”بھاٹی لوہاری ……دوآنے سواری“

210

ذکر پچپن ساٹھ سال قبل کے لاہور کی یادوں، باتوں اور ان سے جڑے حالات و واقعات اور کچھ جگہوں اور مقامات کا ہو رہا تھا۔ باتیں اور یادیں کچھ ادھر اُدھر پھیل جاتی ہیں جس کی بنا پر یہ ذکر تمام نہیں ہو رہا۔ لیکن یہ بھی شاید ضروری ہے کہ اس میں بھی کچھ نہ کچھ دلچسپی اور معلومات کے پہلو بہر کیف پائے جاتے ہیں۔ پچھلی صدی کے ساٹھ کے عشرے کے آخری برسوں میں لاہور سینٹرل ٹریننگ کالج میں بی ایڈ کے داخلے کے دوران پنڈی سے لاہور جانا ہوتا تھا تو عام طور پر میکنکل ہمالیہ ٹرانسپورٹ سروس پر سفر کو ترجیح دی جاتی تھی کہ اس کی بسیں کچھ تیز رفتاری سے سفر طے کرتے ہوئے دیگر ٹرانسپورٹ سروسز کے مقابلے میں ایک آدھ گھنٹا جلد لاہور پہنچا دیا کرتی تھیں۔ پنڈی میں ان کا اڈہ پنڈی کے مرکزی مقام راجا بازار اور چوک فوارہ کے قریب لیاقت روڈ سے جو سڑک بازار تلواڑاں کو نکلتی ہے کے کونے پر تھا۔ جہاں آج کل پنڈی باڑہ کی مرکزی مارکیٹ ہے۔ لیاقت روڈ پر کچھ آگے مشرق میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس(جی ٹی ایس)کا اڈہ تھا جہاں سے مختلف شہروں اور مقامات کو جانے والی گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کی نسبتاً کشادہ اور آرام دہ بسیں کھڑی ہوتی تھیں۔ یہ بسیں پہلے صدر میسی گیٹ میں جی ٹی ایس کے بڑے اڈے پر جایا کرتی تھیں جہاں کچھ دیر رکنے اور سواریوں کو لینے کے بعد اپنی منزل مقصود کو روانہ ہو ا کرتی تھی۔ اس طرح ان کی روانگی میں کچھ زیادہ وقت لگ جاتا تھا۔ صدر جی ٹی ایس کا اڈہ بلاشبہ ہر لحاظ سے معیاری، آرام دہ اور مسافروں کی تمام ضروریات کو پورا کرنے والی جگہ تھی۔ مختلف شہروں کے ٹکٹ لینے کے لیے الگ الگ کاؤنٹر، بسوں کی روانگی کے اوقات، آرام دہ ویٹنگ روم، ٹی سٹال، بکس سٹال اور صاف ستھرے واش روم  تمام لوازمات موجود تھے۔ اب ادھر سے کبھی گزر ہو تو ویرانی ہی ویرانی ہے۔ دل بری طرح دکھتا ہے۔ نہ گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس رہی نہ لوکل (اومنی) بس سروس رہی۔ نہ اُن کی مختلف بین الاضلاعی، بین الصوبائی اور مقامی روٹس پر چلنے والی بسیں جن میں مقامی روٹس پر چلنے والی ڈبل ڈیکر(دو منزلہ) بسیں بھی ہوتی تھیں رہیں، نہ اُن کے اڈے اور سٹینڈ رہے۔ سب نا اہل حکمرانوں اور مافیاز کی نذر ہو گئے۔ خیر کس کس بات کا رونارویا جائے، واپس لاہور کے سفر کی طرف آتے ہیں۔ 
مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس دور میں پنڈی سے لاہور یا لاہور سے پنڈی کا کرایہ 5روپے 57پیسے یا 5روپے 9آنے ہوا کرتا تھا۔ جی ٹی روڈ جو اس وقت اتنی کشادہ نہیں تھی نہ ہی دو رویہ (ڈبل) تھی بلکہ سنگل تھی اس پر پنڈی سے لاہور کا سفر تقریباً چھ گھنٹوں میں طے ہوتا تھا۔ اس دور میں سفر کے دوران میری طبیعت کچھ 
خراب اور قے وغیرہ ہو جاتی تھی اس لیے میری کوشش ہوتی تھی کہ بس کی شیشوں (کھڑکیوں) والی سیٹ ملے۔ اس سے میرا باہر کے مناظر اور آس پاس کے مقامات کو دیکھنے کا شوق بھی پورا ہو جاتا تھا۔ آج اگرچہ پچپن ساٹھ سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن پنڈی اور لاہور یا لاہور اور پنڈی کے درمیان جی ٹی روڈ پر اور اس سے متصل مختلف مقامات، جگہوں، قصبوں، شہروں اور بس اڈوں کے اس دور کے خدوخال میرے ذہن کے نہاں خانے میں بڑی حد تک موجود ہیں۔ پنڈی سے چلتے تو بسیں 17، 18کلومیٹر پر روات اور 29، 30کلومیٹر کے فاصلے پر مندرہ سے گزرتی ہوئی تقریباً ایک گھنٹے یا اس سے ذرا زائد وقت میں 40کلومیٹر پر گوجر خان پہنچ پاتیں۔ وہاں کچھ دیر رُکنے کے بعد 12، 14کلومیٹر دور سوہاوہ اور وہاں سے ترکی کی پہاڑیوں سے گزرتی ہوئی 12، 14کلومیٹر دینہ پہنچتی تھی۔ سوہاوہ اور دینہ کے درمیان ترکی کی پہاڑیوں کا سفر تکلیف دہ ہوتا تھا۔ یہاں سڑک پر خطرناک موڑ تھے، ریلوے پھاٹک بھی  تھا جہاں ٹریفک بلاک رہتی تھی۔ اب کئی عشروں سے سڑک کے موڑ ہی ختم کر یے گئے ہیں بلکہ ریلوے پھاٹک پر بھی اوور ہیڈ برج بنا دیا گیا ہے۔ سوہاوہ اور دینہ کے درمیان بڑے بڑے بھاری ٹرک اور ٹریلر بھی چلا کرتے تھے جو ترکی کی ان پہاڑیوں اور سخت مٹی کے ٹیلوں سے پتھر اور مٹی منگلا ڈیم تک لے کر جاتے تھے جو اس وقت یعنی  1967میں تکمیل کے آخری مراحل میں تھا۔ دینہ سے آگے جہلم کا سفر کسی حد تک ہموار اور رواں دواں ہوا کرتا تھا۔ جہلم میں بسیں کسی ہوٹل کے کنارے کچھ دیر رُکتیں، مسافر اور بس کے ڈرائیور کنڈکٹر کچھ کھا بھی لیتے، جہلم سے روانگی کے بعد اگلا مشکل مرحلہ دریائے جہلم پر بنے پل کو پار کرنا ہوتا تھا۔ ریلوے لائن پر بنے پل کے ساتھ سڑک پر بنا پرانا پل جو اب بھی شائد موجود ہے تنگ تھا اور اس سے یک طرفہ ٹریفک گزرتی تھی، اس وجہ سے یہاں ٹریفک بلاک ہو جایا کرتی تھی۔ پل سے آگے دریائے جہلم کی دوسری جانب سرائے عالمگیر شروع ہو جاتا ہے۔ سرائے عالمگیر کا ملٹری کالج جہلم اور نہر اپر جہلم جو ہر موسم میں کناروں تک پانی سے بھری ہوتی ہے، آج بھی اسی طرح موجود ہے۔ 
سرائے عالمگیر سے کچھ آگے پبی کا نیم پہاڑی اور کچھ کچھ گنے درختوں والا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ یہاں سے گزرنے کے بعد اگلا پڑاؤ کھاریاں ہوا کرتا تھا۔ کھاریاں کو لاہور اور پنڈی سے تقریباً یکساں فاصلہ ہونے کی بنا پر  درمیانی مقام سمجھا جا سکتا ہے۔ لاہور جاتے ہوئے جی ٹی روڈ کے بائیں طرف دور تک پہلی ہوئی کھاریاں کی چھاؤنی، فوجی ٹرک اور ٹینک وغیرہ دیکھنا مجھے اچھا لگتا تھا۔ آگے لالہ موسیٰ اور پھر گجرات آجاتا ہے جہاں بسیں کچھ دیر کے لیے رکتی تھیں۔ گجرات سے آگے دریائے چناب کے پل کو عبور کرنے کے بعد وزیر آباد کا قصبہ کچھ ہی فاصلے پر رہ جاتا ہے۔ وزیر آباد سے آگے راہوالی اور گھکھڑ منڈی سے گزرتے ہوئے گجرانوالہ پہنچ جاتے۔ گجرانوالہ کے بیچ میں سے گزرتی جی ٹی روڈ پر سفر کرنا کار دارد ہوتا کہ یہاں ٹریفک کا بہت ہجوم ہوا کرتا تھا۔ گجرانوالہ سے کچھ فاصلے پر آگے نہر اپر چناب گزرتی ہے۔ یہ بھی غالباً ہر موسم میں پانی سے لبالب بھری رہتی ہے۔ یہاں سے آگے شاید پہلے کامونکے  اور پھر مریدکے آتے ہیں۔ ان قصبوں کے پاس سے گزرتے ہوئے جی ٹی روڈ کے اطراف میں دھان (چاول) کے دور دور تک پہلے ہوئے کھیت دیکھنا بھی ایک پرکشش منظر ہوتا تھا۔
 دھان کے کھیتوں کا یہ سلسلہ آگے کالا شاہ کاکو بلکہ اس سے بھی آگے تک پھیلا ہوا کرتا تھا۔ کالا شاہ کاکو ایک بڑا صنعتی مرکز ہے جہاں کیمیکلز کے کارخانے ہیں جن کی بو پھیلی رہتی ہے۔ یہیں پر ریاں (مصنوعی ریشم کا دھاگہ) بنانے کا اُس وقت کا ایشیا کا سب سے بڑا کارخانہ کوہ نور ریاں بھی تازہ تازہ قائم ہوا تھا۔ کیمیکلز کی ہر طرف پھیلی ناگوار بو کے باوجود اس کارخانے کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں اور کچھ ذرا اُونچی جگہ پر ایستادہ مشینوں سے نکلنے والی بھاپ دیکھنا بڑا ہی بھلا لگتا تھا۔ کالا شاہ کاکو سے آگے چل کر شاہدرہ کا تاریخی قصبہ آتا ہے جہاں راوی کے پُل سے پہلے ایک طرف ذرا ہٹ کر مقبرہ جہانگیر کے مینار دعوتِ نظارہ دیتے ہیں تو جی ٹی روڈ اور ریلوے لائن کے درمیان مقبرہ نور جہاں کی بوسیدہ عمارت بھی موجو دہے۔ نور جہاں کی لوحِ قبر پر یہ شعر کنندہ ہے۔ 
برمزارِ ما غریباں نے چراغ نے گلے
نہ پرِ پروانہ نے سوزش نے صدائے بلبلے 
میری طرح پہلے پہلے لاہور جانے والوں کے لیے مقبرہ جہانگیر کے میناروں کا دور سے نظارہ کرنا اور مقبرہ جہانگیر کے پہلو سے گزرنا یقناً دلچسپی کا باعث ہوا کرتا تھا۔ شاہدرہ کے راوی پُل پر اکثر ٹریفک بلاک ملا کرتی تھی۔ یہاں سے کچھ آگے مینارِ پاکستان اور بادشاہی مسجد کے بلند و بالا مینار نظر آتے ہیں تو کچھ ہٹ کر بادامی باغ کا بسوں کا پرانا اور پر ہجوم اڈہ بھی موجود ہے۔ یہاں پنڈی سے لاہور تک بس کے سفر کا اختتام ہوتا۔ بس سے اُترتے تو ٹانگے کھڑے ملتے،اور ساتھ ہی ٹانگہ بانوں کی یہ آوازیں سنائی دیتیں۔ "بھاٹی تے لوہاری۔۔۔دو آنے سواری "۔ کسی ٹانگے میں بیٹھ کر لاہور کی تاریخی بادشاہی مسجد اور شاہی بازار کے پہلو سے گزر کر بھاٹی گیٹ تک پہنچ جاتے۔ وہاں تانگے سے اُتر کر کچھ ہی فاصلے پر سینٹرل ٹریننگ کالج کے ہاسٹل کے مین گیٹ پر پہنچتے، رات زیادہ گزرنے کی وجہ گیٹ بند ہوتا تو چوکیدار کی منت کرکے اسے کھلوانا پڑتا۔ سفر کی یہ روداد لاہور کے مقامات اور ان سے متعلقہ کچھ یادوں کے بیان میں رکاوٹ بن گئی، ان شاء اللہ یار زندہ صحبت باقی……!

تبصرے بند ہیں.