آہ!جموں و کشمیر کے قائداعظم بھی چل بسے

124

تحریک آزادی کشمیر کی توانا آواز سمجھے جانے والے حریت رہنما سید علی گیلانی 92 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ وہ یکم ستمبر کی شام اپنے گھر میں رحلت پاگئے ہیں۔ قابض بھارتی فوج نے سید علی گیلانی کو گزشتہ 12 برس سے سرینگر میں گھر میں مسلسل نظر بند کر رکھا تھا، جس کی وجہ سے ان کی صحت انتہائی گر چکی تھی۔ کشمیر ی عوام کی آزادی کی خاطر انہوں نے اپنی زندگی وقف کررکھی تھی ۔ سید علی گیلانی وہ نام تھا جس سے بھارتی حکومت ہی نہیں بلکہ بھارتی افواج بھی ڈرتی تھی۔

سید علی گیلانی 29 ستمبر 1929 کو شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ میں پیدا ہوئے  ۔ سید علی گیلانی نے اورینٹل کالج لاہور سے ادیب عالم اور کشمیر یونیورسٹی سے ادیب فاضل اور منشی فاضل کی ڈگریاں حاصل کیں۔ 1949 میں ان کا بحیثیت استاد تقرر ہوا اور مستعفی ہونے سے پہلے 12 سال تک وہ کشمیر کے مختلف سکولوں میں خدمات انجام دیتے رہے۔1950میں سید علی گیلانی کے والدین نے پڑوسی ضلع بارہمولہ کے قصبہ سوپور ہجرت کی۔1953 میں وہ جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ وہ پہلی بار 28 اگست 1962 کو گرفتار ہوئے اور 13 مہینے کے بعد جیل سے رہا کیے گئے۔ مجموعی طور پر انہوں نے اپنی زندگی کا 14 سال سے زیادہ کا عرصہ جموں و کشمیر اور بھارت کی مختلف جیلوں میں گزارا جبکہ گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے وہ اپنے گھر میں نظربند تھے۔

گیلانی کشمیر میں 15 سال تک اسمبلی کے رکن رہے۔ وہ اسمبلی کے لیے تین بار 1972، 1977 اور 1987 میں سوپور کے حلقے سے جماعت اسلامی کے مینڈیٹ پر منتخب ہوئے تھے۔

انہوں نے 30 اگست 1989 کو اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا۔سید علی گیلانی نے جماعت اسلامی میں مختلف مناصب بشمول امیر ضلع، ایڈیٹر اذان، قائم جماعت اور قائم مقام امیر جماعت کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں۔ بعد میں سید علی گیلانی نے تحریکِ حریت کے نام سے اپنی جماعت بنائی۔انہوں نے جموں و کشمیر میں مزاحمتی حامی جماعتوں کی ایک جماعت ’کل جماعتی حریت کانفرنس‘ کے ایک دھڑے کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، تاہم گزشتہ برس جون میں انہوں نے اس فورم سے مکمل علیحدگی کا اعلان کردیا تھا۔

92 سالہ سید علی گیلانی کچھ عرصے سے بیمار اور مختلف جسمانی عوارض میں مبتلا تھے۔ ان کے دل کے ساتھ پیس میکر لگا ہوا تھا۔ ان کا پِتہ اور ایک گردہ نکالا جاچکا تھا جبکہ دوسرے گردے کا بھی تیسرا حصہ آپریشن کر کے نکالا جاچکا تھا۔اتنی بیماریوںکے باوجود کشمیر ی عوام کی محبت کی خاطر انہوں نے ہندوستان کی حکومت سے جنگ جاری رکھی۔ انہوں نے اپنی صحت کا پس پشت ڈال کر کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑتے رہے۔ سید علی گیلانی سیاست دان ہی نہیں بلکہ وہ مصنف بھی تھے۔انہوں نے 30 سے زائد کتابیں لکھیں۔

جموں کشمیر کی آزادی کے لیے جہاں بہت سارے لوگوں نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے ملک کی آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کیں انہیں میں آج ان کا نام بھی شامل ہوگیا ۔ سید علی گیلانی کشمیر کے قائداعظم تھے۔ وہ ہمیشہ پاکستان کے حامی تھے۔ ان کانام تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھا جائے گا۔

ہندوستان کی حکومت جو کشمیری عوام کے ساتھ شروع دن سے آج تک دشمنی نبھاتی آرہی ہے انہوں نے سید علی گیلانی کی وفات پر بھی وہ دشمنی جاری رکھی۔ اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبردار کہنے والے آج علی گیلانی کی وصیت پر بھی عمل نہیں کراسکے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ علی گیلانی نے اپنی وصیت میں کیا کہا تھا مگر نہیں جانتے تو ایک ہندوستانی حکمران اور دوسرے انسانی حقوق کے علمبردار۔

سنیئر حریت رہنما سید علی گیلانی مرحوم کی آخری وصیت اس وقت پوری امت مسلمہ میں گردش کر رہی ہے، بھارتی فوج نے مرحوم کی آخری وصیت پر عمل نہ کرتے ہوئے انہیں منہ اندھیرے، چپ چاپ اپنی مرضی کی جگہ پر دفنا دیا جس سے ان کی وصیت کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور اسے انسانی حقوق کی بھی سنگین خلاف ورزی بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ حریت رہنما سید علی گیلانی وصیت تھی کہ انہیں شہدا کے قبرستان میں دفن کیا جائے مگر بھارتی فوج نے ایسا نہیں ہونا دیا اور ان کی وفات کے ساتھ ہی رات گئے حیدر پورہ کے قبرستان میں ان کی قبر کھود لی۔

 سیدعلی گیلانی کی موت ہندوستان حکومت کی قید میں واقع ہوئی ہے جس سے ہندوستان حکمرانوں کی پوزیشن واضح ہوتی ہے کہ وہ علی گیلانی سے کتنے خوفزدہ تھے۔ ان کی موت کوطبعی ہوئی یا کہیں ہندو سامراجوں کی کوئی چال؟ یہ تو اب اللہ ہی فیصلہ کرے گایا میڈیکل؟

سید علی گیلانی کی موت کشمیری عوام کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے مگر اس سے انکار نہیں وہ اپنے بعد بہت سے علی گیلانی چھوڑگئے ہونگے جو ان کی کمی کو پورا تو نہیں کرسکتے مگر پورا کرنے کے کوشش ضرور کریں گے اور ایک دن ضرور آئے گا جب کشمیر آزاد ہوگا اور لوگ سید علی گیلانی کو کشمیری عوام کا قائداعظم کہہ رہے ہونگے۔ان شاء اللہ

تبصرے بند ہیں.