چیف جسٹس آف پاکستان نے خیبرپختونخواہ کی بیورو کریسی کو نااہل قرار دیدیا

237

اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے خیبرپختونخوا کی بیوروکریسی کو نااہل قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ خیبرپختونخوا کے محکمہ تعلیم کو شرم آنی چاہیے، بیوروکریسی کام نہیں کر سکتی تو گھر چلی جائے، سارا گورکھ دھندا صرف پیسہ ادھر ادھر گھمانے کیلئے ہے۔ 
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے اکتوبر 2005ءکے قیامت خیز زلزلے کے نتیجے میں خیبرپختونخوا میں تباہ ہونے والے سکولوں کی عدم تعمیر پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ تعلیم خیبر پختونخوا حکومت کی ترجیحات میں کم ترین اہمیت پر ہے، زلزلہ کے 16 سال گزرنے کے بعد بھی سکول تعمیر ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے، اربوں روپے مختص ہوئے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور جن علاقوں میں سکول بنے وہ بھی مکمل فعال نہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کہا کہ صوبے میں پورے ملک کے مقابلے میں شرح خواندگی سب سے زیادہ ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سکول تو ہیں نہیں شرح خواندگی کیسے زیادہ ہوگئی؟
خیبرپختونخوا حکومت نے سکولوں کی عدم تعمیر کا ملبہ ایرا پر ڈال دیا اور ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے موقف اختیار کیا کہ زلزلہ زدہ علاقوں کی بحالی ایرا کی ذمہ داری تھی جبکہ صوبائی حکومت کو فروری 2020ءمیں متاثرہ علاقوں کا کنٹرول ملا۔
قائم مقام چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا نے کہا کہ نشاندہی پر عدالت کا مشکور ہوں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مشکور نہ ہوں قوم سے اپنی نااہلی پر معافی مانگیں۔ دوران سماعت جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے کہ بدقسمتی سے تعلیم کاروبار بن چکا ہے اور حکومتی نااہلی کی وجہ سے تعلیم کا کاروبار پھیل رہا ہے، پرانا نظام چاہیے جہاں سب برابری سے پڑھتے تھے۔
چیف جسٹس نے خیبرپختونخوا کی بیوروکریسی کو نااہل قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ سارا گورکھ دھندا صرف پیسہ ادھر ادھر گھمانے کیلئے ہے، گورنر، سی ایم ہاؤس اور افسران کے گھر دیکھیں کیسے شاندار ہیں، ایک دن پانی بند کریں تو آپ کی چیخیں نکل جائیں گی، افسران کے گھروں سے چھتیں ہٹا دیں تو آپ کو پتہ چلے گا، افسران کے کمروں سے اے سی اور فرنیچر بھی ہٹا دینا چاہیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 16 سال سے بچے تعلیم سے محروم ہیں، خیبرپختونخوا کے محکمہ تعلیم کو شرم آنی چاہیے، بیوروکریسی کام نہیں کر سکتی تو گھر چلی جائے، افسران سمجھتے ہیں مختص شدہ پیسے ان کیلئے ہیں، کیا پشاور اور مانسہرہ کے بچوں میں کوئی فرق ہے؟ کیا ملک میں سریا، سیمنٹ نہیں ملتا؟ ملک میں پیسہ بھی ہے اور تیار چھتیں بھی دستیاب ہیں، بس نیت کا فقدان ہے ورنہ تینوں چیزوں کو یکجا کیسے نہیں کیا جا سکتا۔ 

تبصرے بند ہیں.