افغان صورت حال، آگے کیا ہو گا؟

161

قا رئین کرام، اگر آ پ کو میرا پچھلا کا لم یا دہو تو اب کہنا یہ ہے کہ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی اولین پریس کانفرنس میں طالبان کی حکومت کا جو نقطۂ نظر بیان کیا ہے اس سے صورت حال قابل ذکر حد تک واضح ہوئی ہے۔ اگرچہ کابل پہنچنے سے لے کر طالبان کی پالیسی میں امن اور درگزر کی حکمت نمایاںرہی ہے؛ تاہم طالبان ترجمان کی اس پریس کانفرنس کو طالبان کے پالیسی بیان کی حیثیت میں دیکھا جاسکتا ہے اور اس میں تقریباً ان سبھی سوالات کا احاطہ کیا گیاہے جو مشرق و مغرب کی حکومتیں، عوام اور اہل الرائے طبقات طالبان کے حوالے سے اٹھارہے ہیں۔ مثلاً یہ کہ طالبان کا دیگر سیاسی گروہوں کے معاملے میں رویہ کیسا ہوگا؟ سابق حکومت کے ملازمین اور غیرملکی افواج کی تنخواہ پر کام کرنے والوں کے لیے ان کی پالیسی کیا ہے؟ ذرائع ابلاغ کو آزادی کے ساتھ کام کرنے دیا جائے گا؟ خواتین کو تعلیم اور ملازمت کی اجازت ہوگی؟ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اور افغان سرزمین کو علاقائی اور عالمی دہشت گرد گروہوں سے محفوظ بنانے کی ضمانت اور افغانستان میں مقیم غیرملکیوں اور غیرمسلموں کے حوالے سے طالبان کی پالیسی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ذبیح اللہ مجاہد نے ان سبھی سوالوں کا جواب دیا ہے۔ طالبان کی ان پالیسیوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اپنی فکر اور سیاست میں انہوں نے کافی ترقی کی ہے، حالات سے سیکھا ہے اور وقت کے تقاضوں کی پرکھ کی ہے۔ طالبان نے یقینا یہ بھی سیکھا ہوگا کہ امورِ حکمرانی میں طاقت سے بڑھ کر حکمت کارفرما ہوتی ہے۔ یہی امن اور استحکام کی بنیاد ہے اور اسی سے نظام تقویت حاصل کرتا ہے۔ جو نظام ریاست کے عوام کو امن، تحفظ اور نمو کی یقین دہانی نہ کراسکے، عوام میں جڑ نہیں پکڑ سکتا اور جس نظام کی جڑ عوام میں نہ ہو، وہ بے بنیاد ہے خواہ اس پر ہزاروں ارب ڈالر ہی خرچ کردیئے جائیں۔ اگر دولت سے نظام حکومت کامیاب قرار پاسکتا تو امریکی چھتر چھایہ میں لگنے والا بوٹا افغان سماج میں ضرور پھل پھول جاتا۔ طالبان کو امریکی نظام کی جگہ اس نظام کا تجربہ کرنے کا موقع ملا ہے جسے وہ اپنے فکر کے مطابق درست اور اپنے سماج اور ثقافت سے ہم آہنگ تصور کرتے ہیں۔ طالبان کو جو موقع ملا ہے وہ کسی فکری تحریک کے مقدر کا اوج ہوتا ہے اور اس موقع کی قدر و قیمت یہ ہے کہ اس انمول موقع کا کوئی لمحہ بھی ضائع نہ کیا جائے۔ ہر قدم کمال احتیاط کے ساتھ اُٹھایا جائے اور اپنے ملک کے عوام اور سیاسی قیادت کے ساتھ ربط، تعلق اور اعتماد قائم کیا جائے۔ افغان طالبان کو ایک تاریخی دراڑ کو پُر کرنا ہے۔ افغانستان کے اندر اور باہر کی دنیا کے لیے انہیں اپنی سیاست اور امورِ جہانبانی کی قابلیت کو ثابت کرنا ہے۔ وہ چاہیں تو افغانستان کی تاریخ میں وسیع البنیاد اور پائیدار حکومت کا خواب شرمندہ تعمیر ہوسکتا ہے۔ مگر افغانستان کو تاریخی بحران سے نکالنے کی ذمہ داری طالبان کے ساتھ دیگر افغان سیاسی قیادت پر بھی برابر عائد ہوتی ہے۔طالبان کی جانب سے جو زیتون کی شاخ بڑھائی گئی ہے وہ یقینا اہم ہے مگر ایک ہاتھ سے تالی نہیں بجتی۔ افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت کا امکان اسی صورت ممکن ہے جب دیگر افغان سیاسی، ثقافتی، مذہبی دھڑے بھی اس کا ادراک کریں۔ سبھی کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ امن اور استحکام کی ذمہ داری سبھی کی مشترکہ کوششوں سے ممکن ہے۔ ہتھیار بند ہوکر اور تشدد کو بروئے کار لاتے ہوئے افغانستان کے لیے ممکن نہیں کہ داخلی بحران سے نکل سکے۔ اس صورت میں افغانستان خارجی مداخلت سے بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ افغانوں کو اب اس فکری انقلاب کی ضرورت ہے جو انہیں مستحکم اور پُرامن سماج کے طور پر ترقی کی طرف لے جائے۔ا فغان شہری نوجوان نسل میں یہ اُمنگ پائی جاتی ہے۔ دو عشروں کے غیرملکی مداخلت کا نتیجہ بدامنی اور عدم استحکام تھا مگر اس دوران افغانستان کی نئی نسل کو تعلیمی مواقع، روزگار کے وسائل کی طلب، شہری سہولیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سماجی رابطے کے وسائل اور دنیا کے رجحانات سے کافی واقفیت حاصل ہوئی ہے۔ پاکستان کی طرح افغانستان بھی نوجوان اکثریتی آبادی والا ملک ہے۔ یو این فنڈ فار پاپولیشن کے مطابق 63 فیصد افغان آبادی 25 سال سے کم اور 46 فیصد پندرہ سال سے کم عمر پر مشتمل ہے۔ آبادی کا یہ حصہ افغانستان کو اس طرح نہیں دیکھتا جس طرح 65 برس اور اس سے اوپر کے لوگ دیکھتے ہیں، جو افغان آبادی کا صرف اڑھائی فیصد ہیں۔ نوجوان افغانوں کے لیے امن، ہم آہنگی، تحفظ، تعلیم، روزگا ر اور ترقی کے امکانات کا دارومدار افغانوں کی اسی بزرگ نسل پر ہے جو ان دنوں اس ملک کے مستقبل کے فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ یہ دنیا کا بھی فرض ہے کہ اس نیک کام میں افغانوں کی مدد کی جائے۔ افغان دھڑوں کو آپس میں رابطے اور ہم آہنگی کے لیے مدد کرنا سبھی کی ذمہ داری ہے۔ صرف یہ اقدام افغانستان کو جوڑ سکتا ہے اور اس جڑت پر علاقائی عالمی امن اور اترقی کا کافی انحصار ہے۔ امریکی صدر نے افغانستان میں اس بڑی تبدیلی کے بعد اپنے پہلے خطاب میں یہ کہا تھا کہ وہ افغانستان میں قومی تعمیر کے لیے نہیں آئے تھے۔ یہ اگرچہ ایک کڑوا اور کٹھور سچ ہے مگر یہی سچ ہے کہ امریکہ نے اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر اس لیے حملہ نہیں کیا تھا کہ وہاں جمہوری اقتدار پر مبنی معاشرہ قائم کیا جائے؛ تاہم بیس برس بعد جب وقت نے افغانوں کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ اپنے حق میں کوئی بہتر فیصلہ کرسکیں تو کسی کو اس راہ میں روڑے اٹکانے کا حق نہیں۔ چینی وزارتِ خارجہ کا یہ کہنا برمحل ہے کہ امریکا کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر مداخلت کرنا چھوڑ دینا چاہیے۔اور جہا ں تک وطنِ عز یز پا کستان کا تعلق ہے تو ہما رے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنا ہر قدم پھو نک پھو نک کر رکھیں۔

تبصرے بند ہیں.