تزکیہ نفس اور نظام کا قیام

230

راؤ عابد رشید نے سوال اٹھایا ہے ”اسلام میں تزکیہئ نفس کے لیے تصوف  اور صوفی ازم جزو ہے، کل نہیں۔حضور اکرمؐ نے اصحاب کے تزکیہئ نفس کے بعد کیا پوری ریاست مدینہ کی بنیاد نہیں رکھی تھی؟…… اور یہ کہ اسلامی فکر و فلسفہ کی بنیاد پر ارتقائی جدید اسلام، سیاسی نظام، معاشی نظام، تعلیمی نظام،عدالتی نظام کے لیتے جدید دنیا میں کوشش نہیں کرنا چاہے، ورنہ تو ہم فقط تسبیح، جمودی تصوف، راہبا نہ زندگی  اور رسومانہ اسلام کی طرف کے ہو کر رہ جائیں گے اور اسلام فقط اک مذہبی شکل میں ورد، درود کی نذر ہو جائے گا، قرآنی تصو ف میں جس کو قرآن میں تز کیہ نفس، حدیث میں احسان، صوفی ازم میں تصو ف کہا جاتا ہے، اس میں قرانی اذکار و فضا ئل، شریعت کی پابندی، سب کچھ انفرا دیت کا حامل ہے، یہ سب بجا لیکن اس کے بعد بحیثیت کل ہمارا اسلامی نظام کی جہد و جہد کے لئے کوشش لازم نہیں ہے؟” یہ سوال بلکہ مجموعہئ سوالات انتہائی فکر افروز ہیں، اس موضوع پر پیچ در پیچ فکر کی گرہیں لگی ہوئی ہیں، یہ موضوع ایک کالم کا متحمل ہرگز نہیں، البتہ یہ ممکن ہے کہ طائرانہ انداز میں چند نکات بیان کر دیے جائیں تا آن کہ جزو اور کل، اورآفاق و انفس کے درمیان ایک ازلی فکری معمے کو حل کرنے کے لیے ممد و معاون ثابت ہو۔ 
سب سے پہلی اور یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ اسلام دراصل ایک ہی دین ہے جو جامع اور مکمل ہے، اور داعی دین خاتم النبیین رسولِ کریمﷺ ایک انسانِ کامل ہیں جو ہمارے جسموں، روحوں اور نفسوں کی ربوبیت کا کامل اور حتمی سامان لے کرمبعوث ہوئے ہیں۔ اس لیے ہمیں رسولِ کریم ؐ کے لائے ہوئے دین ِ اسلام کو موڈریٹ اسلام اور بنیاد پرست اسلام، صوفی اسلام اور غیر صوفی اسلام، سنی اسلام اور شیعہ اسلام، بریلوی اسلام اور دیوبندی اسلام  کے خانوں میں تقسیم نہیں کرنا چاہیے۔ جو بات درست ہے‘ وہ درست رہے گی‘خواہ وہ خانقاہ میں کوئی صوفی کہے، یا مسجد  کے فرش پر بیٹھا کوئی پیش امام، خواہ وہ بریلی شریف سے آئے یا علومِ دیوبند سے، اسی طرح ایک غیر حق بات‘ حق کا غیر ہی رہے گی خواہ اسے تصوف کی کتابوں میں بیان کیا جائے یا وہ کسی مدرسے کے نصابی مضمون کا حصہ ہو۔ اسی طرح تصوف قرآنی اور غیر قرآنی نہیں ہوتا۔ تصوف ایک اصطلا ح ہے، اس اصطلاح پر بحث بے سود ہے، اس کی اصل پر بات کرنی چاہے، اور اس کی تمام اصل قرآن اور حدیث ہے۔ تصوف صرف اسلامی اور قرآنی ہی ہوتا ہے۔ شریعت کے بغیر کسی تصوف کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تصوف درجہ احسان ہے، اور احسان کا درجہ اسلام اور ایمان کے بعد ہے۔ صوفیا ء کا مرکز و منبع اصحابِ صفہ ہیں۔ دوسری صدی ہجری 
تک لفظ صوفی مستعمل ہو چکا تھا۔ صوفیاء کے فکر و عمل کے اصل کی نشاندہی جن قرآنی اصطلاحات میں کی گئی ہے‘ وہ ’اولوالالباب‘، عبادالرحمٰن، شاہدین، مخلصین اور صادقین ہیں،انعمت علیھم انہی کا تعارف ہے۔یہ لوگ ہر دور میں تھے اور ہر دور میں رہیں گے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ لفظ”صوفی ازم“ پر معترض ہوا کرتے، آپؒ فرماتے‘ تصوف کوئی”ازم“ نہیں ہوتا۔  
اگر بغور دیکھا جائے تو اس سوال کے اندر ہی جواب موجود ہے”حضور اکرمؐ نے اصحاب کے تزکیے کے بعد……“ یہاں لفظ
”تزکیے کے بعد“ یاد رکھنے والی بات ہے۔تزکیہ جزو نہیں، بلکہ کل ہے۔ترجیحات کی ترتیب الٹ جائے تو موضوع اور فلسفہ تلپٹ ہوجاتے ہیں۔ تزکیہئ نفس کو اگر پاکیزگی ئ قلب کہہ لے، تو بات عام فہم ہو جائے گی۔ یعنی پہلے قلب بدلے گا اور پھر قالب میں تبدیلی آئے گی۔ پاکیزہ نظام کے لیے پاکیزوہ لوگ درکار ہوتے ہیں۔  تزکیہئ نفس کے بغیر کوئی بھی نظام خواہ وہ کتنا ہی فلاحی ہو‘ اسے اسلامی نظام نہیں کہا جا سکتا۔ شمالی یورپ کے بعض ممالک کلمہ پڑھے بغیر ہی فلاحی معاشی و معاشرتی نظام قائم کر چکے ہیں۔ اگر آپ فلاحی معاشی و معاشرتی نظام ترجیح اوّل  کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسے ہی اسلام کا حاصل و ماحاصل تصور کرتے ہیں تو وہ لوگ آپ سے سوال کریں گے کہ جو کام ہم کلمہ پڑھے بغیر ہی کر چکے ہیں، اس کے لیے ہم تزکیہ نفس کا جھنجھٹ کیوں پالیں؟ اگر ایمان کی بنیادی شرط”الطہور شطرالایمان“ بتائی جاتی ہے تو سوچنا چاہیے کہ تزکیہئ نفس جزو ہے یا کل؟ اور یہ کہ ترجیح اوّل نظام کا قیام ہے یا تزکیہئ نفس؟ سنانے والے یہاں ایک لطیفہ سناتے ہیں۔ دو دوست سکھ دھرم سے تازہ تازہ مشرف بہ اسلام ہوئے، ایک دن مسجد میں بھاگم بھاگ داخل ہوئے، اور جماعت میں شامل ہو گئے، نماز سے فراغت کے بعد ایک اپنے ساتھی سے کہنے لگا، لے بھئی سردارا! شکر ہے جماعت مل گئی، اگر وضو کے جھنجھٹ میں پڑ جاتے تو آج جماعت نکل گئی تھی۔ بات تو سچ ہے‘ وضو کرنے والوں میں سے جماعت اکثر نکل جاتی ہے۔ تفنن برطرف، بات سمجھنے کی یہ ہے کہ اگر ایک شخص اپنی  ساری زندگی قلب کی طہارت حاصل کرنے میں صرف کردے اور وہ ایسے معاشرے میں پیدا ہو کر مر جائے جس میں ابھی تک نظام قائم نہیں ہو سکا، توایسا شخص اپنی قبر میں فلاح یافتہ شمار ہوگا یا نقصان میں رہنے والوں میں ہوگا، کیونکہ زندگی محدود ہے اورمابعدغیر محدود!! اس کے برعکس ایک شخص کسی نیم سیاسی‘نیم دینی جماعت کا فعال رکن کے طور اپنی جدو جہد سے اپنی جماعت کو اقتدار کے ایوانوں میں لے آتا ہے اور وہ جماعت چند آرڈیننس نافذ کر کے آئین کو مکمل اسلامی بنا دیتی ہے لیکن وہ شخص اپنی ذاتی زندگی میں قلب کی پاکیزگی حاصل نہ کر سکا،زمرہ”لایحزنوں“ میں شامل نہ ہوسکا، اور ”قد افلح من زکّٰھٰا“ کے کلیے میں داخل نہ ہوا، تو کیا ایسا شخص فلاح یافتہ کہلائے گا؟ کیا وہ ”قد خاب من دسّٰھا“ میں شمار نہ ہوگا؟ 
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو خارجین سے لے کر تا حال جو جماعت بھی دین کے مرکز اور مرکزی خیال سے منحرف ہوئی‘ اُس نے خود کو نظام کے نفاذ کے داعی کے طور پر ہی پیش کیا۔ خارجین خلفائے راشدین کے خلاف جنگیں کرتے رہے، ان کے جھنڈے پر”ان الحکم الا للہ“  لکھا ہوتا، وہ ”اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ“ کرنے کا نعرہ لے کر عام مسلمان کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ نفوذ سے پہلے نفاذ کے حامی فکری اعتبار سے خارجین کے نقشِ قدم پر ہیں۔ 
معاشرہ افراد ہی کا مجموعہ ہوتا ہے۔ افراد کی شکل میں معاشرے کی مشین میں ہم جیسا خام مال مہیا کریں گے‘ مشین سے ویسی ہی پروڈکٹ وصول کرلیں گے۔ یعنی جو بیجیں گے، وہی کاٹیں گے۔ ایسا کسی طور ممکن نہیں کہ ہم معاشرے کو افراد تو ایسے مہیا کریں جو غیر پاکیزہ فکر و نظر کے حامل ہوں‘ لیکن وہ افراد جو نظام قائم کریں وہ پاکیزگی کا مظہر ہو۔ ہمارا دین دوسرے مذاہب پر صرف اِس لیے برتر نہیں کہ یہاں اجتماعی قوانین بھی بتائیں گئے ہیں جن پر کاربند ہو کر ہم ایک مثالی اقدار کا حامل معاشرہ اور ریاست قائم کر سکتے ہیں، بلکہ یہ دین اس لیے باقی ادیان پر غالب ہے کہ اس میں موجود الہامی ہدایت میں آج تک تحریف نہیں ہو سکی۔ فانی انسان کی ذہنی تعبیرات و تفسیرات کے باوجود اس کا لافانی حسن برقرار ہے، یہاں اصولِ دین اور نصوص  وضوابط انتہائی محکم ہیں۔الہامی ہدایت میں کوئی ارتقا نہیں ہوتا، ارتقاء کا کا کلیہ مخلوق اور مخلوق کے قوانین پر لاگو ہوتا ہے۔ جدید اور قدیم اسلام میں کوئی فرق نہ کریں‘ وگرنہ کسی فرقے کی گود میں جا بیٹھیں گے۔
 مسجد تعمیر کرنے کیلئے”اسلام“ کوئی طے شدہ نظام قائم نہیں کرتا……جہاں چار نمازی اکٹھے ہوں گے‘وہاں مسجد بنا لیں گے۔ اسی طرح جہاں تزکیہ شدہ مسلمان جمع ہوجائیں گے‘وہ لامحالہ اپنے معاشی اور معاشرتی ضابطوں کو روحِ اسلام کے مطابق ڈھال لیں گے۔ اسلام ایک آفاقی دین ہے، اس کی سیاسی تعبیر اسے محدودو محصور کرد یتی ہے۔اسلام کی سیاسی تعبیر کرنے والے نادان دوستوں نے روحِ دین کوپامال کیا اور نادانستگی میں وحدت ملی کو پارہ پارہ کیا۔ اسلام کی سیاسی تاریخ تنازعات کا شکار رہی ہے۔ ریاست…… دین کا منتہا و مقصود‘  اور کُل دین نہیں‘بلکہ ایک جزو ہے…… راستے میں درپیش ایک پڑاؤ ہے۔ ظاہر…… باطن کا جزو ہوتا ہے‘ کُل نہیں!!

تبصرے بند ہیں.