یہ کہنا شاید زیادہ درست ہو کہ پاکستان کے موجودہ اور ماضی قریب کے حکمرانوں کا ذکر ان کی کارکردگی، ان کے اندازِ حکمرانی اور ان کی ذاتی صفات و عادات، ان کے اعمال و افعال اور ان کی شخصیات کے کمالات کی بناپر اکثر ہوتا رہتا ہے تو اس کے ساتھ پاکستان کے ماضی بعید کے حکمرانوں جن میں فوجی حکمران فیلڈ مارشل محمد ایوب خان، جنرل محمد یحییٰ خان، جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف بطور خاص شامل ہیں کا ذکر بھی اکثر بلکہ تواتر سے سامنے آتا رہتا ہے کہ ان سب کے دورِ حکمرانی جو کم و بیش 33/34 برس پر محیط ہے کو بعض حلقے پاکستان کے بہت سارے مسائل اور مشکلات کی جڑ اور بنیاد قرار دیتے ہیں۔ تو کچھ حلقے ان کی تعریف و توصیف بھی کرتے رہتے ہیں۔ یہ کہاں تک صحیح ہے یا صحیح نہیں ہے کہ اس کے بارے میں دو رائے ہو سکتی ہیں، تاہم ان فوجی حکمرانوں کے طویل مارشل لائی دور کو ملک میں رائج روایتی جمہوری نظامِ حکومت کی نفی اور انہیں بذات خود فوجی آمر یا ڈکٹیٹر قرار دینا کچھ ایسا غلط نہیں ہو گا۔ ان فوجی حکمرانوں یا آمروں میں جنرل محمد ضیاء الحق کا دور حکومت سب سے طویل ہے کہ 5جولائی 1977ء کو ذو الفقار علی بھٹو مرحوم کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد 17اگست 1988کو بہاولپور کے قریب پاک فضائیہ کے C130طیارے میں اپنی شہادت تک تقریباً 11سال اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے طویل مارشل لائی دور حکمرانی میں کئے جانے والے فیصلوں، اقدامات اور انداز حکمرانی کی بنا پر جہاں بعض حلقے ان کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ملک و قوم کئی مسائل اور مشکلات سے دو چار ہوئے تو وہاں ایسے بھی بہت سارے حلقے ہیں جو 17اگست 1988کو ان کی شہادت کے بعد تقریباً 33/34برس کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھی انہیں یاد رکھے ہوئے ہیں اور جہاں ان کا نام محبت اور احترام سے لیتے ہیں وہاں مرد مومن، مرد حق ضیا الحق کے نعرے لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
اسے اگر مبالغہ آرائی پر محمول نہ کیا جائے کہ میں ذاتی طور پر اس کا گواہ ہوں اور کچھ کچھ اس کا عینی شاہد بھی ہوں کہ چند ہفتے قبل جنرل محمد ضیاء الحق کے چھوٹے بھائی محمد اظہار الحق جو طویل عرصہ تک باٹا پاکستان میں ایک عام سے عہدے پرفائزرہے کا انتقال ہوا تو بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے مرحوم کے بھتیجے اور جنرل ضیاء الحق کے فرزند محمد اعجاز الحق سے ذاتی طور پر آکر جہاں اظہار ِ تعزیت اور دعائے مغفرت کی وہاں اپنے طور پر بھی اس کا اہتمام کیا۔ یہ درست ہے کہ کوئی فوت ہو جائے تو لوگ اس کے لواحقین سے آکر ملتے ہیں، اظہار ِ افسوس کرتے ہیں، فاتحہ خوانی کرتے ہیں کہ یہ ہماری دینی تعلیمات، اخلاقی اقدار اور روایات کا حصہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی جڑی ہوئی ہے کہ اکثر لوگ اظہار تعزیت اور فاتحہ خوانی کرنے کے لئے اس بات کو بھی اہمیت دیتے ہیں کہ کوئی شخص کتنی بڑی حیثیت اور کتنے بڑے مقام و مرتبے کا مالک ہے اور اس کے لواحقین سے انہیں کتنا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ محمد اظہار الحق کی وفات پر لوگوں جن میں باحیثیت افراد کے ساتھ عام لوگ بھی شامل تھے نے محمد اعجاز الحق جو کسی بڑے عہدے پر فائز نہیں ہیں اور نہ ہی کسی بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، جو ق در جوق آکر تعزیت کی یہاں تک کہ افغان طالبان کا وفد بھی ان سے آکر ملا تو یہ سب کچھ لوگوں کی جنرل محمد ضیاء الحق سے عقیدت اور محبت کی بنا پر ہوا کہ مرحوم محمد اظہار الحق ان کے چھوٹے بھائی تھے اور لوگوں نے یہ ضروری سمجھا کہ وہ ان کے فرزند محمد اعجاز الحق سے جا کر تعزیت کریں کہ اس طرح وہ جنرل محمد ضیاء الحق سے اپنے لگاؤ، تعلق اور محبت و عقیدت کا اظہار سامنے لے کر آئیں۔
جنرل محمد ضیاء الحق کو کوئی کچھ بھی سمجھے ان کو کوئی فوجی آمر کہیں یا کچھ اورلیکن یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں ضیاء الحق کے حامی اور مخالفین سبھی کا اِتفاقِ رائے سامنے آئے گا کہ ضیاء الحق میں بہت ساری شخصی خوبیاں پائی جاتی تھی۔ وہ بڑی حد تک عاجزی، انکساری، مروت اور دوسروں کا احترام کرنے اور اُن کی عزت ِ نفس کا پاس کرنے کی صفات سے بہرہ ور تھے۔ صوم و صلوٰۃ کی پابندی، اسلامی تعلیمات سے لگاؤ اور مشرقی اقدار و روایات کی پاسداری اُن کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ بلا شبہ اُنہوں نے ملک میں نظامِ صلوٰۃ، عشر و زکوٰۃ اور حدود قوانین کے نفاذ کے لئے سنجیدہ کوششیں کیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اُن کے دور میں کسان، مزدور، تاجر، صنعت کار، سرکاری ملازمین، بزرگ شہری، سابقہ فوجی اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین سمیت عوام کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ بعد کے ادوار بالخصوص آج کے دور کے مقابلے میں نسبتاً آسودہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ زرعی اجناس کی پیداوار میں اضافے کے ساتھ مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ اور قومی نمو میں بہتری کے آثار نمایاں تھے۔ عالمی برادری بالخصوص عالم ِ اسلام میں پاکستان کی ایک عزت اور مقام تھا۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان بہتر ڈپلو میسی پر عمل پیر ا تھا۔بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور بعد میں اُس کے بیٹے راجیو گاندھی کی طرف سے ضیاء الحق سے بے اعتنائی کا رویہ اپنانے کے باوجود مختلف عالمی فورمز پر اُنہیں ہر گام ضیاء الحق کے مقابلے میں خفت کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔ پاکستان نے غیر جانبدار ممالک کی تنظیم کی رُکنیت ہی حاصل نہ کی بلکہ بھارت کی روایتی چودھراہٹ کو بھی ختم کیا۔ جہادِ افغانستان میں پاکستان کی بھرپور شرکت اور روسی قیادت کی طرف سے سنگین نتائج کی دھمکیوں کے باوجود ضیاء الحق کا ثابت قدم رہنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ لیکن اس سب کے باوجود ضیاء الحق شاید ہمارے نام نہاد لبرز اور بائیں بازو کے دانشور طبقات کے معیار پر پورا نہیں اُترتے تھے۔ یہ طبقات جو ضیاء الحق کے دور میں ہر طرح کی مراعات، نواشات اور آسائشوں سے بہرہ مند ہوتے رہے آج بھی اُن کو تنقید کا نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔
ضیاء الحق کے افغان پالیسی پر آج بھی اُن کو کوسنے والے موجود ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اُنہیں روسیوں کے خلاف افغانیوں کی تحریک مزاحمت جسے جہادِافغانستان کا نام دیا جاتا ہے میں حصہ نہیں لینا چاہیے تھا اور نہ ہی لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دینی چاہیے تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے کلاشنکوف کلچر کو رواج ملا اور دہشت گردی کا آغاز ہوا۔ معترضین اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ دسمبر 1979کو روسی افواج افغانستان میں دَر آئیں تو یہ آج کا پیوٹن کا روس نہیں تھا۔ یہ برزنیف، چرنکو اور آندرے پوف کا طاقت اور غرور کے گھمنڈ میں بدمست سوویت یونین تھا جس نے وسط ایشیا کی وسیع و عریض رقبوں پر پھیلی مسلم ریاستوں پر ہی قبضہ نہیں کر رکھا تھا بلکہ ہنگری اور پو لینڈ سمیت مشرقی یورپ کے کئی ممالک کو بھی تاراج کر رکھا تھا۔ افغانستان میں اگر اُس کی مزاحمت نہ کی جاتی تو وہ افغانستان کو روندنے کے بعد بحیرۂ عرب کے گرم پانیوں تک پہنچنے کے لئے اپنے صدیوں پرانے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے پاکستان کی سرحدوں کو بھی پامال کر سکتا تھا۔پھر سقوطِ مشرقی پاکستان کا بدلہ چُکانا بھی ہم پر واجب تھا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت کے ساتھ سوویت یونین بھی برابر کا شریک تھا۔ پھر افغانیوں کے ساتھ اسلامی اخوت کا رشتہ بھی تھا کہ اُن کا ساتھ دِیا جاتا۔ پھر یہ حقیقت بھی تھی کہ پاکستان کی حکومت افغانیوں کو بطورِ مہاجر پاکستان میں آنے سے روکتی تب بھی انہوں نے نہیں رُکنا تھا۔ پاکستان کے قبائلی علاقے اُن سے پٹ جاتے۔ لہٰذا حالات و واقعات ا ور زمینی حقائق کا تقاضا یہی تھا کہ پاکستان افغانیوں کی تحریک ِ مزاحمت جو حقیقتاً چند سال قبل ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہو چکی تھی اس میں سرگرمی سے شریک ہوتا۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ افغان جہاد کی آڑ میں پاکستان نے اپنے ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ یہ ضیاء الحق ہی تھے جنھوں نے1987 کے شروع میں پاک بھارت کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے بھارت کے دورے کے دوران بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تکمیل کا اشارہ دے کر یہ دھمکی نما پیغام دیا کہ بھارت "براس ٹیک” فوجی مشقوں کے نام پر پاکستان کی سرحد پر جمع 2لاکھ فوج کو واپس بُلا لے اور پاکستان کے خلاف کسی جارحانہ کارروائی سے باز آ جائے ورنہ بھارت اس تباہی کا شکار ہوگا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.