس کی صورت میں اس وزیر کی آواز میں شامل واجے کی طرح شامل ہو گئے، کوئی حد ہوتی ہے مگر ان کی کوئی حد نہیں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور ووٹنگ مشینوں جیسی حرکات حکمرانوں کی مزید غیر مقبولیت کا سبب بنے گی۔ حکومتی فسطائیت مزید بے نقاب ہو گی۔ پہلے 5 سال پورے نہیں ہو پا رہے اور ان کی حالت یہ ہے کہ ’’واعظ نصیحت کر رہا تھا مگر بھیڑیے کا دھیان بھیڑوں کی طرف تھا‘‘ بلکہ ’’گڈریے کو ان بھیڑوں کا غم تھا جو بھیڑیا کھا گیا اور بھیڑیے کو ان بھیڑوں کا پچھتاوا جو بچ گئیں‘‘۔گویا عوام کا ایک لمحہ نہیں گزر رہا ان کو آئندہ 5 سال کی فکر ہے۔ 
پہلے 100 دن میں کیا کرنا ہے۔ انتخابات سے پہلے شعوری دھاندلی کے زمرہ میں آتا تھا چلیں اعلان ہوا مگر وہ 100 دن ہزار دن گزرنے کے بعد بھی نہ آ سکے۔ پولیس غیر سیاسی ہو گی سے مراد شاید یہی تھا کہ صرف پی ٹی آئی کی ہو گی۔ یاد کر کے کوفت ہوتی ہے کہ عمران فرماتے کہ ’’ اوئے سڑکیں نہیں قوم بناتے ہیں‘‘ البتہ قوم کی حالت وہ کر دی کہ خانہ جنگی کے در پے ہے جبکہ سڑکوں کے صرف فیتے کاٹنے پر ہی فرمایا کہ ن لیگ سے سستی سڑکیں بنائیں گے۔ ہر چیز کی قیمتیں سیکڑوں گنا بڑھ گئیں یہ سستی کیسے بنا لیں گے؟ جو بی آرٹی سے ہی فارغ نہیں ہوئے۔
بجلی، پٹرول، ڈالر مہنگا ہو تو وزیراعظم چور ہے اب کیا بلاول بھٹو یا مریم نواز چور ہیں؟ یقین کریں کہ دل نہیں چاہتا اس حکومت اور حکمران کی کسی بات کا کچھ تذکرہ کرنے کو۔ بین الاقوامی حالات کیا سے کیا ہو گئے۔ ہر طرف کے ہمسایہ ممالک اور قیادتیں کیا سوچ رہی ہیں کس فکر میں مبتلا ہیں کچھ خبر نہیں۔ حکمرانوں اور ان کے وزراء ، مشیروں، ترجمانوں کو بس نواز شریف اور بلاول بھٹو، مریم نواز اور پی ڈی ایم فوبیا ہو گیا ہے۔ فوبیا میں مبتلا شخص قوم ، حکمران کبھی مثبت کام نہیں کر سکتے۔ قبلہ حافظ انجم سعید ایڈووکیٹ نے درست فرمایا کہ کوئی ایسا حکمران ہو جو موجودہ ’’وزیراعظم‘‘ کو اس کی صرف تقریریں اور سارا سارا دن سنا ئے کیونکہ موصوف بولے بہت ہیں اتنا بولے کہ سال کے 12 موسم ہوں یا بین الاقوامی جغرافیہ ان کی اپنی ہی ترنگ رہی۔ اس پر قوم کو ورغلانے والے ’’دانشوروں‘‘ کو ’’کلموئی‘‘جمہوریت صرف ق لیگ کی حکمرانی میں بھلی لگی ہے،البتہ گریٹ بھٹو کے متعلق کہتے ہیں وہ زیرک سیاستدان تھے مگر انجام کیا ہوا؟ تارامسیح؟ اس سے آگے خاموش ہو جاتے ہیں۔ ضیاء اور مشرف کا انجام نہیں بتاتے کیونکہ بنیادی طور پر آمریت پسند ہیںجبکہ گریٹ بھٹو کا بیانیہ آج بھی نواز شریف ، مریم نواز اور بلاول بھٹو کی صورت موجود ہے۔ 
عمران خان نے بطور سیاسی آدمی اور اقتدار میں بطور حکمران تہمت ، ڈھٹائی، جھوٹ، منافقت، الزام اور نفرت کی معاشرت کو فروغ دیا جبکہ وطن عزیز کو قومی سطح پر جتنی ہم آہنگی کی آج ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی مگر موجودہ حکمرانوں میں اہلیت ہی نہیں۔ سنجیدگی نہیں! بس ہوس اقتدار، طوالت اقتدار، خود ستائشی ، خود پسندی اور تکبر میں مبتلا ہیں کسی کو ہو تو ہو کسی ذی شعور کو ان سے بھلائی کی توقع نہیں۔ 
نامعلوم وجوہات اور اسباب کی بدولت الیکٹیبلز کی اختراع نکل آئی اگر سیاستدانوں کو تحفظ فراہم ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ سیاسی جماعتوں کی طرف لوٹ نہ آئیں مگر یہ تاثر کہ طاقتور حلقے کس کے ساتھ ہیں اور جس کے ساتھ ہیں اقتدار اس کاہے، کو موجودہ حکمرانوں نے دن رات محنت کرکے قائم کیا جو ملک و قوم اور معاشرت کی اساس کو ہلا کر رکھ دے گا۔
تین سال حکومت اور ہر ناجائز حربے کے  باوجود کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات میں پورے دباؤ کے باوجود (ن) لیگ کا مقابلہ نہ کر پانا اور آزاد امیدواروں کے قریب رہنا جبکہ پیپلزپارٹی جس کو اپنے ہی ملک میں غریب الوطنی کا سامنا ہے کا قابل ذکر پوزیشن لے لینا کنٹونمنٹ سے باہر آئندہ انتخابات میں جب عبوری حکومت ہو گی کے تجزیے کے لیے کافی ہے۔ ووٹنگ مشین اور میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی حکومت کی فسطائیت کا مزید پول کھول کر رکھ دے گی جو حکمران ٹولے کی غیر مقبولیت میں مزید اضافہ کرے گی۔ 
 مہنگائی ، بیروزگاری، حکمرانوں کی بے حسی اور ڈھٹائی نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی اگر عوام کی منشا اور مرضی کو طاقت کے ناجائز استعمال سے روکنے کی مزید کوشش کی گئی تو قدرت کا قانون اپنا راستہ بنائے گا پھر کوئی قوت اس راستے میں بریکر نہیں لگا سکتی۔ لاوا پھٹ پڑے گا کیونکہ حکمرانوں کا منشور اور پروگرام تو پانچ سال پورے کرنا رہ گیا ہے جبکہ عوام کے پانچ منٹ گزارنا صدی کے برابر ہوا چلا، کہاں ریاست مدینہ، سنگا پورکا نظام ترکی کانظام، چائنہ کا نظام، کہاں فلاحی ریاست کے دعوے ، کہاں یہ کہ لوگ باہر سے نوکری کرنے آئیں گے اور کہاں پانچ سال پورے کرنا حسرت بن گیا۔ 
آج کل افغانستان میں بدلی ہوئی صورت حال پر بہت تجزیے آ چکے، آتے رہیں گے ۔ اللہ کریم افغانستان میں امن قائم کرنے کی توفیق دے جو خطے کی سلامتی کے لے بھی ضروری ہے مگر لکھ رکھیں کہ افغانستان کا مستقبل ماضی سے مختلف نہیں ہو گا۔ 
جمع خاطر رہے کہ نواز شریف ضرور واپس آئیں گے اور ایسے کہ کوئی رکاوٹ نہ ہو گی۔ مریم نواز کراؤڈ پلر ہی نہیں ایک مقبول رہنما ہیں، بلا ول بھٹو اپنی پارٹی کا چھینا ہوا مقام واپس لانے میں کافی حد تک کامیاب ہوں گے۔ عمران خان اقتدار سے ہٹے تو واپس اپنے سائز میں چلے جائیں گے۔فی الحال پانچ سال پورے کرنا حسرت بن گیا۔

تبصرے بند ہیں.