آبائی ملک، شہر اور شہر ارواح

250

انسان کی خواہشات کا لامتناہی سلسلہ مرنے کے بعد ملکیت اور عملداری کی حسرت اس کی شاید جبلت میں ہی ڈال دی گئی۔ آبائی ملک، شہر، موضع، محلے حتیٰ کہ قبرستان سے بھی رغبت اس کی فطرت میں شامل ہے مگر انسان ہونا شرط ہے۔ اگلے روز میں اپنی دادی (بے بے) والدین ، بھائیوں پاء جی محمد اعظم بٹ شہیدؒ اور معظم بھائی سابقہ چیئر مین جیل روڈ ابدی محلے جسے قبرستان کہتے ہیں گیا بالکل احساس نہیں تھا کہ یہ قبرستان ہے کہ گھر؟ سانحات کی سیریز نے زندگی موت کا فرق مٹا دیا۔ مگر میرے آقاﷺ نے فرمایا کہ ’’اگر آپ کو آپ کے دکھ تنگ کریں تو میرے دکھ یاد کرلیا کرو‘‘ (مفہوم) ۔ چھوٹا سا قبرستان ہے ایک جگہ کے متعلق متولی نے بتایا کہ ایک سیاسی شخصیت نے اپنے لیے رکھوائی ہے۔ میں نے سوچا کہ کروفر سے تیاری نہیں لگتی البتہ قبرستان میں بھی جگہ پر قبضہ ہے۔ مجھے احساس ہوا کہ انسان مر کر بھی اپنی پسند کی جگہ اور اپنوں کے قریب ابدی ٹھکانہ چاہتا ہے۔’’کسی کی کیا بات کروں میں خود جب مکہ گیا میری کتاب ’میں اور میری روح‘میں بھی ذکر ہے جنت المعلی ٰ دیکھ کر خواہش ہوئی کہ کاش مجھے بھی یہاں جگہ نصیب ہو جائے ‘‘۔ آسٹریلیا میں مقیم میرے بھتیجے ڈاکٹر ہمایوں معظم بٹ نے اپنا ڈی این اے کرایا جس میں روس سے منگولیا، ترک، قازقستان، کشمیر سے ہوتا ہوا ( بنیادی طور پر ہندوستان) پاکستان تک کی تہذیبوں اور اجداد کے سلسلے کا پتہ دے دیا۔ہم جب باغبانپورہ تھے تو اجداد قبرستان کلاں میں بسیرا کر گئے۔ 45 سال پہلے سیٹلائٹ ٹاؤن آئے تو دادی کے بعد وصال پانے والے سیٹلائٹ ٹاؤن میں مقیم ہوئے مگر اعظم بھائی کے بعد ہم نے گوجرانوالہ کو خیر باد کہہ دیا۔پاسپورٹ اور ویزے رکاوٹیں بن گئے ورنہ ظلمتوں کے شہروں میں کون رہتا ہے،جب بھی ہجرت کی ابتدا ہوئی سبب ناانصافی، ظلم، جبر، عدم تحفظ، عزت نفس مجروح ہونا، روح و بدن، ذہن و شعور ، فکر و نقطہء نظر پر قدغن لگ جانا سبب بنتا ہے ورنہ آبائی شہر تو کیا آبائی قبرستان پرانے محلات سے زیادہ عزیز و دلکش ہوتے ہیں۔جب شہر میں اپنے عالم ارواح کی طرف کوچ کر جائیں تو پھر آبائی شہر کاٹتے ہیں اور دل نہیں لگتا بھاگنا پڑتا ہے۔
سیٹلائٹ ٹاؤن والا گھر اور گوجرانوالہ پروفیسر من موہن سنگھ کی نظم ’’ امبی دا بوٹا ‘‘ بن گئی ۔لہٰذا یہ دنیا اور کائنات صرف اس کو بنانے والا جانتا ہے یا وہ جس کو اس کا راز مالک نے بتا دیا ہے کہ کائنات کا سفر کہاں تک ہے۔ انسان کے بعد اس کا حق تو دنیا کے قانون بھی وصیت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں گویا محض مٹی نہیں ہڈیاں نہیں، گوشت پوست اور خون نہیں ، کوئی دائمی چیز بھی ہے جس کا احترام لازم ہے اور وہ روح جس کو فنا نہیں یہ سارا قصہ روح کا ہے۔ روح ہی ہے جو آبائی ممالک،شہر، قصبے و قبرستانوں سے رغبت رکھتی ہے۔ دو انسانوں کا دراصل تعلق ہی دو ارواح کا ہوا کرتا ہے۔ محبت کرنے والے اگر غصہ نہ کریں تو جب تک جسم جدا رہتے ہیں روحیں ایک ہوتی ہیں اور جب جسم ایک ہوں تو روحیں جدا ہی نہیں بلکہ اپنی اپنی اصلیت کو لوٹ جایا کرتی ہیں۔ روح کی غذا بدن اور نفس کی مانگوں کی نفی ہے۔ آبائی گھر اور شہر تو خوابوں پر بھی قابض ہوتے ہیں۔ یورپ اور دیگر قدامت پسند تہذیبوں میں تو پرانے گھر لوگوں کو گزری ہوئی ارواح کے مکین ہونے کا باقاعدہ احساس دلاتے ہیں۔ پرانے محلات، قلعوںا ور عمارتوں، رہن بسیروں میں علم ارواح کے ماہرین آج بھی ارواح کو حاضر کرلیتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ ہمارے گھر سیٹلائٹ ٹاؤن میں شہر کا کونسا معتبر یا عام آدمی ہو گا جو ہمارا مہمان نہ بنا ہو۔ امیر لوگوں کا شہر ہے مگر الحمد للہ میرے ابا جی پاء جی اعظم بھائی،میرے خاندان اور دوستوں نے بھائی چارے کی کیا کیا محفلیں نہ سجائیں ، رونقیں نہ لگائیں اور کبھی دستر خوان سمیٹا نہ باہر کا دروازہ تالے کی شکل دیکھ پایا تو کچھ سال بعد جب کوئی علم ارواح کا جاننے والا وہاں پر ارواح کو حاضر کرے گا شہر کا شاید کوئی صاحب نام ہو گا جو جس کی روح حاضر نہ ہو گی بات دوسری اور ذاتی حوالے کی طرف چلی گئی۔
میں شہر خموشاں کو شہر ارواح کہتا ہوں آخر کوئی حکمت ہی ہے کہ شہر ارواح میں داخل ہوتے ہی السلام علیکم یا اہل القبور کہا جائے ہر ایک کا اپنا نظریہ ہے مگر میں روح کو بدن سے بہت زیادہ طاقتور جانتا اور مانتا ہوں اور اسی طرح اس کے رشتے کو بھی۔ روح کی تازگی، توانائی اس کے رزق کے لیے اللہ کے احکامات ، انبیاء کرام کے پیغامات طرز ہائے زندگی، صوفیاء اور اولیا اللہ کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ ان کی طرف رجوع سائنس، ٹیکنالوجی، عمرانیات ، قوانین، آئین اور دیگر دنیاوی علوم سے احتراز یا اجتناب نہیں بلکہ تلقین کرنے کی ترغیب دیتا مگر یہ اپنے اپنے فہم کی بات ہے۔ بے نیازی، عدم لالچ ،نیکی، سچائی تو ہر معاشرت کو توانا کرتی ہے۔ ذرا اپنے اسلاف کی بات پر غور تو فرمائیں جو کہتے ہیں
٭قدرت کا نہ ہونا انسان کو پرہیز گار بنا دیتا ہے۔ ٭فقر میں انسان کو بہت سے گناہوں پر قدرت نہیں رہتی اس لیے فقر باعث فخر ہے۔ ٭انسان کا اختیار ہی اس کو جزا اور سزا کا مستحق بناتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ نے فرمایا: ’’ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی‘‘ نیک عمل کرنے والے دوسروں کے لیے بھی راحت کا سبب بنتے ہیں اور کافر سب کے لیے مصیبت ہوتے ہیں۔ انسان کی جتنی بھی تعریفیں ہوئی ہیں وہ سب اس کے اختیاری افعال پر ہیں۔ دوزخ میںجا کر دوزخی بھی عبادت کریں گے لیکن وہ اس کی اضطراری عبادت ہو گی جو غیر معتبر اور باقی نہ رہے گی ۔
اسی طرح اولیاء اللہ کی صحبت سے کشف باطنی حاصل ہو جاتا ہے۔ تاریک دل لوگوں کی صحبت دل کو بے نور بنا دیتی ہے۔ اللہ کے نیک بندوں کا پر تو نورانی ہوتا ہے اور خدا سے دور رہنے والوں کا ظلماتی ہوتا ہے۔ انسان کو پریشانیوں سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ صبر کرنا چاہیے۔ ہر پریشانی کے بعد راحت ضرور آتی ہے۔ کسی بھی تکلیف پر اللہ کے ساتھ بدگمانی نہیں کرنی چاہیے۔عام لوگوں کے ساتھ تعلقات میں بھی خندہ پیشانی سے کام لینا چاہیے۔ پھول کی پتیاں اگر بکھر بھی جائیں تو ان کی مسکراہٹ ختم نہیں ہوتی۔ اللہ کی راہ حقیقت یہی ہے کہ انسان اس بات کا عادی ہو جائے کہ ’’ہر چہ از دوست می آید نیکوست‘‘ یعنی جو کچھ دوست کی طرف سے آتا ہے بہتر ہی ہے۔ وہ عقل قابل مبارک باد ہے جو قضا پر راضی ہو اور اس پرشکوک و شبہات کا غبار بالکل نہ ہو ۔قرآن میں فرمایا گیا لا تا سو علی مافا تکم یعنی کسی فوت شدہ چیز پر غم نہ کرو۔ انسان کی ایک مصیبت بہت سی بڑی مصیبتوں سے نجات کا سبب بنتی ہے۔
نشو و نما ہے اصل سے غالب فروغ کو
خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہے
ساز ہستی سے نغمہ عدم کے سوا اور کچھ آوازکانوں میں نہیں آئی، جس کسی سریلی آواز کا میں نے تجزیہ کیا وہ خموشی کا راگ ہی الاپ رہی تھی، ہر ایک شخص جب تک زندہ ہے سر گرم سخن رہتا ہے۔ مگر موت کے بعد ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جاتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ وجود دو عدم کے درمیان ہے۔ آغاز و انجام ہر ایک شے کا جو ’’ہست‘‘ ہے ’’نیستی‘‘ ہے
رنج دنیا، فکر عقبیٰ، داغ حرماں، درد دل
یک نفس ہستی بدوشم عالمے را بار کرد
ہستی یا زندگی تو ایک تار نفس سے وابستہ ہے، یہ رشتہ ٹوٹا تو انسان تمام دنیا جہاں کے بوجھ سے سبکدوش ہو گیا، جب تک زندہ ہے دنیا کا رنج اور عاقبت کی فکر اور داغ حسرت و حرماں اور درد دل برداشت ہی کرنا پڑے گا۔
بندگی، شاہی، گدائی، مفلسی، گردن کشی
خاک عبرت خیز، صد رنگ تہمت می کشد
انسان خاکی امیر ہو یا فقیر، شاہ ہو گدا، غلام ہو یا آقا، مغرور ہو یا خاکسار غرض ہر ایک رنگ ایک تہمت ہی ہے جو آدمی اپنے سر پر دھر رہا ہے، زندگی چند روز ہے جب ہر ایک شے گذاشتنی ہے تو ان کو ان سے منسوب کرنا تہمت ہی ہے۔ وہ کیا لایا تھا کہ اپنے ساتھ لے گیا۔ یہ بندگی اور شاہی وغیرہ یہیں کی چیز تھی یہیں رہ گئی۔ زندگی کاقصہ ہی آبائی خاندان ، شہر ارواح اور عالم ارواح سے درمیان وقفہ تو جسم و روح کا رشتہ ہے۔

تبصرے بند ہیں.