کراچی: ملازمین نے اپنے ہی بینک کو کروڑوں کا چونا لگا دیا، تمام ملزم گرفتار

239

 

 

کراچی: شہر قائد میں قائم نجی بینک کے ملازمین نے اپنے ہی بینک کو لگ بھگ 75 کروڑ کا چونا لگا دیا ہے۔ پولیس نے ملازمین کیخلاف خورد برد اور غبن کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔

 

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ یہ ملازمین جے ایس بینک کی گلشن اقبال اور گلستان جوہر برانچوں میں کام کرتے ہیں۔ ان کیخلاف دو مختلف تھانوں میں مقدمات درج کر لئے گئے ہیں۔ جنرل منیجر ذوالفقار علی عابدی اور ڈپٹی منیجر ریحان احمد یوسفی کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ ان مقدمات میں 12 بینک 8 ملازمین اور خاتون سمیت 11 جعلی کسٹمرز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

 

بینک فراڈ کا معاملہ رواں ماہ 2 گست کو کئے گئے آڈٹ کے دوران سامنے آیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آڈٹ کے دوران بینک کھلوائے گئے زیورات کے پچاس سیل شدہ بیگ کھولے گئے تو پتا چلا کہ وہ سب جعلی ہیں۔

 

پولیس میں درج مقدمات میں کہا گیا ہے کہ ان نقلی زیوروں کے عوض گلستان جوہر برانچ سے اٹھائیس کسٹمرز کو 55 کروڑ روپے کا قرضہ جاری کیا گیا ہے۔

 

اس جعل سازی کے مقدمے میں بینک ملازمین پر اصلی زیورات کو تبدیل کرنے اور امانت میں خیانت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

 

مقدمے میں کہا گیا ہے کہ عائشہ مرزا نامی خاتون کسٹمر نے بینک ملازمین کیساتھ ملی بھگت کرکے پیسے وصول کئے تھے۔

 

بعد ازاں رواں ماہ 4 اگست کو اس قسم کا ایک مقدمہ تھانہ عزیز بھٹی میں بھی درج کیا گیا تھا جس میں 11 کسٹمروں پر جعلی زیوروں کے عوض بیس کروڑ چالیس لاکھ روپے قرض لینے کا الزام لگایا گیا۔

 

تھانہ عزیز بھٹی میں بھی درج مقدمے کے متن میں کہا گیا ہے کہ آڈٹ کے دوران جب سیل شدہ بیگوں کو کھولا گیا تو اس میں موجود زیورات بھی جعلی تھے۔ اس معاملے کی مزید تحقیق کی گئی تو جن افراد کو یہ بھاری قرضہ دیا گیا وہ بھی سب کے سب جعلی ہی تھے۔

 

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مقدمات درج کرکے اس جعل سازی اور غبن کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ بینک ملازمین جون 2021 سے جعلسازی میں ملوث ہیں۔ انہوں نے بینکوں میں زیورات اور سونا رکھ کر قرض رقم حاصل کرنے کی پالیسی کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔

 

پولیس کے مطابق یہ بینک ملازمین ملی بھگت کیساتھ قرض کے حصول کیلئے سونا تو اصلی دکھاتے لیکن جب اسے سیل کرنے کی باری آتی تو اس میں نقلی زیورات ڈال دیتے۔ ان ملزموں کو ٹارگٹ سادہ لوح شہری بنتے جن سے بڑے طریقے سے شناختی کارڈ حاصل کیا جاتا لیکن انھیں قرض نہ ملتا۔

 

پولیس کی ابتدائی تفتیش میں پتا چلا ہے کہ اس تمام فراڈ معاملے کی مرکزی کردار عائشہ مرزا نامی خاتون ہے جس نے بینک کے اہم افسر عدیل کیساتھ مل کر یہ تمام کھیل کھیلا۔

 

تبصرے بند ہیں.