میرے آنسوؤں کے ذمہ دار تم
فاطمہ کی سسکیاں رکنے کا نام نہیں لے رہیں، بار بار وہ ننھے ہاتھوں سے گالوں پر بہتے آنسو پونچھتی ہے، مگر آنکھ سے بہتا پانی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لیتا۔ قبرستان کے ایک کونے میں گم سم کھڑی فاطمہ کا دل بھی دور افق پر غروب ہوتے سورج کے ساتھ ڈوب رہا ہے۔
فاطمہ کا اب اس دنیا میں کوئی نہیں، اس کے امی ابو اور بہن بھائی سب اب اس دنیا میں نہیں رہے، اسکول بھی نہیں بچا، سب کچھ کچھ دن پہلے آنے والے سیلاب میں بہہ گیا ہے۔ فاطمہ کے ان آنسوؤں، بے بسی اور یہ سیلابی ریلے کی ذمہ دار قدرت نہیں بلکہ خود غرض اور مطلبی دنیا ہے جس نے اس کے خواب تک چھین لئے ہیں۔ یہ محض ایک فاطمہ کا دکھ نہیں بلکہ دنیا میں لاکھوں بچیوں کی کہانی ہے جن کے خواب چھن جانے کا خدشہ ہے اور اس تباہی کی مذمہ دار ماحولیاتی تبدیلی یا گلوبل وارمنگ۔
آٹھ سال کی فاطمہ بھی کبھی پنجاب کے صوبہ پنجاب میں بہنے والے دریائے روای کے کنارے اپنے پیارے سے پرسکون گھر میں والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ ساتھ ہنستی کھیلتی تھی۔ اس کے بابا ایک قریبی فیکٹری میں کام کرتے تھے، مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں اور آلودگی ہی ایک دن اس کا گھر تباہ کر دے گی۔ بڑھتی حدت سے پہاڑوں پر گلیشیر پگھلے گا اور ایک رات اچانک ایسا سیلاب آیا کہ فاطمہ کا سب کچھ بہا کر لے گیا۔
اس وقت اوسط عالمی درجۂ حرارت 15 ڈگری ریکارڈ کیا جا رہا ہے، سائنس دانوں کو تشویش ہے کہ انسانوں کے ہاتھوں کی جانے والی برق رفتار تبدیلی سے مستقبل میں زمین کے موسم پر شدید اثرات مرتب ہوں گے۔ سائنس دانوں کا اتفاق ہے کہ کارخانوں اور زراعتی پیداوار میں گرین ہاؤس گیسز داخل ہونے سے درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے اور اسی وجہ سے عالمی تپش بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک اور ہم ترین وجہ جنگلات کا کٹاؤ بھی ہے۔
1750ء کے صنعتی انقلاب کی وجہ سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں 30 فیصد جبکہ میتھین کی مقدار میں 140 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تازہ ترین سائسنی ڈیٹا کے مطابق سمندر کی سطح تین ملی میٹر سالانہ بلند ہو گئی ہے جس کی وجہ پہاڑوں پر گلیشیئرز کی تہہ کا پگھلنا ہے۔
سائنسدانوں کا خدشہ ہے کہ اس ویں صدی کے اختتام تک عالمی درجۂ حرارت میں 1.5 ڈگری کا اضافہ ممکن ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے طوفان اور سیلاب آنے کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی سے غریب ملکوں سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں جو وسائل کی کمی کا سامنا ہے، لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان تنہا ان مسائل سے نمٹ سکتا ہے؟ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کو کم آمدنی والے ممالک کا احساس کرتے ہوئے ان کی مدد کرنا ہو گی۔
یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ گلوبل وارمنگ کسی سرحد کی پابند نہیں ہے، اس لئے وہ ملک جو زیادہ کاربن پیدا کرتے ہیں، وہ غریب ملکوں کو فنڈ فراہم کریں تاکہ ماحول کو بہتر بنایا جا سکے۔ امریکا اور مغرب کو فوری اقدامات کے ذریعے گوبل وارمنگ کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے آگے بڑھ کر کوشش کرنی چاہے۔
ٹھوس اقدامات کے بجائے ایک دوسرے پر الزامات لگانا مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ دنیا کو فوری اقدامات کی ضرورت ہے، دنیا کو مصنوعی وعدوں کے بجائے عملی اقداما ت کی ضرورت ہے تاکہ فاطمہ اور اس جیسے لاکھوں بچوں اور بچیوں کے خواب انہیں واپس دے سکیں۔
تحریر: زینب وحید
(مصنفہ ماحولیاتی تبدیلی کیلئے کام کرنے والی معروف سوشل میڈیا ورکر اور کیمرج کی طالبہ ہیں)
تحریر یا کمنٹس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تبصرے بند ہیں.