نوازشریف نہیں ملک کی فکر کیجیے

196

میاں نوازشریف کو ان کے بقول اور ان کی جماعت کے سینئر لیڈروں اور مشیروں کے مطابق مزید علاج کرانے کی خاطر برطانیہ میں قیام کی مدت بڑھانے کی درخواست پر برطانوی محکمہ داخلہ کی جانب سے ویزے میں توسیع دینے پر معذرت کر لی گئی ہے…… تاہم ان کے پاس امیگریشن ٹریبونل اور ہائی کورٹ وغیرہ میں اپیلیں دائر کرنے کے مواقع موجود ہیں …… انہوں نے محکمہ داخلہ کے پاس درخواست مسترد ہونے کے فوراً بعد اسی کے فراہم کردہ قانونی استحقاق کے مطابق فوری طور پر امیگریشن ٹریبونل کے سامنے اپیل دائر بھی کر دی ہے جس کا مطلب ہے آگے جا کر اگر انہیں حتمی طور پر ویزہ میں توسیع سے انکار کر دیا جاتا ہے تو بھی قانونی طور پر تقریباً سال بھر کا عرصہ برطانیہ میں گزار سکتے ہیں مگر ان کے وکلا کے مطابق ایسے کسی حتمی انکار کے امکانات کم ہیں اور نوازشریف کسی اگلے مرحلے پر اپنی اپیل اور لندن میں مزید قیام کی خواہش کو بارآور ہوتا دیکھ سکتے ہیں …… اگر حکومت پاکستان بھی اس قانونی کارروائی میں ملوث ہوئی اور نوازشریف کے دعوے کو اس نے چیلنج کیا تو وزیراعظم عمران خان سمیت ان کے تمام وزراء اور ترجمانوں کی جانب سے بار بار دہرائے گئے مؤقف پر مبنی وہاں بھی یہ مقدمہ پیش کیا گیا کہ نوازشریف جھوٹ بول کر برطانیہ آئے تھے اور یہاں کوئی علاج نہیں کرا رہے تو انہیں برملا اقرار کرنا ہو گا کہ نومبر 2019 کو تین مرتبہ منتخب ہونے والے لاہور کے ہسپتال میں قیدی کی حالت میں زیرعلاج سابق وزیراعظم کو پاکستان چھوڑنے کی اجازت اس کے تمام اور مستند ترین سینئر سرکاری ڈاکٹروں کے اور خود وزیر صحت پنجاب محترمہ یاسمین راشد کے جاری کردہ ان کے شدید بیمار ہونے کے سرٹیفکیٹ اور گواہیاں جھوٹی تھیں۔ ان سب انتہائی اعلیٰ درجے کے پاکستانی ماہرین طب نے ایک سابق برطرف شدہ معتوب اور قید میں بند وزیراعظم کے لئے اپنے پیشے کی تمام تر اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صریحاً غلط بیانی سے کام لیا اور یہ کہ یہ سب نوازشریف کے ساتھ مل کر دھوکہ دہی کی واردات میں ملوث تھے…… اس سے مہذب کیا اچھی بری ہر طرح کی دنیا کے اندر پاکستان امیج کس حد تک مجروح ہو گا اور جس ناکام ترین خارجہ پالیسی کے دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں اور پاکستانی حکمرانوں کی ساکھ پہلے سے ہی منفی طور پر متاثر ہو چکی ہے۔ اس کا کیا بھرم باقی رہ جائے گا…… اگر حکومت پاکستان نے اپنے آپ کو اس مقدمے میں نہ بھی ملوث کیا تو نوازشریف خود ہی اپنی اپیل کی اثابت منوانے کے لئے پاکستان کے اپنی اپنی طبی مہارت کے لحاظ سے عالمی طور پر تسلیم یافتہ سرکاری ڈاکٹروں کے سرٹیفکیٹ اور بیانات پیش کر سکتے ہیں اور ظاہر ہے قیامِ لندن کے دوران اگر وہ کسی ہسپتال میں باقاعدہ داخل نہیں ہوئے تو کسی نہ کسی مقامی برطانوی ڈاکٹر کے پاس زیرعلاج ہوں گے اس کی گواہی بھی ان کے مقدمے کے حق یا مخالفت میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے لہٰذا جہاں ہوم ڈیپارٹمنٹ کے تازہ ترین فیصلے نے سابق اور برطرف شدہ پاکستانی وزیراعظم کے لئے کچھ مشکلات پیدا کر دی ہیں وہیں عمران خان حکومت جس کے وزراء جو اپنے سب سے بڑے سیاسی رقیب کے بارے میں یہ خبر سن کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے اور ٹیلی ویژن سکرینوں پر آ کر مسلسل ڈگڈگیاں بجا رہے ہیں ان کے لئے بھی جوں جوں اعلیٰ برطانوی عدالتوں میں اپیلوں کی کارروائی آگے بڑھے گی مشکل صورت حال کا سامنا کرنا اور اس سے متعلقہ سوالوں کے جواب دینا آسان نہیں ہو گا……
ان دنوں ہمارے اخبارات کے صفحات اور ٹیلی ویژن چینلوں پر ملک کے بلند پایہ دانشوروں اور شہرت کے حامل تجزیہ نگاروں کے درمیان یہ
بحث بھی چھڑی ہوئی ہے کیا نوازشریف کے سخت ترین بیانیے یا آئین کی بالادستی اور خالص پارلیمانی جمہوریت کا تسلسل منوانے کے مؤقف کے ساتھ مسلم لیگ (ن) اگلا انتخاب جیت سکتی ہے اور کیا چھوٹے بھائی اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا تجویز کردہ مفاہمت کا راستہ اس کے لئے عملی نتائج کے حوالے سے مفید ثابت نہ ہو گا اور کیا میاں شہباز کے بیانیے کو اپنا کر اس جماعت کا دوبارہ برسراقتدار آنا ممکن نہ ہو جائے گا…… اس بحث میں جو بڑے زوروشور کے ساتھ جاری ہے نوازشریف کے بیانیے کے حامیوں اور اس پر تنقید کرنے والے صاحبانِ قلم و بیان کی جانب سے یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ میاں نوازشریف کو ہر لحاظ سے چوتھی مرتبہ پاکستان کا وزیراعظم بننا چاہئے…… خواہ اس کی خاطر اپنے مؤقف میں اتنی پسپائی اختیار کرنی پڑے یا غیرآئینی طور پر طاقتور ترین عسکری اسٹیبلشمنٹ کی شرائط پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے سمجھوتہ کرنا پڑے…… اگر اصل مقصود نوازشریف ہی کو برسراقتدار لانا ہے تو ان باتوں پر یقینا غور کیا جا سکتا ہے…… مگر کیا ہمارے ملک کا حتمی مفاد اسی میں ہے ہم اپنی 75 سالہ تاریخ کے دوران آئے دن جس بحران کی زد میں آ جاتے ہیں اور ایک دریا کو پار کرتے ہی اسی طرح کے دوسرے دریا کی موجوں سے جا کر لڑنا شروع کر دیتے ہیں اور مسلسل ہچکولے کھاتے رہنے کی وجہ سے ہماری کشتی کے سفر کی منزل متعین نہیں ہو پاتی اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے اور ایک خاص شخص کو ہر حالت میں چوتھی بار وزیراعظم بن جانے کا مشورہ دیتے رہنا چاہئے…… کیا ہمیں درپیش لاینحل قومی مسائل کے حل نہ ہونے اور قومی یکسوئی حاصل نہ کر پانے ایک اور بنیادی وجہ یہ نہیں کہ زیادہ تر انتخابات کے نتائج کا بیلٹ پیپر پر گنتی سے پہلے ہی کسی اعلیٰ اور گہری ریاستی سطح پر فیصلہ کر لیا جاتا ہے پھر زیادہ تر سیاسی جماعتیں اور لیڈر انہیں مسترد کر دیتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ان نتائج کو درست صرف وہی لیڈر اور ان کی جماعت مانتے ہیں جن کے سر پر وقتی طور پر کامیابی کا سہرا سجا دیا جاتا ہے…… یہ صورت حال ہمارے ملک میں بحران در بحران پیدا کرتی ہے…… ظاہر ہے اس کا ذمہ دار نوازشریف کا بیانیہ نہیں پاکستان کی ریاست کو چلانے کی خاطر طے شدہ Rules of Games کی پامالی ہے جو ہر موقع پر طاقتور حلقوں کی جانب سے کی جاتی ہے اور اقتدار کے لالچی چند سیاستدان بالادست قوتوں کا آلہ کار بن کر ان کے مہرے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں …… آپ بھلے نوازشریف کا بیانیہ نہ مانیں اس کے چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے یا اس کی جماعت کے تمام آئینی و پارلیمانی اختیارات کے ساتھ پھر برسراقتدار آنے کے امکانات کو بھی پس پشت ڈال دیں لیکن خدارا اپنے ملک اور قوم کے بہترین مفاد کی خاطر اتنا تو کر لیجیے کہ آئینی حدود و قواعد کی پابندی کرتے ہوئے آزادانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد لازمی بنا دیں اور اس کا یقین حاصل کر لیں کہ نتائج پر آئینی لحاظ سے کوئی غیرمجاز قوت خفیہ یا ظاہری طور پر اثرانداز نہ ہونے پائے یوں حقیقی معنوں میں کامیاب وہی سیاسی جماعت ہو جس کے امیدواروں کے حق میں بغیر کسی پیشگی بندوبست اور بیرونی دباؤ کے خوشدلی کے ساتھ ووٹ ڈالے جائیں …… یہ مناظر دیکھنے کو نہ ملیں جس کے جتنے بڑے جلسے ہوں اسے بیلٹ بکس میں اتنے ہی کم تناسب کے ساتھ ووٹ پڑیں اور جتنے ووٹ اسے ملیں اس کی جماعت کی نشستوں کی تعداد اتنی ہی کم ہو…… اس کے بعد طاقتوروں کے اثرورسوخ کے زیرسایہ جوڑتوڑ کا تڑکہ لگا کر حکومتیں بنائی جائیں …… حق یہ ہے ہم نے ووٹ کو عزت نہ دے کر اپنے اکثریتی آبادی والے صوبے مشرقی پاکستان کی جبری علیحدگی کو قبول کر لیا اور آج بھی ملک جس حالت کو پہنچا ہوا ہے کہ امریکہ تو طوطا چشم ہے ہی سعودی عرب اور چین جیسے برے حالات میں ساتھ نہ چھوڑنے والے ملک بھی ہمیں گھاس ڈالنے کو تیار نہیں مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکال کر رکھ دی ہیں ……بے روزگاری کا چلن عام ہے…… اور اسلام آباد جیسا دارالحکومت جو کبھی وطن عزیز کا سجا سجایا ڈرائنگ روم ہوتا تھا وہاں کی بظاہر بہت زیادہ پڑھی لکھی اور خوشحال سوسائٹی کے افراد میں خواتین کے ساتھ نورمقدم کی طرح اس طرح جبری اور جنسی تشدد کیا جاتا ہے کہ وہ ایک نیم پاگل امیرزادے کے ہاتھوں ظالمانہ طور پر قتل کا شکار ہو کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے اسی پر اکتفا نہیں لاہور جیسے علمی و تہذیبی روایات کے امین شہر میں جو کبھی سیاسی لحاظ سے ملک کے حکمرانوں کا مضبوط تر قلعہ ہوتا تھا وزیراعلیٰ پنجاب اپنے ایک چہیتے ایم پی اے کے جسے وہ دوبارہ وزیر بنانے والے تھے بیٹے کے ولیمے پر گئے وہاں سے فارغ ہو کر شادی والے فارم ہاؤس سے نکلے ہی تھے کہ انہیں الوداع کہنے والے میزبانوں پر قاتلوں کی گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی…… میزبان اور چہیتے ایم پی اے کا سگا بھائی زخموں کی تاب نہ لا کر ہسپتال پہنچنے سے پہلے دم توڑ گیا یوں عام آدمی کیا پنجاب جیسے طاقتور صوبے کے وزیراعلیٰ کی سکیورٹی ایک بڑا سوالیہ نشان بن گئی ہے جبکہ قومی بحران ہے کہ گہرے سے گہرا تر ہوتا جا رہا ہے اور سر پر افغانستان کا لاینحل مسئلہ اٹکا ہوا ہے…… اس تناظر میں آپ نوازشریف کے بیانیے کو بڑے شوق کے ساتھ مسترد کر دیجیے اس کی فکر نہ کیجیے وہ چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنتا ہے یا نہیں اپنے ملک اور قوم کی بھلائی کا تو سوچئے…… آئینی و جمہوری نظام کو سبوتاژ کر کے رکھ دینے والے موجودہ حالات ہمیں کسی اندھے گڑھے میں لے جا کر گرا دیں گے……

تبصرے بند ہیں.