تیرا پاکستان اور میرا پاکستان اور

157

پاکستان میں رائج سیاسی نظام دو قسم کا ہے۔ایک ملٹری ڈکٹیٹر شپ اور دوسرا سول ڈکٹیٹر شپ رائج الوقت ہے۔
ملٹری ڈکٹیٹر شپ کو مارشل لاء بھی کہتے ہیں۔یہ لاء جب چاہتا ہے حرکت میں آجاتا ہے اور برسوں تک برسرِ اقتدار رہنے کو ترجیح دیتا ہے جبکہ دوسرا سول ڈکٹیٹر شپ ہے جس کو عرف عام جمہوریت کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہ وہ نظام ہے جو جس سیاسی پارٹی کے ہاتھ لگ جائے،اس پارٹی کے وزراء اور نمائندوں کی پانچوں گھی میں اور سر (خواہ گنجا ہی کیوں نہ ہو) کڑاہی میں ہوتا ہے اور ان کی چاندی ہو جاتی ہے۔اب ہم پاکستان کے عدالتی نظام پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے کی سعی کرتے ہیں۔ 
اسی طرح پاکستان میں دو طرح کی عدالتیں ہیں۔ایک فوجی عدالت ہے اور دوسری موجی عدالت کے نام سے جانی جاتی ہے۔
 جب بندہ لٹکانا ہو یا اس کا سارا کچا چٹھا کھولنا ہو تو فوجی عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔یہ عدالتیں وقت ضائع کیے بغیر سائل کا دامن داغ دار ہونے سے بچا لیتی ہیں اور جب کیس لٹکانا ہو تو موجی عدالت سے رجوع کیا جاتا ہے یہ عدالتیں آپ کو اپنے سے ایسے مانوس کر لیتی ہیں کہ بسا اوقات سائل ان عدالتوں کو اوڑھنا بچھونا تصور کر لیتا ہے اور کئی دفعہ عدالتوں کے برآمدوں میں ہی بوریا نشین ہو جاتا ہے۔مزے کی بات ہے اسی طرح پاکستان کے قومی نظریہ اور خیال کے مطابق عوام اور حکمران دو علیحدہ قومیں ہیں، جن کا رہن سہن، تہذیب،کلچر، مذہب اور تاریخ ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ علاوہ ازیں اگر اہم خیراتی شخصیات کے بارے میں جانکاری چاہیے ہو تو ملک ریاض وہ واحد پاکستانی ہے جس نے ہر پاکستانی کے مسئلے کو سمجھا اور اسے فوراً حل بھی کیا ہے۔ ہنگامی بنیادیں ان کے آگے کوئی معانی نہیں رکھتیں۔ مثلاً!
بے گھر صحافی کے لیے پلاٹ،بے گھر سیاستدان کے لیے گھر،پلاٹ اور دیگر کئی سہولتیں مہیا کرنا انکی اولین سرشت میں شامل ہے۔بے کار سیاستدان کے لیے کاریں اور جہاز،نیک اور پرہیزگار بیوروکریٹ کے لیے حج اور عمرہ،رومانوی بیورو کریٹس کے لیے یورپی ٹرپ اور حسین مناظر کی دید،بے روز گار ریٹائرڈ جرنیلوں اور ججوں کے لیے 
نوکریاں اور نیکوکاروں کے لیے بڑی بڑی مسجدیں بنا دیں۔ایک فلاسفر وکٹر ہیوگو کا قول ہے کہ ”جب میں چودہ سال کا تھا تو میں نے کھانے کے لیے روٹی کا ایک ٹکڑا چرایا، جس کی وجہ سے انہوں نے مجھے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا اور 6 مہینے تک مجھے مفت روٹی دیتے رہے، بس یہی انسانی عدالت ہے“۔
وہ وقت دور نہیں ہے کہ جب بے روز گار،لاچار،غربت سے پسے ہوئے،غیرشادی شدہ اور پڑھے لکھے ہوئے لوگ معمولی اور چھوٹے چھوٹے جرائم صرف اس لیے کریں گے کہ چلیں جیل میں روٹی تو ملے گی۔بے روز گاری کی فکر تو نہیں ہو گی۔دیہاڑی نہ لگنے کی فکر نہ ہوگی۔چلیں تین وقت پیٹ کا دوزخ تو بھرتا رہے گا۔قارئین!آئیے اس نظام کو سمجھانے کے لیے آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔کسی زمیندار کی بھینس نے دودھ دینا بند کر دیا،زمیندار کا گزارا اسی دودھ پر ہی تھا۔ زمیندار بڑا پریشان ہوا اور بھینس کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا، ڈاکٹر نے ٹیکے لگائے،ادویات دیں لیکن کوئی فرق نہ پڑا،تھک ہار کر وہ بھینس کو پیر کے پاس لے گیا، شاہ جی نے دھونی رمائی، دم کیا، پھونک ماری۔آٹے کا پیڑا دم کرکے دیالیکن وہ بھی بے سود رہا۔بھینس کو کوئی فرق نہ پڑا۔ اس کے بعد وہ بھینس کو کسی سیانے کے پاس لے گیا، سیانے نے دیسی ٹوٹکے لگائے۔اپنا پورا ٹِل مارا(جس طرح سیاستدان جیتنے کے لیے مارتے ہیں) لیکن وہ بھی بیکار ثابت ہوئے۔آخر میں زمیندار نے سوچا کہ شایدکھانے کی مقدار بڑھانے سے مسئلہ ٹھیک ہو جائے۔زمیندار نے بھینس کو خوب کھل بنولہ کھلایا،سبز چارے کی بھر مار کردی۔ کسی چیز کی کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن بھینس نے دودھ دینا شروع نہ کیا۔زمیندار بالآخر مایوس اورلاچار ہوکر بھینس کو قصائی کے پاس لے کر جانے لگا کہ یہ اب کسی کام کی نہیں تو چلو اسے قصائی کے ہاتھوں فروخت کرتا ہوں وہ اسے ذبح کر کے بیچ ڈالے گا،راستے میں اسے ایک سائیں ملا۔(سائیں قائم علی شاہ یا سائیں عثمان بزدار نہیں) 
سائیں بولا! پریشان لگتے ہو، زمیندار نے اپنی پریشانی بیان کی، 
سائیں نے کہا! تم کٹا کہاں باندھتے ہو؟ زمیندار بولا 
بھینس کی کھْرلی کے پاس۔ سائیں نے پوچھا! کٹے کی رسی کتنی لمبی ہے؟ 
زمیندار بولا: کافی لمبی ہے!
سائیں نے اونچا قہقہہ لگایا اور بولا سارا دودھ تو کٹا چنگ جاتاہے! تمہیں کیا ملے گا،، کٹے کو بھینس سے دور باندھو!
قومی اسمبلی اور سینیٹ کی 50 کمیٹیاں ہیں اورہر کمیٹی کا ایک چیئرمین ہے۔ ہر چیئرمین کے ذاتی دفتر کی تیاری پر دو دو کڑور روپے خرچ ہوئے ہیں۔ ہر چیئرمین ایک لاکھ 70 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لیتا ہے، اسے گریڈ 17 کا ایک سیکرٹری، گریڈ 15 کا ایک سٹینو، ایک نائب قاصد، 1500سی سی گاڑی،600 لٹر پٹرول ماہانہ، ایک رہائش،رہائش کے سارے اخراجات بل وغیرہ اسکے علاوہ ملتے ہیں! اس کے علاوہ اجلاسوں پر لگنے والے پیسے، دوسرے شہروں میں آنے جانے کیلئے فری جہاز کی ٹکٹ دستیاب ہیں۔ایک اندازے کے مطابق یہ کمیٹیاں اب تک کھربوں روپوں کا دودھ ”چنگ“ چکی ہیں۔ اگر ان کٹوں کی رسی کو کم نہ کیا گیا تو یہ کٹے ایسے ہی، کھربوں روپوں کا دودھ ”چنگتے“ رہیں گے!کیا پیٹ پر پتھر باندھنے اور کفایت شعاری کیلئے اقوال زریں صرف عوام کیلئے ہی ہیں؟

تبصرے بند ہیں.