جس طرح امریکہ دم دبا کر افغانستان سے بھاگا اور اس کے بعد جس تیزی سے طالبان افغانستان پر قبضہ کر رہے اور سونے پر سہاگہ جس سرعت سے افغان فوج پسپا ہو رہی ہے سب کچھ خواب خواب سا لگتا ہے۔ وہ افغان فوج جس کی تربیت امریکہ اور یورپ نے کی جس پر ایک اندازے کے مطابق 2000 ارب ڈالر خرچ کیے وہ غیر تربیت یافتہ طالبان کے ہاتھوں تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان کی تربیت یافتہ فوج کی باتیں ہوائی تھیں۔ بہر حال بہتر ہو گا کہ اب ماضی کو دفن کر کے تمام فریق 40 سالہ جنگ کے بعد ایک نئے اور پر امن افغانستان کی تعمیر نو کرنے کی طرف قدم بڑھائیں کیونکہ امن ہی ترقی کی ضمانت ہے۔
اب امریکہ بہادر طالبان سے بھیک مانگ رہا ہے کہ کابل پر قبضے کے بعد امریکی شہریوں اور سفارتخانے کو امان دی جاے۔ اب تو امریکہ کا حواری برطانیہ بھی افغانستان سے بغیر منصوبہ بندی کے انخلا پر برہم ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ امریکہ کی نیت کچھ اور تھی یا اپنی تربیت یافتہ افغان فورسز اور اشرف غنی پر حد سے زیادہ اعتماد یا خوش فہمی تھی جو کہ ریت کی دیوار ثابت ہوے۔ ایک امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق امریکہ اور اس کے اتحادی تمام تر وسائل کے باوجود اس تیزی سے ”سقوط افغانستان“ کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے اور اب وہ طالبان سے امن کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ افغانستان چھوڑنے سے پہلے امریکی اتحادی شراکت اقتدار کا فارمولا طے کر کے طالبان اور افغان حکومت کو ایک پیج پر لے آتے یا فریقین کی باہمی رضامندی سے نظام سیاست اور نظام حکومت کا ایسا فارمولا طے کرتے جو سب کو قبول ہوتا۔ لیکن جو بائیڈن نے افغانستان سے امریکی فوجیں واپس بلانے کے
انتخابی نعرے کو اس بھدے طریقے سے عملی جامہ پہنایا کہ افغانستان کو ایک اور امتحان میں مبتلا کر دیا ہے۔اب امریکہ اور اس کے حواری ہاتھ مل رہے ہیں لیکن اب پچھتانے سے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ وزیراعظم عمران خان نے بالکل درست کہا کہ اب امریکہ چاہ رہا ہے کہ گزشتہ 20 سال سے اس کا پھیلایا ہوا گند پاکستان صاف کرے لیکن ایسا ممکن نہ ہو گا۔ وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ کو افغانستان چھوڑنے سے پہلے سیاسی حل نکالنا چاہیے تھا لیکن وہ اس کے بغیر ہی افغانستان چھوڑ گیا جس سے خطے میں مسائل گھمبیر ہو گئے جس کی گتھی سلجھنے کی بجائے الجھتی جا رہی ہے۔
میں تو اس سوچ کا داعی ہوں کہ افغانستان کو کسی کٹھ پتلی حکومت کی بجاے افغان عوام کی منتخب کردہ حکومت کے حوالے کیا جاے۔ 40 سال جنگ میں گزارنے کے بعد افغان عوام کو تباہی کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ اب طالبان سمیت تمام دھڑوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ امن ہی ترقی کی گارنٹی ہے۔ تباہ شدہ شہر بھی آباد ہو جائیں گے، معیشت بھی پاؤں پر کھڑی ہو جاے گی، تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر بھی بحال ہو جاے گا لیکن اس کی شرط امن اور تمام فریقوں کا اپنے وطن افغانستان کے لیے یک جہتی کا اظہار کرنا ہو گا۔ پرانے فتنے فساد بھولنے ہوں گے، سب کو جینے کا حق دینا ہو گا اور سب سے بڑھ کر بیرونی دنیا پرانحصار کی بجائے اپنے مسائل مل بیٹھ کر حل کرنا ہوں گے تب ہی دنیا بھی مدد کے لیے آگے آئے گی۔
اقوام عالم، پاکستان سمیت تمام پڑوسیوں نے افغانستان میں افغان عوام کی مرضی کی حکومت کی بات کی ہے۔ اب افغان طالبان اور دیگر دھڑوں کو چاہیے کہ ایسا سیاسی اور حکومتی نظام وضع کریں جس پر سب فریق راضی ہو جائیں۔ پاکستان پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ افغانستان میں امن کے حصہ دار ہوں گے افرا تفری اور جنگ کہ نہیں اور سب سے بڑھ کر افغانستان میں ان کا پسندیدہ کوئی نہیں بلکہ جس کے سر پر افغاب عوام تاج حکمرانی سجائیں گے وہی سب کو قبول ہو گا۔
آنے والی افغان حکومت اورطالبان کو بھارت کے شر سے بھی بچنا ہو گا۔ کیونکہ خطے میں بھارت کی سیاست کی اساس شر پر ہے۔ بھارت کی پاکستان دشمنی توروز روشن کی طرح عیاں ہے۔ پچھلی دہائی میں اس نے جس طرح افغانستان کی سرزمین پر بیٹھ کر پاکستان کے خلاف کارروائیاں کیں وہ بھی سب پر عیاں ہے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیں اب بھارت کی پہنچ افغانستان ایمبیسی تک محدود ہو چکی ہے۔ لیکن اس کے شر پھیلانے کی عادت پر افغان حکومت اور طالبان کو بھی نظر رکھنی ہو گی۔ بھارت افغان متحارب گروپوں کے اختلافات کو ہوا دینے کے علاوہ فرقہ واریت بھی پھیلا سکتا ہے۔ عین اس طرح جیسے اس نے وطن عزیز میں بی ایل اے و دیگر علاقائی جتھوں کو مسلح کر کے ریاست پاکستان کے خلاف فساد بپا کیے رکھا۔ اس کے علاوہ فرقہ واریت کو ہوا دے کر پاکستان میں کشت و خون کا بازار گرم کیے رکھا۔
چین کی دلچسپی بھی افغانستان میں بڑھ رہی ہے لیکن یہ دلچسپی ترقی اور تعمیر نو کے لیے ہے۔ سی پیک اس کی ایک عمدہ مثال ہے افغان صوبے بدخشاں میں چین پہلے ہی انفرا سٹرکچر کی تعمیر میں مصروف ہے۔ طالبان وفود چین اور روس کا دورہ کر چکے ہیں۔ چین نے یقین دلایا ہے کہ وہ افغانستان کی تعمیر نو میں افغان عوام کا ساتھ دے گا۔ برطانیہ، یورپ، مسلم ممالک، روس اور امریکہ بھی نئے افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ دار بننے کو تیار ہیں۔ لیکن اس سب کے لیے امن پہلی شرط ہے اور اس کے لیے طالبان اور افغان دھڑوں کو ایک پیج پر آنا ہو گا۔
قطر اور سعودی عرب کا افغانستان حکومت پر خاصا اثر رسوخ ہے اور اب بھی وقت ہے کہ امریکہ کی طرح افغانستان سے فرار کی بجاے اشرف غنی حکومت اور دوسرے دھڑے کوئی درمیانی رستہ نکالیں اور افغانستان کو خانہ جنگی سے بچائیں۔ اپنے اقتدار کی بجاے اپنے عوام کا سوچیں اور ایک ”نیا افغانستان“ بنانے کے لیے حصہ دار بنیں۔ ورنہ ان کے آقا امریکہ بہادر تین ہزار فوجیوں کے حصار میں بچے کچھے امریکیوں کو لیجانے کے لیے آن پہنچا ہے۔ اور پھر وہی ہو گا جو طالبان کہیں گے۔ اللہ رحم کرے۔ آمین
قارئین اپنی رائے کے اظہار کے لیے اس نمبر 03004741474 پر وٹس ایپ، سگنل، بی آئی پی یا ٹیلیگرام کر سکتے ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.