طالبان کی فتح کابل میں کئی معرکوں کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ وجہ یہ بھی ہے کہ طالبان کی عسکری تربیت مدرسہئ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی ہے۔ فتح مکہ میں کریم نبیؐ کا اسوہ مشعل راہ بنا۔ مشرکین مکہ کے ہاتھوں ستائے گئے عظیم نبیؐ فتح ونصرت کا لشکر لیے ابراہیمؑ واسماعیلؑ کی سرزمین پر سربلند وسرخرو ہوکر داخل ہو رہے ہیں۔ مشن کی تکمیل کے اس مرحلے میں سیاہ عمامہ پہنے آپؐ کا مبارک سر فرطِ تواضع سے اللہ کے حضور یوں جھکا ہوا تھا کہ داڑھی مبارک کجاوے کی لکڑی کو چھو رہی تھی۔ سورۃ فتح کی تلاوت فرما رہے تھے۔ ایسا فاتح جس نے عدل وانصاف، تواضع وانکسار، عفو ودرگزر کو شعار بنایا۔ خون کے پیاسے دشمنوں کے لیے پیغام تھا۔ ’آج تم پر کوئی سرزنش نہیں۔ جاؤ تم سب آزاد ہو۔‘ آپ نے طاقت کو عفو ودرگزر میں ڈھال کر عام معافی کا اعلان کرفرمایا۔ ’جو ابوسفیان کے گھر میں گھس جائے، اسے امان ہے جو اپنا دروازہ اندر سے بند کرلے اسے امان ہے اور جو مسجد حرام میں داخل ہوجائے اسے امان ہے۔‘ خانہ کعبہ کے بت آپؐ کمان کی ٹھوکر سے گراتے جا رہے تھے یہ فرماتے ہوئے: حق آگیا اور باطل چلا گیا۔ باطل جانے والی چیز ہے۔‘ (اسلام آباد میں ستم کی انتہا یہ ہے کہ بانیان پاکستان، محمد علی جناح کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے اور اقبال کو نظریہئ پاکستان، کلمہ توحید کی بنیاد پر پیش کرنے کی سزا دی۔ بت شکن انبیاء کی آل ہوکر بھی دونوں کے مجسمے (بت) ملک کے مرکزی مقام پر چڑھا کھڑے کیے۔ خانہ کعبہ میں تصاویر جو مشرکین نے بنا رکھی تھیں، آپؐ کے حکم سے مٹا دی گئیں۔ طالبان نے خواتین کی حیا باختہ تصاویر مٹا ڈالیں سنت کی پیروی میں۔
درج بالا منظر آج لمحہ بہ لمحہ طالبان کی فتوحات میں دیکھیے۔ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دینے کا کفر کا زعمِ باطل ہوا ہوگیا۔ اللہ اسے مکمل کرکے رہے گا خواہ یہ کافروں کو کتنا ناگوار کیوں نہ ہو! یہی مناظراپنے وقت کی سپر پاورز ایران وروم میں دیکھے گئے۔ شمالی افریقہ، اسپین میں شرق تا غرب۔ تھمتانہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا۔ کفر اتنا ہی دم بخود، ہزیمت خوردہ، سراسیمہ ان تمام خطوں میں بھی ہوا تھا۔
پوری تاریخ کے مناظر ہمیں اس قافلہئ سخت جاں نے دکھا دیے۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عین مطابق افغانستان میں ہر جگہ فتح کے ساتھ امن، تحفظ، عفو ودرگزر کی یقین دہانیاں۔ امارت کی جانب سے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا: ہم ملک اور عوام کے خادم ہیں۔ کابل کے لوگوں کو (جو طالبان دشمنی کا مرکز تھا) فکر نہیں ہونی چاہیے۔ ان کا جان ومال محفوظ ہے۔ یہاں ٹھہریں۔ نہ بھاگیں۔ ملک کی تعمیر نو میں مدد دیں۔ ہم کسی سے انتقام نہیں لیں گے۔‘ اسلامی امارت کی جانب سے فتح کابل سے عین پہلے جو اعلامیہ جاری ہوا وہ صبر، تحمل، بردباری اور دانائی کا شاہکار ہے۔مومنانہ فراست پوری حکمت عملی میں عیاں ہے۔ 20 سال ہر قسم کی جدید آلودگی (کالی اسکرینیں، برے مناظر، فکر ونظر میں ژولیدگی بھرنے والے اشرار اور افکار!) سے محفوظ قرآن وسنت سے وابستگی، مدرسہئ جہاد عین غزوات وسرایہ سے براہ راست جوڑنے والا! عقل عیار نہیں عشق بلاخیز کے حامل، ابراہیمؑ کے بیٹے۔ بے خطر آتش نمرود میں کود پڑنے والے۔ ہر قسم کے معذرت خواہانہ رویوں سے پاک۔ دنیا بچانے کی خاطر دین کا کچھ حصہ چھوڑنے کی بجائے، دین بچانے کی خاطر پوری دنیا سے ہاتھ اٹھا لینے والے۔ آج دنیا جن کے قدموں میں لوٹ رہی ہے۔ بدر کا منظر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا دیکھ لیجیے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنگ بدر کے موقع پر 315 آدمی لے کر مدینہ سے نکلے اور یہ دعا کی: اے اللہ! یہ لوگ پیدل چل رہے ہیں ان کو سواری دے۔ اے اللہ! ان کے جسم پر کپڑے نہیں ہیں انہیں پوشاک عطا فرما۔ اے اللہ! یہ لوگ بھوکے ہیں انہیں آسودہ کر۔ اللہ نے بدر میں مسلمانوں کو فتح سے نوازا اور وہ اس حال میں مدینہ لوٹے کہ ہر آدمی کے پاس ایک یا دو اونٹ تھے اور ہر ایک کو کھانا اور کپڑا میسر ہوا۔ (ابوداؤد) اللہ سے عہد بندگی سچاکر دکھانے والوں کے لیے فتح ونصرت کے دروازے کل بھی کھلے اور آج بھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا 1400 سال کا فاصلہ طے کرکے طالبان کے لیے ہم قبول ہوتے دیکھتے ہیں۔ آج ان کے پاس دیوہیکل ہموی ہیں۔ نعمتیں ان کے قدموں تلے ہیں۔ اللہ انہیں ان پر بھی صبر وانضباط عطا فرمائے۔ آمین۔
عسکری مہارت کا کمال ہے کہ کابل جیسا طالبان مخالف شہر ادنیٰ ترین مزاحمت یا الجھاؤ کے بغیر فتح ہوگیا! یہ معجزے سے کم نہیں! یہاں رک کر عالمی میڈیا میں طالبان کو جس طرح اجڈ، وحشی، ماردھاڑ کرنے والے شدت پسند، دہشت گرد جیسے القاب سے نوازا جاتا رہا، اس کے برعکس یہ کس درجے شائستہ، مہذب، صبر وحلم سے آراستہ گروہ ہے! حکومت کے قیام کے بعد طالبان کو بدعنوانی کی ہمہ نوع عفریت کا چیلنج درپیش ہوگا جو سرکاری اداروں میں پرانے ملازمین سے کام لینے میں سامنے آئے گا، جس کی ہوش ربا کہانیاں زباں زد عام ہیں۔ ایک کھرب ڈالر امریکا نے جوان پر لگایا وہ اسی طرح برباد ہوا!
ایسا ہی بیان امیرالمومنین ملاہبۃ اللہ کی جانب سے جاری ہوا ہے۔ اس پر متوجہ کیا ہے کہ اللہ کی مدد ونصرت سے حاصل ہونے والی فتوحات شریعت مطہرہ کے اتباع کی بنا پر ہی ہیں۔ اس کے تحفظ کے لیے احتیاط کریں کہ آپ کہیں فتوحات پر غرور، تکبر، عجب اور خود ستائی میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ مال غنیمت میں خیانت نہ ہو۔ جو آپ کے سامنے ہتھیار ڈال دیں اس کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ کہیں آپ سے ظلم نہ سرزد ہوجائے۔ امور شریعت کی پابندی اور تواضع کی تاکید کی ہے۔ ذکر ودعا کی یاد دہانی ہے۔امام احمد بن حنبلؒ کا فرمان یاد آتا ہے کہ کوڑوں کی آزمائش سے توڑوں (اشرفیوں کی بہتات) کی آزمائش زیادہ سخت تھی۔ اللہ اس عظیم گروہ کو جس نے سنت جہاد کو امت میں جاری رکھا، اپنی خاص حفاظت میں رکھے۔ شاندار گاڑیوں، اونچی مسندوں، مقبولیت اور ہر دلعزیزی، بالخصوص میڈیا اور موبائیلوں کی آزمائش میں محفوظ رہیں۔ 20 سال کی سخت کوشی، اجنبیت اور تنہائی کے بعد خدانخواستہ دنیاوی آلائشیں چھو نہ جائیں۔ اللہ انہیں حبِ دنیا سے بچا! (آمین)دوسری طرف سینیٹ کام کمانڈر نے طالبان قیادت سے ایئرپورٹ پر معاملات امریکا ہی کے حوالے رہنے دیں مداخلت نہ کریں‘ کی درخواست کی تھی۔ وہ قبول کرلی گئی تھی۔ جس کے بعد بدترین مناظر امریکی ایئرفورس جہاز پر چڑھنے کے ضمن میں پیش آئے۔ افراتفری، بدنظمی، ہجوم پر فائرنگ اور 10 افراد کا مرنے کا واقعہ سپر پاور کی انتظامی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان ہے۔ دوڑتے جمعہ بازار جیسے ہجوم کے درمیان جہاز چل رہا ہے! ’جنگجوؤں‘ کے زیر انتظام ملک پرسکون، امن میں ہے!
کابل، افغانستان اس وقت ایک آئینہ ہے، ایک اسکرین ہے جس پرکرداروں، ضمیروں، اقوام کے چہرے، ان کے ایکسرے دیکھے جاسکتے ہیں۔
اشرف غنی ہی کو دیکھ لیجیے۔ بیروت کی امریکن یونیورسٹی اور کولمبیا یونیورسٹی نیویارک سے تعلیم یافتہ۔ علوم بشریات میں ڈاکٹریٹ کی۔ علوم بشریات میں انسانوں کا ماضی، حال، ثقافتی احوال گہرائی میں سمجھا سیکھا جاتا ہے۔ تاہم خود انسان بن کر رہنا سکھانا نصاب میں شامل نہیں ہوتا۔
پھر انہوں نے کابل یونیورسٹی، ڈنمارک، امریکی برکلے اور جان ہاپکنز یونیورسٹیوں میں پڑھایا۔ وہاں بشریات کی تھیوری پڑھائی تھی۔ عملی بشریات کے اسباق دنیا نے 15 اگست کو ان سے پڑھے جب یہ کرسیئ صدارت سے ’رضاکارانہ‘ اترکر چل دیے۔ غنی نے باقی تربیت ورلڈ بینک کی ملازمت سے حاصل کی، جہاں وہ چند سال مشرقی اور جنوبی ایشیا میں پراجیکٹ پر کام کرتے رہے۔) (ہمارے ممالک کو ورلڈ بینک کے ملازم بہت اچھا چلا لیتے ہیں۔) چنانچہ، 2002ء سے وہ صدر حامد کرزئی کے مشیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔
ان کی اہلیہ رولا غنی، لبنانی عیسائی ہیں۔ قوم کو آخر تک ڈٹے رہنے کا عندیہ دے کر اچانک صدر اشرف غنی ہیلی کاپٹر لیے نکل گئے۔ روسی سفارت خانے کے ترجمان کے مطابق رقم سے بھری چار گاڑیاں اور باقی رقم ہیلی کاپٹر میں ٹھونسی لے جائی گئی۔ پھر بھی بادل نخواستہ انہیں کچھ رقم چھورنی پڑی، دکھی دل سے۔لمحہئ فکریہ تو یہ ہے کہ عمر 72 سال، صرف 2 بچے ہیں جو خود انہی کی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ، خود کفیل ہیں۔ 4 افراد پر مشتمل کنبے کی ضروریات زندگی کتنی ہوں گی، جو ساری زندگی اعلیٰ ترین نوکریوں کی کمائی کے باوجود غریب مسکین افغانوں کی کمائی پر ہاتھ یوں صاف کرنے پر مجبور ہوئے؟حدیث مجسم! ’اگر آدم زاد کے پاس دو وادیاں بھر کر مال ہوتو وہ تیسری وادی کی تمنا کرے گا۔ ابن آدم کا پیٹ مٹی کے سوا کسی چیز سے نہیں بھرسکتا۔‘ (بخاری) یہ حاصل ہے شاندار جمہوریت کا، جو افغان عوام کو اسلامی امارت کے چنگل سے چھڑاکر عالمی اعلیٰ تعلیم یافتہ طاقتوں نے جنگ کے ذریعے مسلط کی۔ یہی شاہکار ہے تیرے ہنر کا……!
اشرف غنی کی جگہ ملا عبدالغنی برادر اور ان کے طالبان برادران ہوں گے۔ وہ جو قوم سے برادرانہ سلوک بھی کریں گے اور باذن اللہ…… خاکی ونوری نہاد بندہئ مولیٰ صفات، ہر دوجہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز، اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل! دنیا نے پہلے بھی دیکھا تھا اس حیات بخش نظام کو اور کفر کو اندیشہ یہی تھا کہ اگر اسے روکا کچلا نہ گیا تو جمہوریت کی ہوا اکھڑ جائے گی، بھانڈا پھوٹ جائے گا۔ یہ مسلم دنیا میں وائرل ہوجائے گا۔ اب ایک مرتبہ پھر یہی غم انہیں کھائے جا رہا ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.