سیاست کے کرشمے اور مڈل مین

173

میاں نواز شریف کی برطانوی ہوم آفس سے لندن میں اپنے قیام میں توسیع سے متعلق درخواست نامنظورہونے کی خبر سے پورے پاکستان میں جو شور مچا ہے اس ردعمل سے کم از کم ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کا نام اب بھی حکومتی ایوانوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے اگر وہ سیاسی طور پر بے دست و پا ہوچکے ہوتے جیسا کہ حکومتی ترجمانوں کامؤقف ہے تو ایسی صورت میں ان کی ذاتی نوعیت کی درخواست رد ہونے پر پورے پاکستان کا سیاسی معمول معطل نہ ہوتا۔ اس سے کم از کم اتنا ثابت ہوتا ہے کہ وہ اب بھی ایک سیاسی طاقت ہیں بلا لحاظ اس حقیقت کے کہ انہیں پاکستانی عدالتوں نے بدعنوانی کے الزام میں سزا سنائی ہے اور وہ ضمانت پر رہائی کے بعد بغرض علاج لندن گئے تھے۔ حکومتی حلقے جتنی شدو مد سے ان کی واپسی کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ آخر کار نومبر 2019ء میں حکومت نے انہیں کیونکر جانے دیا تھا۔ حکومت کا ’’کسی کو NRO نہیں دوں گا‘‘ والا مؤقف حقیقت میں پاش پاش ہو چکا ہے جس پر ترجمانوں کا مؤقف ہمیشہ معذرت خواہانہ ہوتا ہے۔ 
میاں نواز شریف کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف اپیل کا مرحلہ شروع ہو چکا ہے لندن میں ایک نئی قانونی جنگ کا آغاز ہونے والا ہے جس کا فیصلہ ہونے میں ڈیڑھ سے 2 سال کا عرصہ لگ جائے گا یہ پاکستان میں عین وہ وقت ہو گا جب عام انتخابات کا بگل بج چکا ہو گا اور ایک دفعہ پھر نواز شریف کے مستقبل کا فیصلہ ان کی پارٹی کی الیکشن 2013ء میں پرفارمنس فیصلہ کرے گا۔ اسی اثناء میں نومبر 2022ء میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت توسیع بھی ختم ہو جائے گی اور نئے انتخابات سے قبل نیا آرمی چیف تعینات ہو چکا ہو گا جس سے قومی سیاسی منظرنامے پر تبدیلی کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اگر ن لیگ متحد رہی تو یہ پارٹی میاں نواز شریف کی خود ساختہ جلا وطنی کے باوجود اب بھی ایک فیصلہ کن طاقت کی مالک ہے یہ الگ بات ہے کہ شہباز شریف اور مریم نواز کے بیانات میں اقتباس اور لب و لہجے دونوں میں خاصا واضح فرق پایا جاتا ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ میاں صاحب کی طرف سے شہباز شریف کی بجائے شاہد خاقان عباسی کو صدارت سے ہمکنار کرنا بھی ایک حقیقت ہے۔ شاہد خاقان عباسی کے بیانات نواز شریف کے مؤقف سے زیادہ قریب ہوتے ہیں جبکہ شہباز شریف مفاہمت کی بات کرتے ہیں۔ اقتدار سے محرومی، جیل اور جلا وطنی جیسے تکلیف دہ اور رسوا کن حالات کے باوجود نواز شریف ابھی تک مزاحمت کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں اگر وہ اپنے لہجے کی تلخی میں کمی لے آتے تو شاید ان کی سختیوں میں کمی آجاتی۔ جہاں تک عوام کی بے  پناہ حمایت کی بات ہے تو آزاد کشمیر انتخابات میں سب سے بڑے جلسے ن لیگ کے ہوتے تھے لیکن رزلٹ میں وہ تیسرے نمبر پر آئے ہیں آنے والے عام انتخابات کے لیے انہیں کشمیر الیکشن کے نتائج کو مدنظر رکھنا ہو گا کہ ووٹ ڈالے کہاں جاتے ہیں اور وہ نکلتے کہاں سے ہیں۔ یہاں پر ن لیگ کے لیے ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر میاں نواز شریف لندن جانے کی بجائے جیل میں رہنے کو ترجیح دیتے تو شاید اب تک حالات کی حمایت میں کھیل کا پانسہ پلٹ چکا ہوتا۔ پی ڈی ایم کی ناکامی کوئی چھوٹا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے اپوزیشن کو بڑا شدید دھچکا پہنچا ہے جس کے اثرات ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ 
پی ڈی ایم کے قیام سے کسی نے فائدہ اٹھا ہے تو وہ پاکستان پیپلزپارٹی ہے۔ انہوں نے طاقت کے مراکز کے ساتھ اپنی صفیں درست کر لی ہیں اور اس وقت حکمران پی ٹی آئی کے سامنے پیپلزپارٹی اپنے آپ کو متبادل قیادت یا مستقبل کی حکمران کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ اس وقت حاکمیت کے بڑے بڑے شیوخ و امام یہ سوچ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی جس قدر تیزی سے اپنی مقبولیت کھو رہی ہے، انتخابات میں اس کی اقتدار سے رخصتی فطری تقاضا ہے۔ اگر یہ تقاضا فطری طریقے سے پورا ہوا تو اگلا الیکشن ن لیگ کا ہے۔ 
پاور پالیٹیکس میں غلط اور صحیح نہیں دیکھا جاتا ووٹ بینک دیکھا جاتا ہے۔ بدترین بدعنوانی کے الزامات کے باوجود پیپلزپارٹی سندھ میں ہر دفعہ کیوں جیت جاتی ہے ۔ یہ پاکستانی سیاست کے رنگ ہیں آپ نے دیکھا ہو گا کہ کرپشن کے تمام تر الزامات کے باوجود پنجاب میں ن لیگ کے ووٹ بینک میں کمی نہیں آئی بلکہ موجودہ حکومت کی عدم پرفارمنس اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے نتیجے میں حکومت سے مایوس ہونے والا ووٹر آہستہ آہستہ واپس ن لیگ کی طرف جا رہا ہے جو کہ نواز شریف کے ووٹ بینک میں ہونے والا آٹو میٹک اضافہ ہے۔ 53 رکنی ٹائی ٹینک سائز کی کابینہ جس میں 42 فیصد غیر منتخب چہرے اور اس کے علاوہ وزیر کے برابر مراعات لینے والے 39 پارلیمانی سیکرٹری ہماری حالیہ تاریخ کی بھاری بھر کم ترین کابینہ ہے۔ درجن بھر وزراء کرپشن کی وجہ سے نکالے جا چکے ہیں اور وزارت سے سبکدوشی کے علاوہ کوئی سزا نہیں دی جاتی یہ ساری چیزیں عوام کے اندر ایک لاوے کی طرح پک رہی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم قبل از وقت انتخابات کا رسک لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں حالانکہ ان کا مؤقف یہ تھاکہ حکومت کی مدت 4 سال ہونی چاہیے۔ 
بات کسی اور طرف نکل گئی۔ ہم کہہ رہے تھے کہ متبادل حکمرانی کے لیے پیپلزپارٹی کو آگے لایا جا رہا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ن لیگ کے جنرل عبدالقادر بلوچ نے جب پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا تھا تو اس وقت میڈیا میں یہ خبر تھی کہ جنرل صاحب ریٹائرڈ ضرور ہیں مگر انہوں نے فوج میں اپنے دوستوں کے کہنے پر ن لیگ کو چھوڑا ہے۔ اب وہی عبدالقادر بلوچ پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کر چکے ہیں۔ پتہ نہیں اس فیصلے میں انہیں کس کی مشاورت حاصل ہے۔ اسی طرح ن لیگ کے ایک اور ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم خان بھی پارٹی سے گوشہ نشینی اختیار کر گئے ہیں۔ اس وقت PPP ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اگلے کچھ عرصے میں پیپلزپارٹی پنجاب سے کافی سارے Electables کو ساتھ ملانے یا واپس لانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس وقت جہانگیر ترین اور پیپلزپارٹی کے درمیان پل کی تعمیر پر کام جاری ہے۔ Electables ہماری قومی سیاست کا وہ مڈل مین ہے جو اونے پونے عوام سے ووٹ خر ید کر آگے سونے کے بھاؤ بیچتا ہے یہ سب جانتے ہیں۔ بہر حال بلاول بھٹو کے لیے راہیں کھل رہی ہیں۔ اگر میاں نواز شریف نے اپنا انداز فکر نہ بدلا اور دیگر حالات بدستور رہے تو سیاست کے ماہرین فلکیات کی  بات درست ہو سکتی ہے بشرطیکہ میاں نواز شریف کوئی جدہ جیسا معجزہ پھر سے برپا نہ کردیں یہ ان کی سیاست کا کرشمہ ہے۔

تبصرے بند ہیں.