آجکل ملک میں ٹک ٹاکروں کا چرچاہے ویڈیو بنا کر فالورز بڑھانے کا جنون ہے یہ ایسا جنون ہے جومعاشرے کی اخلاقی اقداراور اصولوں کواہمیت نہیں دیتاجس سے معاشرے کی بنیادیں شکستہ ہو رہی اور خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار توہے ہی خود ٹک ٹاکرکوبھی آئے روز حادثات کا سامنا ہے جی ہاں اگر معاشرے کو نقصان پہنچ رہا ہے تو ٹک ٹاکر بھی غیر محفوظ ہیں رواں برس دوفروری کوچھ لاکھ فالورز رکھنے والی مسکان شیخ کو ساتھی ٹک ٹاکر ریحان شاہ سمیت گولیوں کا نشانہ بنایا گیا لیکن لاکھوں فالورز رکھنے والوں کی لاشیں گھروالوں نے لیجانے سے گریز کیا کئی روز تک لاشیں لاوارث ہسپتال پڑی رہیں مگرکوئی فالور بھی تدفین کی ہمت نہ کر سکا پھربھی شہرت کے جنون میں کمی نہیں آرہی کوئی ٹرین کے ساتھ ٹک ٹاک بناتے جان گنوا رہا ہے تو کوئی بندوق سے اپنی جان لے رہا ہے ہلاکتوں کے باوجود شہرت کا جنون بڑھتاجا رہا ہے یہ شہرت کا جنون معاشرتی اقدار کی بھی تباہی کا باعث بن رہا ہے سوشل میڈیا کی تعمیری اہمیت سے انکار نہیں لیکن میرے کہنے کا مقصدیہ ہے کہ شہرت کے جنون میں جان کو داؤ پر لگانا اور خاندانی نظام تباہ کرنابھی غلط ہے بدنامی کی شہرت عارضی اور اِس کے نتائج نہایت تباہ کن ہیں اگر اچھے ہوتے تو حوا کی بیٹی کی لاش وصول کرنے سے گھر والے انکاری نہ ہوتے۔
سوشل میڈیا پرشہرت کا جنون بیماری کی حد تک پہنچ چکا ہے مناہل ملک نام کی بھی ایک خاتون ہے جو تقریباََ تین برس سے نت نئی ٹک ٹاک بنا کر شہرت حاصل کرنے کے چکر میں تھی لیکن فالورز بڑھانے میں مسلسل ناکام تھی پھر اُس نے اخلاق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عریاں تصاویر لگائیں اور راتوں رات فالورز کی تعداد نصف ملین کرلی اب اِسے کیا کہیں گے؟ اسلام تو پردے کا حکم دیتا ہے عریانی و فحاشی کی کوئی گنجائش ہی نہیں عورت کا حسن اور عزت پردے میں ہیں جو شہرت کی بھوکی بازاری عورتیں سرعام تماشا بنتی ہیں یہ وقتی طورپر مشہور تو ہوجاتی ہیں لیکن عزت پھوٹی کوڑی کی نہیں رہتی جب کوئی کھلونا بن کر سب کو کھیلنے کی دعوت دے گا توشہرت کے جنون کا شکارخواتین کو یقین ہونا چاہیے کہ کھلونے سے لوگ کھیلیں گے ہی سرآنکھوں پرنہیں بٹھائیں گے۔
چودہ اگست کو لاہور گریٹر اقبال پارک میں جو ہوا وہ غلط اور قابلِ مذمت ہے اور کسی حوالے سے اِس کی تائید کی جا سکتی ہے نہ ہی کسی ملوث کو بے گناہ قراردیا جا سکتا ہے لیکن ملوث لڑکوں کی طرح عائشہ اکرام بھی واقعے کی مکمل طور پر ذمہ دار ہے اور یہ واقعہ بھی شہرت کے بدترین جنون کاشاخسانہ ہے ایک لڑکی گھر سے روانہ ہونے سے قبل وقت اور مقام کے بارے سب
کو مطلع کرتے ہوئے مقبولیت ظاہر کرنے کے لیے اپنے فالورز سے اگر بروقت پہنچنے کی استدعا کرے تو ہجوم ہی اکٹھا ہوگا۔ قبل ازیں لگائی جانے والی ویڈیوز میں کبھی لڑکے سے کپڑے لینے،کبھی ٹکٹ خریدنے اور کبھی پیسے دینے کے نام پر گالوں کو چھوا گیا اور پھردعوتِ گناہ دیتی ایسی ہر ویڈیو کو فالورز سے لائیک اور شیئر کرنے کا مطالبہ بھی ہوا ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں ہیجان انگیز قسم کی ویڈیو زسے شہرت حاصل کرنے والی لڑکی سے کیا کوئی احترام سے پیش آسکتا ہے؟ عائشہ اکرام کسی کی بہن اور بیٹی بھی ہوگی اِس لیے کسی کی بہن یا بیٹی سے غیر اخلاقی حرکت ہو اُس کی تائید ممکن ہی نہیں لیکن میرا تو سوال اتنا سا ہے کہ کسی کی بہن اور بیٹی جب عزت کرانے کے بجائے شہرت کے جنون کے علاوہ کچھ دیکھنے پر تیار نہ ہو تو کیا کسی اور کو الزام دے سکتے ہیں؟
ایک بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ گریٹر اقبال پارک کا واقعہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا ہے اچانک کی بات میں کوئی صداقت نہیں جب سے میر اجسم میری مرضی کا راگ شروع ہوا ہے ملک میں انہونیاں ہو رہی ہیں بچے،بچیوں سے زیادتی کے واقعات بڑھنے لگے ہیں بہن بھائی،باپ بیٹی کے رشتے پامال ہو رہے ہیں رشتوں کاتقدس ختم ہو نے لگا ہے لیکن عالمی سطح پر خود کو روشن خیال ثابت کرنے کے لیے حکومت بھی تعلیم کے ساتھ تربیت پر توجہ دینے کے بجائے آزاد روی کی حوصلہ افزائی کرنے پر مجبور ہے اسی لیے خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ میں سرعت آگئی ہے ڈی آئی آپریشن،ایس ایس پی آپریشن،ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو معطل کرکے حکومت نے عالمی سطح پر یہی پیغام دیا ہے کہ عورت کی آزادی پر قدغن کا باعث بننے والوں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے یہاں کچھ نام نہاد لبرل اینکراور صحافی بھی مورچہ سنبھالے ملک کو بدنام کرنے کی مُہم میں بڑھ چڑھ کر شریک اور عورت کے احترام کا درس دیتے پھر رہے ہیں ارے بھائی کون عورت کے احترام سے انکاری ہے عورت کے احترام کی اسلام جتنی تلقین کرتا ہے کسی اور مذہب میں نظیر نہیں ملتی لیکن سوال پھر وہی ہے کہ کوئی عزت کرانے کی متمنی بھی تو ہو۔
یہ جو بات بات پر مغرب کی مثالیں دی جاتی ہیں ذرا یہ تو بتائیں کہ کسی مغربی ملک میں خاندانی نظام کا وجود ہے؟ درست کہ کسی عورت کی مرضی کے بغیر کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا لیکن کیا وہاں عورت کو واقعی عورت کہہ سکتے ہیں؟اسلام میں تو گھر داری اور خاندان کی تربیت کا فریضہ عورت کے ذمے ہے جب عورت اپنا فریضہ چھوڑ کر شمع محفل بنے گی اور شہرت کے جنون میں بے حیائی کی تشہیر اوردعوتِ گناہ دے گی تو جنسی مریض معاشرہ ہی وجود میں آئے گا جس میں زندہ اور قبر میں سوئے بھی نشانہ بن سکتے ہیں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی پاک دامنی کی گواہی قرآن دیتا ہے اگر عائشہ اکرام اپنے نام کی ہی کچھ لاج رکھ لیتی تو آج ملک اور مذہب کی ملک سے باہر رسوائی کا باعث نہ بنتی حالت یہ ہے کہ سپین کا سب سے بڑا اخبار صفحہ اول پر ایک عورت کو چار سو مردوں کی طرف سے چھیڑ چھاڑ کی کہانی شائع کرتا ہے مستقبل میں بھی اگرایسے واقعات ہوں تو اچنبھے کی بات نہیں ہو گی اِس لیے حریم شاہ،جنت مرزا،کنول آفتاب جیسی لڑکیاں ملک، مذہب اور خاندان کی بدنامی کے اشتہار لگاکر سستی شہرت حاصل کرنے کے بجائے اگر ملک میں نیکی اور تعمیری کاموں میں حصہ لیں تو کوئی قندیل بلوچ بے موت نہ ماری جائے۔ نیکی اور تعمیری سرگرمیوں سے خاندان کی عزت میں بھی اضافہ ہوگا اگر مادام رتھ فاؤ غیر ملکی ہوکر پاکستان میں تکریم حاصل کر سکتی ہیں تو پاک وطن کی بیٹیاں کیوں ملک، مذہب اور خاندان کی بدنامی سے شہرت کشید کرنے پر تلی ہیں؟جنھوں نے عزت بچانی ہے وہ کینڈین وی لاگر روزی گبرئیل کے پاکستان کے طول وعرض میں سفر سے ہی کچھ سیکھ لیں بات پھر وہی ہے کہ شہرت کا جنون تباہی کا باعث ہے بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا پر یقین کرنے والیاں یادرکھیں ماروی سرمد جیسے کردار قابلِ تقلید نہیں۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.