’’مست رکھو ذکر و فکر صبحگاہی میں اسے‘‘

1,147

ناقص حکمرانی کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں میلے ٹھیلے، جشن،تقریبات اور برسیوں کا اہتمام بڑی شان و شوکت سے کیا جاتا ہے اور عوام الناس کی ان میں شرکت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ اس میں یہ حکمت پوشیدہ ہوتی ہے کہ عوام کو اصل معاملات سے دور رکھا جائے اور ان کی توجہ سطحی اور ضمنی امور پر مرکوز رکھی جائے جس کا بہترین ذریعہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی تفریح طبع کا انتظام ہوتا رہے۔ 1947ء سے 1977ء تک کے 30سالہ دور کا جائزہ لیں تو 14 اگست کا دن ایک قومی دن کے طور پر چھٹی کا دن ہوتا تھا اور اس عظیم واقعہ کو یاد کیا جاتا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں قو م کو بتایا گیا کہ زندہ قومیں آزادی کا جشن مناتی ہیں اور آپ جب تک جشن اور دھوم دھام نہیں کریں گے تو پاکستان ترقی نہیں کر پائے گا یہاں سے جشن آزادی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ گلی کوچوں میں جھنڈیاں اور قومی پرچموں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ اس وقت حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اس کو یوم عید کی طرح منایا جاتا ہے ۔ نئے کپڑے سلوائے جاتے ہیں۔ گھروں، گاڑیوں، درختوں پر جھنڈے لہرائے جاتے ہیں۔ اس میں قومی پرچم کے تقدس کا قطعی خیال نہیں رکھا جاتا جو گلی گلی پاؤں میں رُل رہا ہوتا ہے۔ قومی پرچم کو بطور لباس استعمال کرنا میری سمجھ کے مطابق پرچم کی توہین ہے۔ اس پر امریکی سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ جھنڈے کو بطور لباس نہیں استعمال کیا جا سکتا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی 14 اگست کو ہر بچے بڑے کے ذہن میں آزادی کا جو تصور ہے اس کی ’’وہیل بیلنسنگ‘‘ بڑی ضروری ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ آج یوم آزادی کے دن ہمارے اوپر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ مہنگائی کی چکی میں کچلے ہوئے عوام اپنی محرومیوں کے ازالہ کے لیے ٹریفک قوانین کی دھجیاں بکھیر کر آزادی محسو س کرتے ہیں۔ جس پر حکمرانوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے 1936ء میں ارمغان حجاز میں اپنی مشہور نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ میں سیاست کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ اس نظم کا آخری شعر اگر ہم شروع میں لکھ دیتے تو اتنی بڑی تمہید کی ضرورت نہ پڑتی حکمران چاہتے ہیں کہ عوام فروعی اور ضمنی معاملات میں الجھے رہیں اور ان کے حق حکمرانی پر سوال نہ کریں۔ شعر ملاحظہ کریں جس میں ابلیس اپنے ایجنٹوں سے مخاطب ہے
مست رکھو ذکر و فکر صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے
اس پس منظر میں مینار پاکستان پر 14 اگست کو ٹک ٹاکر کے ساتھ جوواقعہ ہوا ہے اور جس طریقے سے اس شرمناک واقعہ کو بنیاد بنا کر اس سے ذاتی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، اس کے بہت سے پہلو اب عوام کے سامنے آ چکے ہیں۔ ٹک ٹاک ڈیجیٹل دور کا بازار حسن ہے جس میں مذہب، تہذیب، اخلاق، سماجیات اور شرم و حیا کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک شہرت کی بھوکی خاتون نے مینار پاکستان جیسے قومی شعار کی بے حرمتی کی ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں الٹا اسے victim کارڈ دیا گیا کہ وہ دنیا بھر میں مظلومیت کا پرچار کرے اور دنیا کو بتائے کہ پاکستان میں خواتین کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ اس واقعہ کے محرکات بے نقاب ہو چکے ہیں۔ اس خاتون کے پیچھے ملوث کردار بھی ظاہر ہو چکے ہیں۔ یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی موجود ہے جو قومی مفاد کے منافی مواد کی ٹرانسمشن پر پابندی لگاتی ہے لیکن ان کا مرکزی فوکس سیاسی ، حکومتی اور قومی سطح کی ٹرانسمشن تک ہے۔ یہ بظاہر ایک معصوم سا عوامی واقعہ تھا جو سنسر کے ہر مرحلے سے فلٹر ہوتا گیا لیکن کسی کو پتہ نہیں چلا کہ اس کے پس پردہ مقاصد قومی مفاد کو داؤ پر لگا کر ذاتی اور کاروباری مفادات حاصل کرنا اور جان کے خطرے کا ڈرامہ کر کے امریکی ویزے حاصل کرنا ہے۔
ہماری معاشرتی اخلاقی با ختگی اب اس مغربی حد کو چھو چکی ہے کہ جس میں ایک گھٹیا درجے کی ٹک ٹاک شوٹر سر عام ببانگ دہل یہ اعلان فرما رہی ہیں کہ میرے ساتھ 7-8 دوست تھے۔ یہ ایک نیا معاشرتی رجحان ہے جس میں ایک پاکستانی مشرقی لڑکی نامحرم مردوں کو بطور یار متعارف کرا رہی ہے۔
اس واقعہ کا قانونی اور عدالتی پہلو یہ ہے کہ مدعیہ عائشہ اکرم اس کا ساتھی ریمبو اور اس کے باقی ساتھیوں نے مینار پاکستان کے گرد بنایا گیا خار دار جنگلہ توڑا اور چبوترے پر پہنچ گئے جو کہ عوام کے لیے ممنوعہ اور بند کیا ہوا تھا۔ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے ایسا کیا گیا تھا۔ ٹک ٹاکر کی ایف آئی آر اپنی جگہ لیکن خود اس پر جنگلہ توڑنے جیسی قانون شکنی پر کیس بنتا ہے۔ جب کوئی سیاسی پارٹی مینار پاکستان کے چبوترے کو استعمال کرنا چاہتی ہو تو اسے حکومت سے اجازت لینا پڑتی ہے بغیر اجازت اکٹھا ہونے پر نقص امن پر گرفتاری ہوتی ہے، پرچہ کاٹا جاتا ہے لیکن اس کیس میں ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔
اس لڑکی کی جلسہ گاہ میں انٹری کا منظر جن لوگوں نے دیکھا ہے وہ ابھی تک کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں کہ کس سخاوت کے ساتھ موصوفہ چاروں طرف اپنے چاہنے والوں کی طرف ہوائی بوسے یا Flying Kiss اچھال رہی تھی جو کہ بے حیائی کی دعوت عام تھی جسے انہوں نے قبول کیا۔
واقعہ کا مقدمہ کئی دن کی تاخیر سے درج ہوا اور تاخیر کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ مدعیہ نے ریمبو کے بارے میں کئی دفعہ بیان بدلا پہلے منگیتر ظاہر کیا پھر کزن کہا پھر دوست کہا پھر کولیگ کہا۔ ایف آئی آر میں ایڈریس اور فون نمبر غلط دیئے گئے۔ ہمارے ایک دوست صحافی کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کو سوشل میڈیا پر جس ID سے سب سے پہلے لانچ کیا گیا وہ انڈیا سے رجسٹرڈ تھا اگر یہ بات درست ہے تو سب سے پہلے اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ ہماری وزارت داخلہ اور نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف اس بارے میں انڈین پراپیگنڈا وار کو پہلے ہی بے نقاب کر چکے ہیں۔ ان عناصر اور ان کے میڈیا سورسز کے ان مشتبہ IDs کے ساتھ تعلق کی تحقیقات ہونی چاہیے اور یہ تحقیقات انہی بنیادوں پر ہونی چاہیے جیسے افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کے ڈرامے کو غلط ثابت کیا جا چکا ہے۔ جن ٹی وی اینکرز نے موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی ریٹنگ کے چکر میں پاکستان کو بدنام کرنے کی مذموم سازش کی ہے ان پر بھی پابندی لگنی چاہیے کہ انہوں نے جھوٹ کو سچ بنا کر یوں پیش کیا کہ پاکستان خواتین کے لیے ایک خطرناک ملک ہے۔
اس واقعہ کے بعد حکومت نے ڈی آئی جی، ایس پی، ڈی ایس پی اور ایس ایچ ا وکو ہٹا دیا ہے۔ اسی طرح مینار پاکستان کے پراجیکٹ ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر بھی ہٹائے جا چکے ہیں۔ یہ ایک اوچھا حکومتی ہتھکنڈا ہوتا ہے کہ جو واقعہ حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث ہو سب سے پہلے پولیس والوں کو معطل کیا جاتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.