2003ء میں اس کالم نگار نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا عنوان تھا امریکہ اسرائیل اور اسلام۔ امریکی افغانستان سے نکل چکے ہیں ۔ اسی کتاب کا ایک باب اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں تاکہ امریکی فوج کی ذہنی کیفیت کو سمجھا جا سکے۔
نارتھ کیلیفورنیا کے فورٹ براگ میں ہونے والے واقعہ کی خبر جس تیزی سے پھیلی اسی تیزی کے ساتھ اس کو دبا دیا گیا۔ امریکی اور مغربی میڈیا جو اس طرح کی کہانیوں کے بارے میں تفصیلی رپورٹیں شائع کرتا ہے اس حوالے سے خاموش رہا اور اس کے تمام پہلوئوں کے پر روشنی نہیں ڈالی گئی۔ اس خبر نے ساری دنیا کو چونکا کر رکھ دیاکہ امریکہ کے اس ملٹری بیس کے چار افراد نے اپنی بیویوں کو قتل کر دیا اور ان میں سے دو نے بعد ازاں خودکشی کر لی۔ اس خبر کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ ان میں تین افراد وہ تھے جو افغانستان میں فوجی ڈیوٹی سر انجام دینے کے بعد واپس اپنے ملٹری بیس پر آئے تھے۔
فورٹ براگ امریکی ملٹری کا اہم ترین اسٹیشن ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران اس مقام پر پیراشوٹ انفنٹری یونٹس قائم کیے گئے۔ 1942ء میں دشمن سے لڑنے کے لیے پہلا ائیر بورن یونٹ یہیں قائم کیا گیا۔ دوسر ی جنگ عظیم میں پانچ ائیر بورن یونٹس نے حصہ لیا تھا اور اس سب کو اسی جگہ تربیت دی گئی۔ آج بھی امریکی ملٹری کی سب سے بڑی ائیربورن یہی ہے۔ اس کور کے اٹھاسی ہزار سپاہیوں کو دنیا کے مختلف مقامات پر تعینات کیا گیا۔ اس کور کی اہم خصوصیت یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ بہت جلد deployہوتی ہے اور اس کا مظاہرہ انہو ںنے ڈیزرٹ اسٹارم اور افغانستان میں ہونے والی جنگوں کے دوران کیا ہے۔ فورٹ براگ اسپیشل فورسز اور اسپیشل آپریشن فورسز کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ افغانستان بھیجے جانے والے سیکڑوں فوجیوں کا تعلق اسی جگہ سے تھا۔امریکی افغانستان میں خود کو فاتح قرار دیتے رہے ہیں مگر فورٹ براگ میں ہونے والا واقعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکی فوجی کس قدر نفسیاتی دبائو کا شکار ہیں۔افغانستان سے امریکہ واپس آنے والے فوجیوں نے جو حرکات کی ہیں اس نے امریکہ کی اعلیٰ قیادت کو ہلاکر رکھ دیا۔اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جو امریکی فوجی افغانستان میں تعینات رہے ان کی ذہنی کیفیت کیا ہو گی۔ سوویت یونین نے بھی افعانستان کے شہروں پر قبضہ کر لیا مگر اصل مسئلہ اس وقت درپیش ہوا جب وہ افغانستان کے پہاڑوں میں پہنچے اور ان کے تابوت جانے لگے تو فوجیوں کی ہمت جواب دے گئی۔مالی نقصانات اس قدر بڑھے کہ سوویت یونین میں یہ مطالبات زور پکڑنے لگے کہ اس جنگ کو ختم کیا جائے امریکیوں کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے ۔ امریکہ کی تمام تر فوجی قوت کے باوجود امریکیوں کو افغانستان میں سکون نہیں مل رہا اور پریشان کن خبریں رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔
مئی 2002ء میں 82ویں ائیر بورن کے فوجیوں کو افغانستان جانے کا حکم ملا تو اس کے کمانڈنگ آفیسر جنرل ڈین کے میک نیل نے اپنے فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے آپ کو ہر قسم کی تربیت فراہم کی گئی ہے آپ کو تمام ضروری آلات فراہم کر دیے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود افغانستان کے ایک مشکل محاذ ہے اور مشکل صورتحال کا ہم سب کو سامنا ہے اور آ پ کو اس کے لیے تیار رہنا ہو گا۔جب امریکی فوجی وہاں سے روانہ ہوتے ہیں تو ان کے ذہن پر پہلے سے خوف طاری ہوتا ہے ۔ امریکہ سے افغانستان جانے والے فوجی یہ جانتے ہیں کہ وہ کس مشکل ترین مہم پر جا رہے ہیں اور اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ فورٹ براگ کی کہانی اچانک منظر عام پر آئی تھی اور اسی وجہ سے اسپیشل آپریشنز یونٹ کے افسر جیروی ہابیرک کو یہ کہنا پرا کہ وہ فیملی کونسلنگ کے حوالے سے ہر چیز کا دوبارہ جائزہ لیں گے کیونکہ چار ہفتوں میں فوجیوں نے افغانستان سے آنے کے بعد اپنی بیویوں کو قتل کر دیا ان میں تین اسپیشل فورسز کے جوان تھے جبکہ چوتھا ائیربورن یونٹ سے تعلق رکھتا تھا تاہم ابھی اسے افغانستان میں تعینات نہیں کیا گیا تھا۔اسپیشل آپریشن میں حصہ لینے والے فوجیوں کی فیلڈ میں جانے سے پہلے باقاعدہ کونسلنگ کی جاتی ہے اور انہیں بتایا جاتا ہے کہ انہیں کس مقصد کے لیے وہاں بھیجا جار ہا ہے۔وہ جب اپنی ڈیوٹی سر انجام دینے کے بعد واپس آتے ہیں تو ایک بار سے پھر ان کی کونسلنگ کی جاتی ہے ۔ ان واقعات کی ابتدا اس وقت ہوا جب فرسٹ کلاس سارجنٹ ریگو بویٹو نیولیس نے بیڈ روم میں اپنی بیوی کو گولی مار دی اور اس کے بعد خودکشی کرلی۔ سارجنٹ دو دن پہلے ہی افغانستان سے واپس آیا تھا اور ذاتی وجوہات کی بنا پر چھٹی لے کر گھر آیا تھا۔ ایک اور خاتون جینفر رائٹ کو اس کے شوہر نے گولی مار دی وہ ایک مہینہ پہلے افغانستان سے آیا تھااور واپس آنے کے بعد اپنی فیملی کے بجائے بیرک میں ہی رہ رہا تھا۔ قتل ہونے والی ایک لڑکی کی والدہ نے بتایا کہ میرا یقین ہے کہ ان لوگوں کو اس بات کی تربیت دی گئی تھی کہ اگر تم خود کو کنٹرول نہ کر سکو تو سامنے والے کو گولی مار دو اور انہوں نے یہی کیا ہے۔ آرمی اسپیشل آپریشنز کمانڈ کے ترجمان میجر گیری کولب نے اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ ان حادثات کا شکار ہونے والے افغانستان سے لوٹ کر آئے تھے۔ایک سارجنٹ کی ساس نے بتایا کہ جب سے وہ واپس آیا تھا میری بیٹی کو تنگ کر رہاتھا اور وہ اس سے خوفزدہ تھی۔ میں نے اس سے التجا کی تھی کہ وہ میرے پاس آ جائے مگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تھی کیونکہ وہ اس سے محبت کرتی تھی۔ فورٹ براگ میں ہونے والے واقعات کے امریکی فوجیوں کی بیویاں خوف زدہ ہو گئی ہیںاور انہو ںنے کونسلنگ گروپس میں بہت زیادہ شرکت شروع کر دی ہے۔اس کے علاوہ جن خواتین کے اپنے مردوں سے مسائل موجود ہیں انہوں نے اس بارے میں دوسروں کو بتادیا ہے تاکہ اگر اس طرح کا کوئی واقعہ ہو تو دوسروں کو اس کا علم ہو۔افغانستان میں کام کرنے والے فوجیوں پر اس لیے دبائو زیادہ تھا یہ لوگ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں کام کرتے تھے اور انہیں ہر وقت یہ خوف رہتا کہ کسی نامعلوم مقام سے آنے والے گولی اس کی زندگی کا خاتمہ کر دے گی۔ ملٹری کے ماہرین نفسیات نے اس بات کو قبول کیا ہے کہ خاندان سے دوری کی وجہ سے اس طرح کے معاملات نہیں ہو رہے بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور ہو سکتی ہیں۔اسپیشل فورسز میں کام کرنے والے فوجیوں کو انتہائی سخت امتحانات سے گزارا جاتا ہے ان کے نفسیاتی ٹیسٹ ہوتے ہیںاور ان کے بعد انہیں افغانستان سے بھیجا جاتا مگر اس کے باوجود وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں ۔ ایک سٹڈی نے اس بات کو واضح کیا کہ سویلین کے مقابلے میں فوجی خاندانوں میں تشدد کی شرح بہت زیادہ ہے( امریکہ ، اسرائیل اور اسلام سے اقتباس)
Prev Post
تبصرے بند ہیں.