افغانستان میں اسلامی حکومت اور بھارتی پراپیگنڈہ

126

 1992 ء میں جب طالبان کی جدوجہد  کے بعد خوست شہر مجاہدین نے فتح کیا توان دنوں میں مجاہدین کی ایک تنظیم کے اصرار پر رپورٹنگ کے لئے خوست جانے کا اتفاق ہوا،میران شاہ میں ایک رات قیام کے بعد حرکت المجاہدین کے قافلے کے ساتھ دریائے کابل کی بپھری ہوئی لہروں کے بیچ سے ٹویاٹا ہائی لکس ڈالے کے ذریعے دریا عبور کیا،خوست شہر میں داخلے سے پہلے ہی وہاں کا ایئر پورٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں پر سی ون تھرٹی قسم کے بیشتر روسی جہاز معمولی ٹوٹ پھوٹ،خرابی کے باعث مال غنیمت میں مجاہدین کی مختلف تنظیموں کے کنٹرول میں تھے،جنہیں بعدازاں سکریپ میں تبدیل کرکے فروخت کیاگیا،مجاہدین کے بنگلہ دیشی ترجمان قاری جنید اللہ اختر نے ہمیں بتایا کہ روس جیسی سپرپاور ایسے ہی افغانستان میں شکست کھانے کے بعد کئی ریاستوں میں تقسیم نہیں ہوئی اسے صرف خوست شہر میں ہی جنگ کے دوران اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا،خوست ہوائی اڈے پر ان کے 180 بڑے جنگی جہازوں کو تباہ کیاگیا،اس طرح شہر بھر میں جنگی جیپیں،توپیں،ٹینک ودیگر سامان جگہ جگہ ناکارہ پڑے تھے،آج تیس سال بعد جب امریکہ کا آخری فوجی ذلت ورسوائی وشکست کا ساری عمرکا طوق اپنے ملک اور قوم کے سرلے کر افغانستان سے فرار ہورہا تھا توان کے کابل ایئر پورٹ سے انخلا،فرار کے بعد مجاہدین نے ایئر پورٹ پر امریکہ بھگوڑوں کا کھربوں ڈالر کا وہ سامان میڈیا کو دکھایا جن میں ہیلی کاپٹر،جنگی طیارے،ہیلمٹ،جیکٹس،بندوق واسلحہ،گاڑیاں شامل تھیں،امریکیوں کے لئے یہ سامان وبال جان بن گیا تھا،صحیح حالت میں چھوڑنے  پرمجاہدین کے ہاتھوں استعمال ہونے کا خطرہ اور واپس لے جانے میں بے پناہ،اخراجات کے باعث انہوں نے اسے ضائع کرنے میں ہی اکتفا کیا،اب امریکی اور نیٹو فورسز کے افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان کی اسلامی حکومت کے خلاف مغربی وبھارتی میڈیا کا منفی پراپیگنڈہ اور واویلا دنیا بھر کے میڈیا کی زینت بناہوا ہے،خاص کر بھارت کی مثال تمام تر صورتحال میں ”دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا“والی ہے، مودی سرکار اور وہاں کے میڈیا  وفوجی مبصرین کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے،وہ سکتے کے عالم میں ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہواکیا ہے،ان کی دو بلین ڈالر کی سرمایہ کاری ڈوب گئی،بھارتی انجینئرز، خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹوں کو افغانستان سے عجلت سے راہ فرار اختیار کرنا پڑی،بھارت کا ایک جنگی ہیلی کاپٹر جو کہ فوجیوں کی ٹرانسپوٹیشن کا بھی کام کرتاتھا مجاہدین کے قبضہ میں آگیا،جس کی قیمت  ایک سو کروڑ بتائی جارہی ہے۔بھارت جوکہ خود ہماری طرح ایک پسماندہ ملک ہے میں کروڑوں لوگ فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں،کروڑوں لوگوں کے لئے بیت الخلا تک موجود نہیں ہے،جس کی لاکھوں عورتیں عصمت فروشی کے دھندے پر مجبور ہیں جہاں کسان،مسلمان،مزدور،سکھ،دلت،آسامی،نچلی قوموں کے لوگ غربت،مذہبی واقلیتی منافرت،زیادتیوں،مہنگائی،بے روزگاری کے خلاف سراپا احتجاج ہیں،اگر افغانستان میں صرف پاکستان کی دشمنی پر لگائے 
جانے والے اربوں روپے اپنے ملک میں عوام کی زبوں حال دور کرنے پر خرچ کرتا تو کیا ہی اچھا ہوتا،لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت،اب انڈیا کے دفاعی وسیاسی تجریہ کار رونا رو رہے ہیں کہ ہمیں اس تمام تر گیم میں کچھ حاصل نہ ہوا،بھارتی ممبر پارلیمنٹ کے رکن اویس الدین اویسی ایک پروگرام میں فرما رہے تھے کہ ایمانداری اور سچائی کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں نئی تبدیلی کے بعد بھارت مارجنائزڈ ہوکر رہ گیا،ٹرائیکا پلس بنایا گیا،اس میں چائنہ،امریکہ اور روس ہیں،بھارت نہیں ہے،ریجنل آرک بنایاگیا اس میں بھارت نہیں 
ہے،چائنہ،روس،ایران اور پاکستان ہیں،ان کے مطابق افغانستان میں اسلامی حکومت کا قیام بھارت کے لئے درست نہیں ہے، یہ بات ایک مسلمان کہہ رہا ہے، ہندوؤں کی سوچ کیا ہوگی،نریندر مودی کے اس بیان جو انہوں نے سومنات کے مندر کے دوروں کے دوران دیا کہ بھلے ہی دہشت گردی کی بنیاد پر اگر کوئی کسی ملک میں حکومت بنالیتاہے تو وہ زیادہ لمبے عرصہ چل نہیں سکتے،جواب میں طالبان کے ترجمان شہاب الدین دلاور نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ بھارت کو جلد ہی پتہ چل جائے گا کہ ہم حکومت اچھے طریقہ سے چلاسکتے ہیں،انہوں نے مودی کو دھمکی دی کہ وہ افغانستان  کے اندرونی معاملے میں مداخلت نہ کرے،انہوں نے کہا کہ پاکستان،افغانستان کا دوست پڑوسی ملک ہے جس نے تیس لاکھ افغانیوں کو اپنے ملک میں کئی دہائیوں سے پناہ دے رکھی ہے،ہم اس کے لئے پاکستان کے شکر گزار ہیں،بھارتی میڈیا اب یہ پراپیگنڈہ کررہا ہے کہ اب طالبان کا اگلا قدم کشمیر کو آزاد کرانے کا ہو گا جس کے لئے پاکستان،طالبان کا گٹھ جوڑ ہوچکا ہے،بھارتی میڈیا افغانستان سے چند بھارت نواز افغانی شہریوں کی بھارت منتقلی کے بعد انہیں منفی پراپیگنڈہ کے لئے استعمال کررہا ہے،ساتھ ہی بھارت کو افغانستان میں اپنے مفادات اور ان افغانی،بھارتی شہریوں کی فکر لاحق ہے جن کی بھارت منتقلی 31 اگست کی امریکی فوجیوں کے انخلا کی ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد نہیں ہوسکی ہے،اس سلسلے میں دوحہ قطر میں بھارتی مندوب دیپک مکتل اور افغانی مندوب شیر محمد عباس کے درمیان ملاقات بھی ہوئی ہے تاکہ دونوں ملکوں میں تعلقات بہتر ہوسکیں۔

تبصرے بند ہیں.