موٹروے انتظامیہ کہاں ہے؟

200

مجھے تقریباً ہر دوسرے ہفتے موٹروے کا سفر کرنا ہوتا ہے،کبھی آبائی شہر ماں کی قدم بوسی کے لیے حاضری دینا ہوتی ہے اور کبھی مشاعروں اور تقریبات کے سلسلے میں کسی نہ کسی دوست کا بلاوا آ جاتا ہے اور یوں شہر سے باہر جانا پڑتا ہے۔ میری ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ موٹروے کا ہی راستہ اختیار کیا جائے تاکہ سفر آسانی سے اور پُرسکون کٹ سکے۔ اس دفعہ منڈی بہاؤالدین کے لیے لاہور سے نکلا تو گاڑی کی موٹر نے ”سکھیکی ریسٹ ایریا“ کے پاس جواب دے دیا اور یوں گاڑی کا پنکھا بند ہو جانے سے گاڑی ہیٹ کر گئی۔ میں اتفاق سے ریسٹ ایریا کے بالکل قریب تھا، گاڑی کسی طرح سے ریسٹ ایریا پر موجودآٹو الیکٹریشن کے پاس پہنچائی۔ اس نے گاڑی کی موٹر خراب ہونے کی بُری خبر سنائی اور ساتھ ہی چھے ہزار کا تقاضا کر دیا۔ میں نے اس مکینک سے انتہائی مودبانہ گزارش کی کہ جناب گاڑی کی موٹر ہزار سے بارہ سو تک آتی ہے، آپ زیادہ بھی لینا چاہتے ہیں تو دو ہزاریا پچیس سو لے لیں اور گاڑی کی موٹر ڈال دیں۔ اس نے انتہائی غیر مہذب انداز میں فرمایا ”جناب حکومت عمران خان کی ہے، یہاں پر کرائے بہت زیادہ ہو چکے ہیں لہٰذا ایک روپیہ بھی کم نہیں ہو گا“۔ یوں مکینک نے معاملہ عمران خان اور موٹروے کے ٹھیکیداروں پر پھینک کر میری گاڑی کو چھوڑا اور ایک دوسری گاڑی کو دیکھنے لگا۔ وہاں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جس کی گاڑی کا جنریٹر خراب ہو گیا تھا اور یہی مکینک اس سے گیارہ ہزار کا تقاضا کر رہا تھا۔ ایسے ہی درجنوں مجبور لوگ وہاں کھڑے ان مکینکوں سے اپنی کھال اتروانے میں مصروف تھے۔ خیر میں نے کسی ریفرنس سے معلومات لیں اور یوں گاڑی کوٹ سرور انٹر چینج (جو پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا) پہ اتار لی، وہاں موجود ایک الیکٹریشن نے پرانی موٹر ہی ٹھیک کرنے کا دو ہزار مانگا، بات پندرہ سو میں فائنل ہوئی اور یوں میری گاڑی چلنے کے قابل ہوئی۔
یہ محض ایک واقعہ ہے، آپ اگر موٹروے پر سفر کرتے ہیں تو آپ کو لازمی ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ گاڑی کی خرابی کے باعث نہ سہی، ریفریشمنٹ کے لیے آپ اگر کسی ریسٹ ایریا پر قیام کریں تو وہاں بنے ریستوران آپ کی چمڑی اتارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ چائے کا کپ ستر سے نوے روپے کا، بوتل پچاس سے ساٹھ روپے، فاسٹ فوڈ سمیت دیگر اشیاء کی قیمتیں بھی آپ کی پہنچ سے دور ہوں گی۔ یوں موٹروے کا سفر جسے بہت آسان اور پُر سکون سمجھا جاتا ہے، ٹھیکیداروں کے رویوں اور موٹر وے انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے انتہائی تکلیف دہ بن چکا ہے۔ میں اگر گزشتہ چند ماہ میں ہونے والے واقعات کی فہرست مرتب کرنے لگوں تو کالم کی جگہ کم پڑ جائے، من مرضی کے ریٹس اور گاڑی کے معمولی سے ایشو پر آٹو مکینکس کا منفی رویہ ناقابلِ بیان اور ناقابلِ برداشت ہے۔ ایسے معاملات میں ایک عام شہری کس سے شکایت کرے، کس کو ٹیلی فون کرے اور بتائے کہ جناب موٹر وے پر لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ موٹروے ٹوکن کے پیسے ڈبل اور ٹرپل کر دیے گئے مگر عوام الناس کو سہولیات دینے کے معاملے میں انہیں ٹھیکداروں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ جس روز میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا، میں نے کسی طور جاننے کی کوشش کی کہ موٹرویز پر موجود ورکشاپس کا ٹھیکہ کس کے پاس ہے، ایک ٹھیکیدار سے رابطہ ہوا، اسے ساری تفصیل بتائی اور دست بستہ گزارش کی کہ محترم کچھ خدا کا خوف کھائیں، آپ سے یہ نہیں کہتے کہ آپ پیسے نہ کمائیں یا اپنی کمیشن نہ لیں، بس یہ گزارش ہے کہ اپنی محنت کی مناسب قیمت وصول کریں، لوگوں کی کھال نہ اتاریں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ آج سے ایک سال قبل میرے ایک دوست نے بتایا کہ وہ کسی ریسٹ ایریا پر گاڑی کے ٹائروں کی ہوا چیک کرانے رکے، وہاں پوری پلاننگ کے ساتھ ان کے ٹائر کو کیل مار کر شدید
ترین پنکچر کر دیا گیا جس پر انہوں نے بہت شور شرابہ ڈالا اور معاملہ تھانے تک پہنچ گیا کیونکہ مکینک کو یہ حرکت کرتے میرے اس دوست نے دیکھ لیا تھا۔ یہ واقعہ جھوٹ ہے یا سچ (خدا جانے)، اس کو الگ رکھ کے بھی سوچیں تو ایسے واقعات اس ملک میں ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ میں یہ کالم اس لیے نہیں لکھ رہا کہ میرے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا بلکہ اس طرح کے واقعات کا روز کا معمول بن چکے ہیں۔ ایک طرف ریسٹ ایریاز کی انتظامیہ کا رویہ اور دوسری طرف دکانداروں کی غنڈہ گردی، ایسے واقعات نے ہمیشہ افسردہ کیا۔ ہم کس کس بات پر ماتم کریں، سسٹم کی کس کس خامی پر شور مچائیں اور قلم چلائیں۔ حکومتوں کی کامیابی اداروں کی کامیابی سے جڑی ہوتی ہے، ادارے کس طرح کام کر رہے ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومتوں کے اندر کچھ ڈلیور کرنے کی صلاحیت بھی ہے یا محض نعرے بازی سے کام چلایا جا رہا ہے۔ موٹروے محض ایک ادارہ ہے مگر اس ادارے سے پورے پاکستان کے لوگ کسی نہ کسی طرح جڑے ہوئے ہیں۔
آپ سب نے بھی کبھی نہ کبھی موٹروے کا سفر کیا ہو گا اور آپ ضرور ان مسائل کا شکار
ہوئے ہوں گے۔ میری اس کالم کے توسط سے وزیر مواصلات سے گزارش ہے کہ جناب موٹروے کے ٹھیکیداروں سے لے کر عام سیلز مین تک کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ موٹروے پر لیے جانے والے ٹوکن کی قیمتوں پر بھی غور کیا جائے۔ صرف پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو کھریاں کھریاں سنانے سے ادارے ٹھیک نہیں ہو جاتے، ادارے کچھ ڈلیور کرنے سے ٹھیک ہوتے ہیں۔ اگر ادارے آپ کے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ پورا سسٹم ہی تباہ ہو چکا۔ اب جس شخص سے بھی مہنگائی اور اشیائے خور و نوش پر قیمتوں کا پوچھیں، اس کا پہلا جواب یہی ہوتا ہے کہ ”عمران خان کی حکومت ہے“۔ خان صاحب خدارا کسی ایک ادارے کو تو ٹھیک کر دیں، تین سال گزر گئے، ہم یہی سن رہے ہیں کہ ترقی ہو رہی ہے یا ہونے جا رہی ہے، نہ جانے ترقی کس ملک سے منگوائی جا رہی ہے۔ ترقی جہاں سے بھی آنی ہے، بس جلدی لائی جائے کیونکہ یہ عوام اب مایوسی کی آخری منزل تک پہنچنے والے ہیں، ان کا کچھ سوچیں۔

تبصرے بند ہیں.