بندے کہاں بندوں سے لڑتے ہیں وہ تو مفادات ہوتے ہیں جو ٹکراتے ہیں 9/11بھی ایک تہذیب سے دوسری کے ٹکرانے کا نام تھا…… گزشتہ چند برس سے ”میرا جسم میری مرضی“ کا نعرہ لگانے والوں اور مشرقی تہذیب بچانے والوں میں ٹھنی ہے، دلچسپ امر یہ کہ ہر دوطبقہ فکر اپنے مؤقف کو اپنے اُس ”امیج“ کو بچانے کے لیے استعمال کررہے ہیں جو ان کے مالی استحکام کا باعث ہے، مغربی تہذیب اور روشن خیالی بیچنے والے زیادہ سے زیادہ گالیاں کھاتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ ڈالر کماتے ہیں مشرق کو بیچنے والے گردے بیچنے سے لے کر بابل کے گیت تک بیچ رہے ہیں ان کی ذاتی زندگیوں کی طرف نگاہ کرلیں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ برصغیر کی تہذیب کو بچانے کے داعی ہیں، مشرقی کہانیاں بیچنے کا معاملہ ہے یا مسلم تہذیب وتمدن سے بھی ان کا کوئی لاحقہ ہے مسلم تہذیب عربی ترکی فارسی لباس و طعام کا نام ہے یا اس کی کوئی روح بھی ہے باغ پارٹی کے بالمقابل مشرق کے داعیوں کے پاس بھی کوئی فلسفہ نہیں ……
ایک بات جو دونوں گروپوں میں مشترک ہے (مالی مفادکے علاوہ) دونوں ہی کم علم اور نظریہئ میں واضح نہیں ہیں، کس تہذیب کو مشرقی کہتے ہیں مشرق میں تو جاپانی تہذیب بھی آجاتی ہے، چائنیزبھی …… سب چینلز پر بیٹھنے اور پروگرام کا پارہ اس حدتک بڑھانے کے حیلے ہیں تاآنکہ ان دونوں پارٹیوں کا مول بھی بڑھے اور پروگراموں میں بھی برابربلایاجائے حالانکہ جس طرح کے گالی گلوچ تہذیب کی خوبصورتی کو بچانے والے کرتے ہیں اپنی مثال آپ ہے اسی طرح میرا جسم والی عورتیں بال بچوں کی پرواکیے بغیر ایسی ایسی گالی کھاتی ہیں کہ دونوں تہذیبوں سے نفرت ہوجاتی ہے مجھے لگتا ہے ہرشخص اپنی تہذیب کا خود ہی داعی ہے البتہ کچھ چیزیں مشترک ہیں جیسے”منافقت“ ماشاء اللہ خاتون اداکارہ جو ادھورے لباس میں شوز میں رقص کرتی ہیں پہلی بیوی کو فارغ کرا کر خود مشرقی بیوی بن جاتی ہیں اور شوہر کے جوتے پالش کرنے کی باتیں کرتی ہیں تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے وہ خاتون بالکل ویسی ہی ہے جیسی عورت یہاں کا مرد چاہتا ہے، اُس کے حقیقی کردار سے کسی کو لینا دینا نہیں اہم یہ ہے کہ ناچ گانے سے فارغ ہوکر شوہر پرستی کا بیان دے پورا مشرق خوش ہو جاتا ہے کہ تہذیب پر زبانی کلامی مہر لگ گئی ……
کوئی سچا بندہ یہ سسٹم بچا سکتا ہے؟ اس منافقت بھرے ماحول میں یہی بیویاں ضرورت بن چکی ہیں زبانی بیان دیتی رہیں آج کل کچھ اور ماڈرن اداکارائیں ٹی وی پر اپنے شوہر کے گن گاتی اور جو کچھ بھی ہوں میاں کی وجہ سے ہوں کہتی دکھائی دیتی ہیں، یعنی یہ سب ناچ گانا انہی کی بدولت ہے کہ ان کی طلب بس ایک مشرقی تہذیب والا بیان ہے جس سے ثابت ہو کہ بیوی باغی نہیں ہوئی کنٹرول میں ہے، فلمی اور ان کے پس منظر والے طبقے نے یہ مسئلہ یوں حل کیا کہ فلم کے لیے تیار ہونے والی اداکارہ کا کم سنی میں ایک نکاح کسی سازندے سے کرادیا اس کے بعد خاتون کے باغی ہونے کی یعنی محبت میں بھاگ جانے کی راہیں چنداں مسدود ہوگئیں کہ شادی شدہ عورت کو بھگانا زیادہ بڑا قانونی ”پاپ“ ہے۔
ایسی دوغلی عورت کیوں جنم لیتی ہے؟ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی Demand & Suplyکے رول Rollکے مطابق تب تک تخلیق نہیں جنم لیتی جب تک اس کی ضرورت جنم نہ لے۔ ……
میں نے اپنی زندگی میں جتنی مضبوط عورتیں دیکھیں وہ اپنے لیے باکردار تھیں مردانہ رشتوں کے شملے اُونچے کرنے کے لیے نہیں اگر اس ذاتی پاکبازی سے باپ بھائیوں یا شوہر کے شملے بھی اونچے ہو جائیں توکوئی حرج نہیں مگر شرافت، نیکی، کردار کسی کی وجہ سے یا کسی کو دکھانے کے لیے نہیں ہونا چاہیے مردوزن میں کوئی ایک صنف اکیلی گنہگار نہیں ہوسکتی یہ کاروبار سودوزریاں دونوں کے تعاون سے چلتا ہے۔
جیسے ایکٹرس مشرقی بیوی کا ناٹک کررہی تھی ویسے ہی طاہرہ عبداللہ بھی خبردار خبردار کا ایسا الارم بجارہی تھیں کہ ”سکوں“ کی جھنکار کی سمجھ ہی نہ آئی کہ کس طرف شمار کروں سکے جو ہر موقع پر اُچھلتے ہیں عقیقے ہوں ناچ گانے یا معتبر محفلیں نوٹوں کی ”واٹیں“ لگ جاتی ہیں۔
بھیا لگے رہو اپنے اپنے کام پر منافق ترین سماج کو ہرمؤقف کے دونوں طرف منافقین ہی ملیں گے جس طرح خبیث مردوں کو خبیث عورتیں ملنے کا عندیہ ہے یہاں سب سے بُری عورت وہ ہوتی ہے جو اپنے مؤقف کے ساتھ جیتی ہے۔ صاحب الرائے ہوتی ہے کماتی ہے مزدور ہوتی ہے تعلیم یافتہ ہوتی ہے بڑے بڑے دانشور بیوی کے روپ میں اسے برداشت نہیں کرتے انہیں تمام تر غلغلہ کے ساتھ پبلک میں منافقانہ بیان دینے والی بیویاں چاہئیں کہ ان کی انا اتنی چھوٹی پڑ چکی ہے جو ذرا ذرا سی خودمختاری سے زخمی ہو جاتی ہے، موجودہ سارے تہذیبی منظر میں میں اور میرے جیسی ان گنت مزدور عورتوں کی کوئی جگہ نہیں یہ جو دوپارٹیاں لڑ رہی ہیں ہم ان میں کہیں Fallفال نہیں کرتے والدہ نصرت ادیب ہاشمی کا ایک شعر ہے
کردار کو خود وقت ہی کردیتا ہے عریاں
میں نے تو کسی شخص کو پرکھا نہیں ابتک
راستہ بہت مشکل ہے بہت سے خیرخواہ نسوانی رشتوں نے کہا بھی اپنی سوچ کے ہتھیار ڈال دو اس مروجہ سماج میں بغیر محنت کے عیش کرو ضروری اہداف کی مالا جیومن مرضی کرو……لیکن ہماری من مرضی ہی کچھ اور تھی، ہمیں تو حقیقی سچی عورتوں کے مؤقف کی جدوجہد کو آگے بڑھانا تھا، ”ریلے ریس“ میں جو ”سٹک“ والدہ نے ہمارے ہاتھ میں دی تھی اسے اپنی بیٹی کو تھمانا تھا ……
نہ جانے یہ کیسا نشہ ہے جانے یہ کیا سرورہے اتنی رکاوٹیں ایسی مخالفتیں اور دشمنیاں عبور کر کے اپنے قدموں پر کھڑے رہنا ہی حقیقی آزادی ہے۔آزادی کا مطلب آزادی فکراور فیصلہ سازی کی طاقت ہے وگرنہ ملنے والی آسائشیں پسندیدہ Pet(جانور) کے آگے آسائشیں ومہنگے کھانے ڈالنے والی بات ہے ہاتھوں میں بڑی گٹھلیاں پنڈلیوں کی تھکاوٹ سنولائے ہوئے سٹالوں پر کھڑے چہرے ڈیوٹیاں کرتی خواتین انتہائی مہنگے پارلرز سے نکلنے والی بیگمات سے کہیں زیادہ دلکش لگتی ہیں …… یا اللہ مجھے انہی مزدور عورتوں میں سے اٹھانا ……
Prev Post
تبصرے بند ہیں.