مائنڈ سیٹ تبدیل، مایوسی کی باتیں کیوں؟

146

عالمی مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں۔ مگر ہم اپنے مسائل کے گرداب میں پھنسے ہیں۔ عوام مہنگائی بیروزگاری سے تنگ، حالات سے نبرد آزما لیکن اچھے دورکے لیے پر امید، مقبولیت 76 فیصد سے 48 فیصد پر آگئی۔ عوام ابھی تک کسی تبدیلی کے منتظر، ارد گرد تبدیلیوں کا نقارہ بج گیا۔ مگر یہاں ابھی بھی تبدیلی کا نام ہی گونج رہا ہے۔ تبدیلی جنس نایاب، حکمران شاید حوصلہ ہار بیٹھے ہیں، باتوں سے مایوسی جھلکنے لگی ہے۔ الجھی الجھی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں کہا ’’غریبوں کے سمندر میں ترقی نہیں ہوسکتی، نیا پاکستان بٹن دبانے سے نہیں بن سکتا، سسٹم بدلنے میں وقت لگے گا۔ اب بھی راستے میں رکاوٹیں ہیں مائنڈ سیٹ تبدیل ہونے لگا ہے۔‘‘ غریبوں کا سمندر اب بھی ٹھاٹھیں مار رہا ہے، سترہ اٹھارہ کروڑ غریب، ترقی کا جہازغربت کی ریت میں پھنس کر رہ گیا۔ مضبوط منصوبہ بندی کے آہنی رسوں سے نکالا جاسکتا ہے۔ 3 سال بعد ہی مایوسی کی باتیں۔ خوشخبریوں کے موسم بہار میں حوصلہ شکنی کا پت جھڑ، عوام کا مائنڈ سیٹ واقعی تبدیل ہو رہا ہے۔ ہوگیا ہے، لوگ تین سال بعد حقائق کی تلاش میں ہیں لیکن حقائق تلخ، سارے منصوبے کاغذی، ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچا کہ مستقبل کیا ہوگا۔ تین سال بعد بھی ’’کریں گے بنائیں گے ‘‘کے ڈائیلاگ، لوگ’’ یہ کیا وہ بنا یا یہ ترقی ہوئی‘‘ کی باتیں سننے کو ترس گئے۔ ملک پر قرضہ  122 ارب ڈالر ہوگیا۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق غیر ملکی قرضوں کا حجم تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ 39 ارب ڈالر سود کی ادائیگی، 3 برسوں میں قرضوں پر سود 7500 ارب۔ روپے کی قدر مٹی میں مل گئی۔ روپیہ خاک چاٹ رہا ہے۔ ڈالر کی قدر میں روز اضافہ۔  169 روپے ہوگیا۔ ڈالر بڑھنے سے قرضوں میں 2900 ارب کا بیٹھے بٹھائے اضافہ ،کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا، بجٹ خسارہ 3403 کھرب، تجارتی خسارہ 7 ارب 49 کروڑ ڈالر سے تجاوز، 35 ماہ میں قرضوں میں 15137 ارب روپے کا ریکارڈ اضافہ ہوا کہاں خرچ ہوئے خدا معلوم اوپر سے مایوسی کی باتیں لیکن وزراء مطمئن، ہشاش بشاش، اسد عمر نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو تسلی دی کہ مہنگائی کے ساتھ لوگوں کی آمدنی بھی بڑھی ہے۔ ایک دھیلا نہیں بڑھا بلکہ مہنگائی سے آمدنی کم ،بچت ختم ہوگئی۔ پتا نہیں کون خوش قسمت ان کی فہرست میں ہیں۔ ایک وزیر با تدبیر (روز نئی تدبیریں بتانے کے ماہر) نے فرمایا۔ ’’قرضے زر مبادلہ بڑھانے کے لیے، لیے جاتے ہیں‘‘ منطق سر سے گزر گئی اربوں سود کی ادائیگی اور قرض ادا کرنے پر زر مبادلہ کا کیا حال ہوگا۔ انڈسٹری برآمدات ترسیلات زر جوں کی توں اربوں کھربوں کے قرضے کون اتارے گا؟ کیسے اتارے گا؟ ’’اک عمر خضر چاہیے زلف کے سر ہونے تک‘‘بقول شاعر’’ ہمارے بعد کئی نسلیں ہوں گی شرمندہ۔ یہ زندگی وہ سوالات کرنے والی ہے‘‘۔ منصوبہ بندی ندارد، ملکی تاریخ کی مہنگی ترین ایل این جی کی خریداری، ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ ملکی گندم کہاں گئی باہر سے مہنگی گندم، مہنگی چینی درآمد کرنی پڑ رہی ہے۔ اپنی چینی اپنی مافیا کھا گئی۔ اربوں ہضم،  مائنڈ سیٹ تو تبدیل ہوگا۔ لوگ سوالات کرنے لگے ہیں کہ روزانہ ہر خطاب میں اپوزیشن کو برا بھلا کہنا نہیں بھولتے اپنا کہا یاد نہیں۔ ’’90 روز میں لوٹی دولت واپس لائیں گے‘‘ کیا لے آئے؟ آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لیں گے کیا نہیں لیا؟ 90 دن میں کرپشن کا خاتمہ کردیں گے کیا کردیا؟ ایک کروڑ نوکریاں دیں گے ،کیا دے دیں؟ (یہاں تو پچاس لاکھ  بیروزگار ہو رہے ہیں) خسارے میں چلنے والے اداروں کومنافع بخش بنائیں گے کیا بن گئے؟ 50 لاکھ گھر بنائیں گے کیا بن گئے؟ 8 ہزار ارب ٹیکس جمع کریں گے، کیا کرلیا؟ ایف بی آر وزارت خزانہ اور دیگر محکموں میں آئے روز تبدیلیاں، نئے آنے والوں نے بجلی بلوں پر بھی 7.5 فیصد ٹیکس لگا دیا۔ مائنڈ سیٹ کی تبدیلی اور کیا ہوتی ہے۔ لوگ کہنے لگے ہیں کہ دعوے، وعدے نعرے صرف ہوائی فائرنگ، بڑے وعدے بڑی ناکامیاں، کرپشن کے داغ دھلے نہیں اور گہرے ہوگئے ہیں۔ چہروں پہ شک ہونے لگا ہے تو آئینے دھولیں۔ شکوک و شبہات کی گرد صاف ہو تو اندازہ ہوگا کہ ارد گرد سارے چہرے قابل رشک نہیں چھ چھ تبدیلیاں کرنے سے فائدہ  ؟اقتصادی ٹیم میں اختلافات، معاون خصوصی مستعفی ہونے ہی میں عافیت محسوس کرنے لگے ہیں ڈاکٹر عشرت حسین بھی گئے۔ وقار مسعود بھی باہر۔ خواب بکھر رہے ہیں۔ تبدیلی گالی بن رہی ہے۔ پوری اپوزیشن کو نا اہل قرار دے کر بھی خوش بختی اور خوش قسمتی قریب نہیں آرہی۔ ایمان سے لوگ بر ملا کہتے ہیںکہ چوروں ڈاکوئوں کے دور میں ہر چیز سستی تھی ایک صاحب نے واٹس ایپ کیا ’’اڑے تھے ضد پہ کہ سورج بنا کے چھوڑیں گے، پسینے چھوٹ گئے ایک دیا بنانے میں‘‘ سوچنا ہوگا کہ لوگ ایسا کیوں سوچنے لگے ہیں۔ سمجھنا ہوگا کہ 3 سال بعد ہی لوگ کیوں سمجھنے لگے ہیں کہ شاید ان سے سمجھنے میں غلطی ہوگئی۔ ’’ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں‘‘ لیکن احباب شکوہ کرنے لگے ہیں کہ کیا لانے والوں کو آنے والوں کی صلاحیتوں کا علم نہیں تھا؟ نہیں تھا تو اس کھیل کی ضرورت کیا تھی۔ علم تھا تو لائے کیوں؟ بلاول بھٹو کا اس مسئلہ پر خون جوش مارتا ہے کہا ایک پارٹی کو لانچ کیا گیا پھر اس کے جلسے بھرے گئے پارٹی چیئرمین ہیں سب کچھ کہہ سکتے ہیں عام آدمی کے تو پر جلتے ہیں کیا کہے گا اپنی ہی آگ میں جل بھن رہا ہے۔ مہنگائی سے فرصت ملے تو سوچے فیس بک، واٹس ایپ پر درجنوں سوالات، ریمارکس، کسی جانب سے ٹھنڈی ہَوا کا جھونکا محسوس نہیں ہورہا بلکہ ’’وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ‘‘ کیا پانچ سال گزرنے پر تختیوں کی فہرستوں پر ووٹ حاصل کیے جائیں گے۔ 3 سالوں کا خلاصہ 6 لائنوں میں مکمل ’’پھر ملیں گے اگر چہ ووٹ ملے اور خدا لایا‘ باتوں میں تضاد، سوچ پر دھند، دھند میں لپٹا ایک ہی چہرہ، لندن میں محلات۔ محل تو صرف بکنگھم پیلس ہے باقی فلیٹ، اپنا نہ کوئی کاروبار نہ فیکٹری مگر اللہ کا دیا بہت کچھ بلکہ سب کچھ، مگر خوش قسمتی کوئی پوچھتا نہیں۔ وزراء مشیر معاونین خصوصی اور ترجمان قد کاٹھ سے بڑھ کر باتیں کرنے لگے ہیں۔ سیاستدانوں میں ایسی باتیں نہیں ہوتیں۔ سیانے کہتے ہیں سیاست کے اپنے آداب ہیں مگر جب شیخ رشید جیسے 60 سال پرانے بلکہ سالخوردہ سیاستدان شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان کو عقل کے اندھے قرار دیں تو جواب یہی آئے گا کہ آنکھوں سے نابینا لوگوں کو تباہی نظر نہیں آتی حیرت کہ تباہی کو ترقی کہنے لگے ہیں۔ ایک اور وزیر نے بلاول کو نشانے پر لیا فرمایا۔’’ بے نظیر اور بھٹو کی پارٹی جوکروںکے ہاتھوں میں ہے بلاول اور مریم دھاندلی کے بغیر وزیر اعظم نہیں بن سکتے‘‘۔ لہجے اور انداز گفتگو سے مایوسی کا اظہار، شیخ صاحب نے تو ریٹائرمنٹ کا عندیہ دے دیا ’’ہم پہ احساں جو یہ کر دیں تو یہ احساں ہو گا‘‘۔ نواز شریف سے غلطی ہوگئی کہ شیخ صاحب کو چیلنج کردیا ورنہ سکون سے لال حویلی میں موکلوں کے ساتھ گزر بسر کر رہے ہوتے مایوسی کیوں؟ ناقابل فہم 176 ارکان ساتھ ہیں بلاول کی جلی کٹی باتوں سے اپوزیشن تنکے تنکے رہے گی۔ کوئی کرشماتی عمل سے اکٹھی ہو بھی جائے تو کل ارکان 156 سے تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوسکتی لانگ مارچ نہیں ہوگا۔ کوئی روک رہا ہے کوئی ٹوک رہا ہے۔ صرف بالغ نظری سے ہی معاملات سدھر سکتے ہیں۔ ورنہ تحریک عدم اعتماد کے انتظار میں بلاول بھٹو پچاس سال کے ہوجائیں گے اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں، متحد ہوگی تو خطرہ ہوگا۔ پھر مایوسی کسی بات کی؟ مائنڈ سیٹ تبدیل ہو رہا ہے تو 17 کروڑ عوام کو مہنگائی اور غربت کے عفریت سے نجات دلانے کے لیے کچھ کیا جائے۔

تبصرے بند ہیں.