کابل سے ٹھنڈی ہوا

161

کیا امریکہ کو افعانستان میں شکست ہو گئی اور کیا افغان طالبان نے دنیا کی اس وقت کی سپر پاور امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا؟کیا برطانیہ، سوویت یونین کے بعد اب امریکہ کے لیے افغانستان قبرستان بن گیا ہے اور کیا افغانستان کی سرزمین کو کوئی دوسرا ملک ابھی تک فتح نہیں کر سکا؟یہ وہ سوالات ہیں جو محفلو ں میں کیے جارہے ہیں ۔ اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ امریکہ افغانستان سے انخلا کرنے پر مجبور ہو گیا ہے وہ معاشی مسائل تھے یا امریکی فوج افغانستان میں لڑتے لڑتے ہار گئی ہے اس پر ایک عرصہ تک بحث جاری رہے گی ۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان میں طالبان کو فتح نصیب ہوئی ہے او ر کیا وہ اپنے نظریے کو اسی طرح افغانستان میں بروئے کار لائیں گے جس طرح ماضی میں انہو ں نے حکومت کرتے ہوئے نافذ کیا تھا۔ پچھلے دور حکومت جو ملا عمر کا دور تھا میں عالمی برادری نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ماضی کی حکومت کی اٹھان اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کی نظریات کے تابع تھی۔ شریعت کا جو نظام انہو ںنے افغانستان میںنافذ کیا تھا کسی دوسرے اسلامی ملک نے اس کو نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ طالبان کی حکومت کی پالیسیوں پر ہر طرف سے تنقید کی گئی۔
یہ کہا جارہا ہے کہ اس بار کے طالبان مختلف ہیں وہ دنیاکو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں اور اپنے آپ کو اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کے نظریات سے الگ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ القاعدہ کے ساتھ کام کرنے کے بجائے امریکہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔وہ خواتین ڈاکٹرز سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے کام جاری رکھیں، برقعہ اور داڑھی کے حوالے سے ابھی انہو ںنے کوئی پالیسی جاری نہیںکی اور افغانستان پر تن تنہا قبضہ کرنے کے بجائے وہ دوسرے دھڑوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے لیے تگ د ود کر رہے ہیں۔ لگ یو ں رہا ہے کہ انہو ںنے حالات سے بہت کچھ سیکھا ہے یا انہوں نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنے ذہن کو نئے سرے سے ترتیب دیا ہے۔طالبان پوری دنیا کو یہ یقین دہانی بھی کر ار ہے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے لیے استعمال نہیں کی
جاسکے گی۔ ان کی اس فکر کو دیکھ کر کیا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ طالبان سے زیادہ امریکی سوچ کو فتح نصیب ہوئی ہے۔ امریکہ جو کچھ افغانستان سے چاہتا تھا طالبان وہ سب کرنے کے لیے تیار ہیں تو ایسے میں جیت کس کی ہوئی امریکہ کی یا طالبان کی۔ امریکہ کی جو خواہش اور منشا تھی وہ طالبان قبول کرنے کے لیے تیار ہیں تو افغانستان میں رہ کر امریکی اپنی معیشت کو کیوں تباہ کریں۔ میرے حساب سے تو انہو ں نے بہت دانش مندانہ فیصلہ کیا ہے اور جو نتیجہ وہ میدان جنگ میں حاصل نہیں کر سکے وہ انہوں نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا کر نکال لیا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دنیا کے مسائل جنگوں سے نہیں بات چیت سے حل ہوتے ہیں اور دنیا کے جھگڑوں کو حل کرنے کے لیے تمام اقوام کو مذاکرات کی میز پر لانا ضروری ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قابض گروہ اس وقت تک مذاکرا ت کی میز پر آنے کے لیے تیار نہیں ہوتا جب تک اسے اتنے کچوکے نہ لگا دیئے جائیں کہ جگہ جگہ سے خون رسنا شروع ہو جائے۔ یہ قومو ں کی نفسیات ہے۔امریکہ کے لیے یہ اہم نہیں ہے کہ کابل پر کس کی حکومت ہے وہ اشرف غنی ہوں یا ملا برادر جو بھی اس کی سو چ اور فکر کے ساتھ ہے وہ اس کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
گزشتہ نصف صدی سے افغانستان کی سرزمین کئی بار تاراج ہوئی ۔ کابل کے باسی کئی بار اجڑے اورکئی بار انہوں نے اپنے شہر کو دوبارہ سے بنایا لیکن اس بار خوش آئند بات یہ ہے کہ طالبان اور افغان فوج نے اپنے انفراسٹرکچر کو بچا لیا ہے او ر لوگ اجڑنے سے بچ گئے ہیں۔ مختلف افغان دھڑوں میں مذاکرات جاری ہیں اور حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ کابل کے اندر رہ کر لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ انہیں اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ انہیں کچھ نہیں کہا جائے ورنہ وہ پہلے ہی حملے کے بعد وہاں سے فرار ہوچکے ہوتے۔ یہ سارا عمل کسی جگہ سے کنٹرول ہو رہا ہے۔ طالبان خود بھی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ان سب ممالک کی ایک ہی خواہش اور منشا ہے کہ افغانستان کی سرزمین ان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ امریکی یورپی اور خلیجی ممالک کے ساتھ علاقائی ممالک سب کی خواہش ایک ہے کہ اس بار افغانستان کسی کے لیے استعمال نہ ہو اگر طالبان یہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو باہر کی دنیا کو اس سے غر ض نہیں ہے کہ افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں یا نہیں ۔ اس پر اس وقت شور و غوغا ہوتا ہے جب کسی اور ملک کے اندر مداخلت ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار اس وقت بالکل خاموش تھے جب القاعدہ اور طالبان کے شبہ میں بے شمار لوگوں کو اغوا کر کے انہیں گوانتا نامو بے میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ گرفتار ہونے والے لوگو ں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا گیا۔ اس وقت کسی کو انسانی حقو ق کی فکر نہیں ہوئی ۔ ہمارے ہمسائے میں بھارت کشمیریوں اور مسلمان اقلیت پر جس طرح ظلم کر رہا ہے اس پر دنیا نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں ۔ بے شمار ایسے ممالک کی مثال دی جا سکتی ہے۔ عالمی ضمیر اس وقت تک سویا رہتا ہے جب تک آگ ان کے گھر تک نہیں پہنچ جاتی۔
طاقتور اقوام دوسری اقوام کے وسائل پر ہمیشہ سے قابض ہوتی رہی ہیں۔ افغانستان سے امریکہ کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا سوائے بدنامی کے۔ ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ افغانوں نے امریکہ کو اس دوران ایک پل بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیا اور جب طالبان نے اس کے مطالبات کو تسلیم کر لیا تو اس نے افغانستان سے نکلنے میں دیر نہیں لگائی۔ کابل ائیر پورٹ کیا خوبصورت کمبی نیشن ہے ۔ ائیرپورٹ کے اندر امریکی فوج ہیں جو سارے نظام کو کنٹرول کر رہی ہیں اور باہر طالبان ان کی حفاظت کر رہے ہیں۔اس سارے کھیل میں پاکستان کے لیے اطمینان کی بات صرف یہ ہے کہ کابل سے وہ حکومت رخصت ہو گئی ہے جو ان کے خلاف ہر قسم کے حربے استعمال کر رہی ہے۔ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ بھارتی پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین کو استعمال کر رہے تھے۔ ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے گروپ وہاں منظم ہو رہے ہیں۔ اب امید یہی کرنا چاہیے کہ ایسا نہیںہو گا۔ ٹی ٹی پی کے حوالے سے طالبان کے ایک کمشن بنا دیا ہے جو تمام امور کا جائزہ لے گا۔ پاکستان نے مذاکرات کے عمل میں بھرپور حصہ لیا ہے اس لیے امید کرنی چاہیے کہ افعانستان سے خیر کی خبریں ہی آئیں گی اور کابل سے ٹھنڈی ہوا اسلام آباد پہنچے گی۔

تبصرے بند ہیں.