151

کابل: افغان طالبان نے افغانستان پر قبضے کے بعد اپنے ہی خلاف احتجاج کرنے والی خواتین کی حفاظت کر کے نئی تاریخ رقم کر دی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی ان کے اس اقدام کی تعریف کی جا رہی ہے۔ 
میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان کے دارالحکومت کابل میں چند خواتین نے طالبان کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے عورتوں کو سیاسی اور بنیادی حقوق دینے کا مطالبہ کیا۔ کابل کے ایک چوک میں کئے جانے والے اس احتجاج کے دوران خواتین نے پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے جن کا مطالبہ تھا کہ خواتین کو بھی سیاسی عمل کا حصہ بنایا جائے۔ 
احتجاجی مظاہرے میں شریک خواتین نے چہرے بھی نہیں ڈھانپ رکھے تھے اور وہ طالبان کے خلاف نعرے بازی بھی کر رہی تھیں لیکن یہ دیکھ کر سب ہی حیران رہ گئے کہ وہاں موجود طالبان جنگجو اپنے خلاف احتجاج کے باوجود ان خواتین کی حفاظت کرتے رہے۔ 

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خواتین کے حقوق اور میڈیا کی آزادی سے متعلق اپنی پالیسی کا اعلان بھی کیا اور کہا کہ میڈیا آزاد ہے اور تمام ادارے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں جبکہ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کے حوالے سے تین تجاویز بھی دیں۔ 
افغان طالبان کے ترجمان نے کہا کہ پہلی تجویز یہ ہے کہ میڈیا کی نشریات اسلامی اقدار سے متصادم نہیں ہونی چاہئیں۔ دوسری تجویز ہے کہ میڈیا کی نشریات غیر جانبدار ہونی چاہئیں البتہ ہم تنقید کو خوش آمدید کہیں گے جبکہ تیسری تجویز ہے کہ اس دوران قومی مفادات کے خلاف کچھ بھی نشر نہ کیا جائے اور میڈیا افغانستان میں قومی بھائی چارے کو فروغ دے۔
خواتین سے متعلق گفتگو میں ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ خواتین کے حقوق ایک سنجیدہ مسئلہ ہیں، ہم یقین دلاتے ہیں کہ اسلام کے دائرے کے اندر خواتین کو تمام حقوق فراہم کئے جائیں گے جبکہ خواتین اسلامی روایات کا خیال رکھتے ہوئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتی ہیں، خواتین ہمارے معاشرے کا معزز حصہ ہیں اور انہیں شرعی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنے کی اجازت ہے۔ 

تبصرے بند ہیں.