عرب وعجم کے فاتح فاروقِ اعظمؓ

208

سیدنا عمربن خطاب ؓ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں نبی کریم ؑ سے جاملتا ہے آپؓ کی کنیت ابوحفص اور دربارِ رسالت سے لقب فاروق عطا ہوا یعنی کفر اور اسلام میں امتیاز رکھنے والا۔حضرت ابراہیمؑ کی دعا سے امامِ خاتم الانبیا ؑ معبوث ہوئے۔ کفار کی سازشوں اور مظالم کے توڑ کے لیے آپؓ کو رحمت العالمین ؑ نے اپنے رب سے دعا کے ذریعے مانگا تاکہ اسلام کو تقویت ملے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ تمام صحابہ اکرامؓ مریدِ رسولؑ ہیں لیکن فاروق اعظم ؓ مرادِ رسولؑ ہیں یہ مقام و مرتبہ وفضیلت حضرت عمرفاروقؓ کے سوا کسی کو حاصل نہیں کہ خاتم النبین ؑ نے دعاکی ہو کہ اے معبودِ برحق،عمرو بن ہشام یا عمر بن خطاب سے اسلام کو قوت عطافرما۔اِس دعا کی قبولیت سے آپؓ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور مسلمانوں نے پہلی بار حرم کے صحن میں نماز ادا کی آپؓ کانام نامی اسم گرامی عشرہ مبشرہ (جنھیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی گئی) میں شامل ہے۔حضوراکرم ؑ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ میں نبوت کی آنکھ سے دیکھ رہا ہوں کہ جن کے شیطان اور انسانوں کے شیطان دونوں میرے عمرکے خوف سے بھاگتے ہیں۔کوئی بھی محنت و ریاضت،تقویٰ وپرہیز گاری سے ولی تو بن سکتا ہے لیکن نبی بننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن مکی ومدنی آقاؑ نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد اگر نبوت کا سلسلہ جاری رہتا تو عمرفاروق کو کو یہ فضیلت ملتی لیکن میں خاتم النبیین ہوں اِس لیے میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
مرادِ رسولؑ اور شہیدِ محراب حضرت فاروق اعظم علم الانساب تھے آپؓ شہ زوری اور گھڑ سواری میں طاق تھے آپ ؓ کاشمارقریش کے چند ایسے افراد میں ہوتا ہے جو نہ صرف لکھنا پڑھنا جانتے تھے بلکہ فنِ خطابت کے بھی ماہر تھے آپ کا ذریعہ معاش تجارت و زمینداری رہا لیکن آمدن کا زیادہ تر حصہ غریبوں،مسکینوں،مسافروں اور ضرورت مندوں پر خرچ کر دیتے آپؓ قبولِ اسلام کے بعد تمام غزوات میں شریک ہوئے اور جرات وبہادری کے جوہر دکھائے گندمی رنگ،گھنی داڑھی اور بڑی مونچھوں کی بنا پر آپؓ کی شخصیت میں رعب ودبدبہ تھا معاملہ فہمی و دور اندیشی کی وجہ سے قریش کی طرف سے آپؓ سفارتکاری کے مرتبے پر فائز رہے۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں بھی اسلام کے فروٖ غ اورغلبے کے لیے حضرت عمرفاروق ؓ نے بہت کام کیا آپؓ کا بطور خلیفہ انتخاب خفیہ رائے شماری سے ہوا جب چند صحابہ نے حضرت عمرؓ کے سخت مزاج کی بابت عرض کی اور کہا کہ خلیفہ اگر سخت مزاجی پر قابو نہ رکھ سکے توکوئی سانحہ بھی ہو سکتا ہے جواب میں حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ عمر کی سختی میری
نرمی کی وجہ سے ہے جب ساری ذمہ داری تنہا اُن کے کندھوں پر ہوگی تو جلال پر رحمدلی غالب آجائے گی ایک دفعہ آپؓ دربار ختم کرکے گھر تشریف لائے اور گھریلو کام کاج میں مشغول تھے کہ ایک شخص نے آکر عرض کی کہ اے امیر المومنین فلاں شخص میراحق نہیں دے رہاآپؓ دلوادیں جس پر آپؓ کوبے حد غصہ آیا اور سائل کی پیٹھ پر درا مارتے ہوئے کہا کہ دربار کے وقت معاملات کیوں نہیں لیکر آتے بعد میں کام لیکر آ جاتے ہو لیکن غلطی کا احساس ہوا تو پریشانی نے آگھیرا فوری سائل کو دوبارہ بلوایا اور درا پکڑا کر کہا کہ میری پیٹھ پر مارکر بدلہ لے لو جب درا مارنے کی بجائے معاف کردیا گیا تو آپؓ نے کہا کہ قیامت کے روز اپنے اعمال کا میں نے خود جواب دینا ہے اِس لیے میں بدلہ کا اُدھار نہیں رکھنا چاہتااور دنیا میں ہی مجھ سے اپنا بدلہ لے لو ایسی انصاف کی مثالیں کسی غیر معاشرے میں آج بھی ڈھونڈے سے نہیں ملتیں لیکن عرب وعجم کے فاتح نے انصاف کرتے ہوئے نہ تو کسی میں تفریق روا رکھی اور نہ ہی مقام و مرتبہ پیشِ نظر رکھابلکہ انصاف کے اصولوں کے عین مطابق فوری انصاف کیا حضرت سعدؓ نے حضرت صہیبؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ کا ارشادِ مبارک ہے کہ نہیں ہے کوئی نبی ایسا کہ جس کے دووزیرآسمان والوں اور دووزیر زمین والوں سے نہ ہوں میرے آسمانی وزیر جبرائیل اور میکائیل ہیں جبکہ زمین والوں میں سے حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ ہیں۔
فتوحات کے حوالے سے تاریخ میں ہزروں جرنیل ملتے ہیں لیکن فاروق اعظم ؓجیسے فاتح کے سامنے سبھی طفلِ مکتب معلوم ہوتے ہیں آپؓ بائیس لاکھ اکاون ہزار مربع میل سے زائد زمین پر حکومت کی مگر صبر و قناعت اتنی کہ سوتے ہوئے سرکے نیچے اینٹیں رکھ لیتے لباس پیوندوں سے بھرا ہوتا سفر کرتے ہوئے آدھا راستہ خود سواری کرتے اور آدھا راستہ غلام کو بٹھا دیتے حکمرانی میں ازحد انصاف پرور اور خداترس حکمراں تھے انھوں نے فتح کے لیے بے جا خون بہانے سے احتیاط کی اور مفتوحہ علاقوں کی کثرت کی بجائے تربیت کرنے پر توجہ دی دمشق، ایران۔مصر۔بصرہ، عراق، انطالیہ، حلب،بیت المقدس،نیشاپور، اُردن، یرموک، قادسیہ آپؓ کے دورمیں ہی فتح ہوئے آپؓ کے دور میں 3600 کے قریب علاقوں کو فتح کر کے اسلامی ممکت کو توسیع کی گئی اور پھر تعلیم وتربیت کے مراکز بنائے روٹی،کپڑا اور مکان جیسی بنیادیں ضرورتیں لوگوں کی دہلیز تک پہنچائیں عوام الناس کی شکایات سُننے کے لیے کُھلی کچہریاں شروع کرائیں اور فوری انصاف کو یقینی بنایاانسانی حقوق کے حوالے سے اُن کا دور آج بھی متمدن دنیا کے لیے باعثِ رشک ہے۔
فلاحی نظام اور انسانی حقوق کے حوالے سے عرب وعجم کے فاتح خلیفہ دوم کا دوردنیا کے لیے مشعل راہ ہے آپ نے نمازِ تراویح کا باقاعدہ سلسلہ شروع کرایا اور شراب نوشی پر سزا مقرر کی سنہ ہجری کا آغاز بھی آپؓ کے دور سے ہوا مساجد میں روشنی اور امام کی تنخواہ لگائی عدالتی نظام کے ساتھ قیدیوں کے لیے جیل کا تصور دیا دودھ پیتے بچوں معذوروں اور بیواؤں کے لیے وظائف کا اجرا کیا آبپاشی کا نظام بنایا فوجی چھاؤنیاں بنانے کے ساتھ فوج کا محکمہ قائم کیا آپؓ کا دورِ خلافت دس برس،چھ ماہ اور چاردن ہے اور یکم محرم الحرام کو نمازِ فجر کے دوران ابو لولوفیروزنامی ایک مجوسی نے زہر میں بجھے خنجر کے پے درپے وار کر کے زخمی کر دیا لیکن آپؓ نے گرتے وقت حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا بازوپکڑکر مصلیٰ پر کھڑا کر دیا اورخود بھی اشارے سے نماز ادا کی آپؓ کی تدفین اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی اجازت سے حضورِ اکرمؑ کے پہلو میں ہوئی آپ نے ساری زندگی حبیبِ خداؑ کی قربت میں گزاری اوریہ قرب شہادت کے بعد بھی قائم رہی۔

تبصرے بند ہیں.