دنیا بھر کے اخبارات ان چیلنجوں کی کہانیوں سے بھرے رہتے ہیں جن کا تارکین وطن کے خاندانوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے؛ ان کہانیوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جلد ہی اُن وجوہات کے تدارک پر توجہ دی جائے گی جن کی وجہ سے لاکھوں افراد کو اپنے آبائی وطن سے نقل مکانی کرنا پڑتی ہے۔ لیکن ابھی تک فوکس ان تارکین کی امداد پر ہے جو کسی نہ کسی طرح دوسرے ملک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں؛ ترک وطن کی وجوہات کو تاحال ٹارگٹ نہیں کیا گیا۔ پناہ گزینوں کا معاملہ جو کہ آج دنیا بھر میں بحران کی صورت اختیار کر چکا ہے، اس سے نمٹنے کیلئے ان وجوہات کا سد باب کرنا ہو گا جن کی وجہ سے لوگ اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کیا وجہ ہے والدین نامعلوم منزل تک پہنچنے کیلئے اپنی اور اپنے بچوں کی جانیں داؤ پر لگانے کو تیار ہیں؟ ایسے کون سے اقدامات ہیں جن کے ذریعے اُن خاندانوں کو ہجرت سے روکا جا سکتا ہے؟ دونوں بنیادی سوالوں کے جواب او ای سی ڈی کی 2018ء کی سٹڈی میں میرے ساتھیوں نے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ سٹڈی میں جو نتائج اخذ کئے گئے، وہ کافی تکلیف دہ ہیں۔ سٹڈی کے مطابق 2030ء تک دنیا کے 80 فیصد غریب ان ملکوں کے شہری ہوں گے جنہیں سیاسی، سماجی، سلامتی، معاشی، ماحولیات سمیت کئی حوالوں سے کمزور قرار دیا جاتا ہے۔ ان عوامل کے تدارک کیلئے ابھی تک بہت کم ترقیاتی امداد مختص کی گئی ہے۔ مثلاً 2016ء میں تقریباً 68ارب ڈالر سے زائد کی ترقیاتی امداد کا محض 2فیصد ایسے علاقوں کیلئے استعمال ہوا جو شورش زدہ یا سلامتی کے مسائل کا شکار تھے، ان میں 10فیصد قیام امن کی
سرگرمیوں کیلئے استعمال کئے گئے۔ قابل ذکر نتائج حاصل کرنے کیلئے اس امداد میں اضافے کے علاوہ اس کا استعمال مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کی ریفیوجی ایجنسی کے مطابق 2017ء کے دوران چھ کروڑ 85 لاکھ سے زائد افراد کو جبری نقل مکانی کا سامنا کرنا پڑا، جو کہ ایک ریکارڈ ہے، ان میں اکثریت کا تعلق افغانستان، میانمار، صومالیہ، جنوبی سوڈان اور شام سے تھا۔ پناہ دینے والے ممالک کو خاطر خواہ فنڈنگ کی ضرورت ہے تاکہ ان کی دیکھ بھال کے انتظامات کر سکیں۔ اقوام متحدہ کی ترقیاتی فنڈز کا بڑا حصہ چند بنیادی انسانی ضروریات تک محدود ہے، جس میں خوراک اور چھت سرفہرست ہیں۔ ہجرت کا بحران سنگین ہونے کی وجہ سے ان فنڈز کا بڑا حصہ بنیادی ضروریات پر ہی خرچ ہو رہا ہے۔ اس صورتحال کے باعث سکول، ہسپتال اور انفراسٹرکچر کے مختلف شعبے نظر انداز ہو رہے ہیں۔ ڈونرز کی مجبوری یہ ہے کہ پناہ گزینوں کی فوری مدد کی ضرورت وہ نظرانداز نہیں کر سکتے۔ تاہم ڈونرز اور عالمی برادری کو مستقبل کے تناظر میں بھی اس مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر فنڈز کی تقسیم مناسب طور پر کی جائے تو اقوام متحدہ کی ترقیاتی امداد تنازعات کو روکنے اور ریاستی کمزوریاں دور کرنے میں فعال کردار ادا کر سکتی ہے۔ مزید براں، ترقیاتی نوعیت کے اخراجات تارکین وطن خصوصاً شورش زدہ علاقوں کے پناہ گزینوں کے لئے امید کا باعث بنتے ہیں۔ ہنگامی صورتحال میں اقوام متحدہ کے فنڈز ایک معتبر ذریعہ بھی ہیں کیونکہ دیگر ذرائع سے فنڈنگ کی نسبت اقوام متحدہ کی جانب فنڈنگ کبھی بند نہیں ہوتی۔ تاہم ان فنڈز کو خرچ کرنے کے رخ کو تبدیل کرنا آسان نہیں۔ کمزور ریاستوں کو گوناگوں چیلنجوں کا سامنا ہے، ترقیاتی فنڈز سے تمام چیلنجز کا تدارک ممکن نہیں، پُرتشدد انتہا پسندی، موسمیاتی تبدیلی، منظم جرائم اور جنسی امتیاز جیسے مسائل سے نمٹنے کیلئے نئی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
ہجرت کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں تصادم، تشدد اور دیگر اقسام کے ریاستی کمزوریاں ان تمام کامیابیوں کو نگل جائیں گی جو گزشتہ کچھ دہائیوں کے دوران حاصل کی گئیں؛ ان خطوں میں عدم استحکام نئی نئی صورتوں میں سر اٹھا سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف کا حصول ناممکن ہو جائیگا۔ ہجرت کے بحران پر طویل المدت کیلئے اخراجات کی ٹھوس مالیاتی وجہ بھی ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی بینک کی رپورٹس کے مطابق اگر صرف تنازعات کے سدباب کے پروگراموں پر زیادہ فنڈز لگائے جائیں تو صرف پناہ گزینوں کی منتقلی کی مد میں سالانہ 70ارب ڈالر کی بچت کی جا سکتی ہے۔ جس طرح ہیلتھ کیئر کے اخراجات میں کمی کیلئے ریگولر سکریننگ، میڈیکل چیک اپ کو ضروری خیال کیا جاتا ہے، اسی فلسفے کا اطلاق ہجرت سے متعلق پالیسی سازی پر بھی کیا جانا چاہیے۔ اس سے واضح تبدیل دیکھنے کو ملے گی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد اس وقت دنیا کو ہجرت کے بدترین بحران کا سامنا ہے۔ اس بحران سے مؤثر طور پر نمٹنے کیلئے استحکام اور سلامتی کے صورتحال پر بھرپور اور مؤثر انداز میں فوکس کرنے کی ضرورت ہے؛ تا کہ وہ علاقے جہاں سے سب سے زیادہ ہجرت ہوتی ہے، وہاں بہتر مستقبل کی امیدیں پیدا کی جا سکیں۔ اس کیلئے عالمی ترقیاتی اداروں، خصوصاً سرکاری ڈونرز کو اپنی ترجیحات اور پالیسیوں پر از سرنو غور کرنا ہو گا۔ (مضمون نگار پرتگال کے سابق وزیر ماحولیات ہیں)
(بشکریہ:خلیج ٹائمز)
Next Post
تبصرے بند ہیں.