3 سال کی امکانی ترقی پر 4 گھنٹے کا جشن

162

تبدیلی سرکار نے تین سال جوں توں گزار لیے۔ بڑی بات ہے ورنہ کمزور بنیادوں والی عمارتیں تو زلزلہ کے معمولی جھٹکوں سے زمیں بوس ہوجاتی ہیں۔ مگر تین سالوں کے دوران کتنے جتن کرنے پڑے،کتنے وزیر، مشیر، معاونین خصوصی آئے اور گئے۔ چند دن بہار جاں فزا دیکھی اور مر جھا گئے۔ تقرری، تنزلی، برطرفی انتہائی آسان۔ ایک ملاقات میں تقرری، بر طرفی کے لیے ملاقات بھی ضروری نہ سمجھی گئی، وزیر مشیر ایک نوٹیفکیشن کی مار، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تو آنے والے خوش نصیبوں اور جانے والے بد نصیبوں کے ڈھیر لگ گئے۔ ہجوم عاشقاں ہے جو گوشہ گمنامی میں پڑا ہے۔ گریڈ 18، 19 سے 22,21,20 تک کوئی محفوظ نہیں۔ سیالکوٹ کی آپا فردوس پچھلے کئی دنوں سے بیروزگاری کا دکھ جھیل رہی ہیں۔ کمال ہے کوئی پوچھتا نہیں۔ تین سال پورے کرنے کے لئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑے کتنے حصار قائم کیے گئے تب کہیں جا کر چین نصیب ہوا۔ پھر بھی دھڑکا۔ ”اب بھی گر چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔“ اس دوران تین سالوں میں کتنے اپوزیشن لیڈر بے گھر بے در کئے، سب پر آمدن سے زائد اثاثون اور کرپشن کا الزام، یہ الگ بحث کہ 32 ارب کی کرپشن میں 32 روپے ثابت نہ ہوسکے۔ مگر سب طلبی، گرفتاری اور جیل کے خوف سے نڈھال، ضمانتوں کے بعد جیسے قوت گویائی سلب ہوگئی خاموشی ہی میں عافیت، کیسے کیسے نابغہ روزگار لیڈر اور شعلہ بیان مقرر نیب کے ہاتھوں رل گئے۔ حضرت علامہ نے ایک صدی قبل شکوہ کیا تھا کہ ”یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں‘ یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری“ اس خاموشی میں تبدیلی سرکار کے جشن کا دھوم دھڑکا، عروج یا زوال کی علامت، یادش بخیر جنرل ایوب خان نے 10 سال کاجشن منایا تھا۔ گھی کے چراغ جلائے گئے گھی ختم ہوا دیے بجھ گئے۔ پوری فضا  دھواں دھواں، بیتے ہوئے تین سال ترقی خوشحالی اور معاشی استحکام کے اہداف ابھی تک سہانے خواب، خواہشیں، ویژن مگر امکانی ترقی پرپیشگی جشن، خوشیاں، ترانے، نغمے، تالیاں، جوش و خروش اور اس پر حکمرانوں کی جذباتی تقریریں جیسے کوئی مرد مجاہد دشمنوں کے خلاف جہاد میں کامیاب لوٹا ہو، تین سالوں میں تین کامیابیوں کا چرچا کرپشن کا خاتمہ، خارجی محاذ پر ملک کو صحیح ٹریک پر لانے کی جدوجہد اور الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کی انقلابی تبدیلی کی کوششیں، دوسری جانب تین بڑی ناکامیوں کا شور و غوغا، مہنگائی، کرونا، افراتفری، ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کے دعوے مگر بے تحاشا قرضوں سے معیشت ڈوبنے کا خطرہ، گردشی قرضے تین سالوں میں چار پانچ گنا بڑھ گئے۔ بجٹ خسارہ 
3.403 کھرب تک پہنچ گیا۔ ڈالر 166 روپے کا ہوگیا۔ پاکستانی روپیہ اتنا گرا کہ زمین چاٹنے لگا اسی تناسب سے غیر ملکی اور ملکی قرضوں میں اربوں کھربوں کا اضافہ، ادائیگی کے لیے انڈسٹریز اور دیگر ذرائع آمدنی ضروری مگر یہاں تو جنگل آباد کرنے پر توجہ مرکوز، اللہ کی شان کوئی شہر بسائے کوئی جنگل، بیتے ہوئے تین سال کا ذکر خیر، ”اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے“۔ مہنگائی کرونا اور افراتفری عروج پر، تین سال یعنی کم و بیش گیارہ سو دنوں کی کہانی، دلدوز داستانیں گھر گھر پہنچ گئیں جس سے پوچھا وہی رویا۔ ”زندگی ہے یا کوئی طوفاں ہے ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے“ طوفان بلا خیز کبھی مچان سے نیچے اتر کے بات کرو تو دھوپ چھاؤں کا پتا چلے۔ سٹیزن پورٹل محدود 23 کروڑ عوام کے دکھ لا محدود، سیاست گئی بھاڑ میں سچ پوچھیے تو ایمان سے واقعی سونامی، جو تمام اقدار، روایات، شرم و حیا، زندگی کی آسائشوں کو بہا لے گیا۔ متوسط طبقہ آخری سانسیں لے رہا ہے وینٹی لیٹر کم پڑ گئے۔ محدود تنخواہوں سے مہینہ گزارنا مشکل، گزارا ہو بھی کیسے ہر مہینے اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ، ادارہ شماریات کے مطابق ایک ہفتے میں آٹا، چینی، گھی سمیت 22 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ، ادویات کی قیمتیں رابطہ کمیٹی نے بڑھا دیں، بجلی کے نرخ ہر ماہ نیپرا بڑھا دیتا ہے۔ پیٹرول میں ہر پندرہ دن بعد اضافہ،گھروں کا بجٹ ہر مہینے فیل، قرض لیں؟ کوئی نہیں دیتا، مہینے کے 30 دن بندہ اپنی بیوی اور سات بچوں کے ساتھ لنگر خانوں میں صبح کا ناشتہ دوپہر اور رات کا کھانا کیسے اور کب تک کھائے۔ سفید پوشی اجازت نہیں دیتی، بچوں کا دودھ؟ پیسے کہاں سے لائیں، مہنگے پھل فروٹ قسم لے لیجیے سیب اور کیلا کھائے مہینوں گزر گئے۔ دالیں، سبزیاں مہنگی، جیب خالی، دکانوں میں سجی خدائے برتر کی نعمتوں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ ہی سکتے ہیں۔ خریدنے کا تصور محال”یہ منہ اور مسور کی دال“۔ پھل فروٹ پر یاد آیا جنت میں خواہش کے مطابق ہر پھل خود بخود مل جائے گا لیکن اس کے لیے مرنا شرط، لوگ اس کوشش میں خود کشیاں کرنے لگے ہیں۔ دریائے سندھ اور نہروں میں چھلانگیں لگا کر مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غریب زندہ مانند مردہ روز جیتے ہیں روز مرتے ہیں، غالب نے کہا تھا ”کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے، مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا“ بچے بھوک سے بلبلائیں تو اپنا دم گھٹتا محسوس ہوتا ہے گروسری خریدنے نکلیں تو دل بیٹھنے لگتا ہے بجلی گیس کے بلوں سے دل کی دھڑکنیں ناہموار ہوتی محسوس ہوتی ہیں۔ ہر مہینے مالک مکان کرایہ لینے کے لیے دروازے پر دستک دے تو خود کشی کرنے کو دل چاہتا ہے۔ بخدا اس کتھا میں سیاست کو دخل نہیں، سیاست تو اعلیٰ لوگوں کا مشغلہ، ماجا سا جا غریب کیا سیاست کرے گا جس کے گھر دانے اس کے پتر بھی سیانے، معراج دین کا تو ایک ہی سوال ہے کہ کیا کرنٹ خسارہ کم ہونے زر مبادلہ کے ذخائر بڑھنے اور اسٹاک مارکیٹ میں بڑھوتی کے رجحان سے غریب کی مشکلات کم ہوں گی۔ ایک لاہوریے سے ٹی وی اینکر نے پوچھا ”کی ہوریا اے“ بولا ”اسمارٹ جنگل بس رہے ہیں، ما شاء اللہ اسمارٹ وزیر اعظم، اسمارٹ جنگل، اسمارٹ لاک ڈاؤن، شہر بسانے والوں کے پیش نظر انسانی حیات، دوسرے کا ویژن جنگلی حیات،سوچ اور انداز فکر کا فرق، دفتر جانے کے لیے آن لائن ٹیکسی میں بیٹھے تو ڈرائیور باتونی نکلا، ظالم تین سال کی کہانی لے بیٹھا، اللہ کی قسم بچے ہر مہینے پانچ سے دس دن فاقہ کرتے ہیں۔ بیمار ہوجائیں تو دوا کہاں سے لائیں۔ ایک بابے سے پوچھا تو بولا پتر پایا کچھ نہیں کھویا ہی کھویا ہے۔ اوئے کاکا معیشت مستحکم ہوتی تو اتنی مہنگائی کیوں ہوتی۔ ملک ترقی کر رہا ہے؟ پتا نہیں ہمارے تو پاؤں ننگے جیب خالی ہے۔ غریبوں کی ہائے وائے کے باوجود تین سالہ کامیابیوں پر جشن؟ جشن پر جشن مناؤ تمہیں ڈر کس کا ہے؟

تبصرے بند ہیں.