جیت کے کئی باپ یا دعویدار ہوتے ہیں …… شکست کی ذمہ داری کوئی نہیں قبول کرتا…… مریم نواز صاحبہ جب آپ حکمران جماعت کے تمام تر سرکاری وسائل اور دبدبے کے باوجود ماضی کی روایت کو توڑتے ہوئے (کہ ضمنی انتخابات برسراقتدار جماعت ہی جیتتی ہے) ایک کے بعد دوسرے ضمنی چناؤ میں کامیابی حاصل کر رہی تھیں …… ریکارڈ توڑ رہی تھیں تو ہر کوئی آپ کے والد میاں نوازشریف سے مستعار لئے ہوئے بیانیے سے متاثر تھا…… آپ کے جوش خطابت کی تعریف کرتا تھا…… آپ کا نشانہ بیک وقت ملک کی ہمہ مقتدر اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سایہ عاطفت تلے وزیراعظم عمران خان کی سول حکومت تھے…… آپ کے جلسوں میں سامعین کا جم غفیر امڈ آتا تھا…… یہ امر بھی دیکھنے اور سننے والوں کی نگاہوں میں آپ کی سیاسی مقبولیت اور عوام کے اندر پذیرائی پر دلالت کرتا تھا…… آپ کے کٹر مخالفین کو چھوڑ کر ناقد کم اور واہ واہ کرنے والے زیادہ تھے…… مگر جونہی آپ کی جماعت کو آزاد کشمیر کے انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا…… سیالکوٹ کے صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں آپ کا امیدوار غیرمتوقع طور پر کامیابی کا منہ نہ دیکھ سکا…… آپ کی کارکردگی پر چہار اطراف سے تنقید کی بوچھاڑ شروع ہو گئی…… کسی نے کہا ساراآپ اور میاں نوازشریف کے مزاحمتی بیانیے کا قصور ہے…… کسی نے فرمایا جلسوں میں بڑی تعداد میں لوگوں کا چلے آنا اور پُرجوش نعرے لگانا صحیح معنوں میں انتخابی طاقت کی دلیل نہیں …… دوسرے عوامل زیادہ اثرات دکھاتے ہیں …… ایک رائے تھی آپ کی ہی جماعت کے صدر اور پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کی مفاہمتی سوچ اور پالیسی کو عامتہ الناس کے اندر زیادہ پسندیدگی کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے…… عمران حکومت کے ترجمانوں اور حامی دانشوروں نے اس کامیابی اورآپ کی شکست کو اپنے وزیراعظم کی معاشی کامیابیوں اور امریکہ و بھارت کے خلاف جرأت مند بیانوں کا سبب قرار دیا اور بیک آواز بولے اگلے عام انتخابات میں ان کے لیڈر کی ایک مرتبہ پھر کامیابی کی راہ ہموار ہو رہی ہے…… کچھ تبصرہ نگاروں نے زور بیان کے ساتھ اس رائے کا بھی اظہار کیا پاکستان کے معروضی حالات میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکر لینے والا کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا…… یہ حقیقت عمران خان شہباز شریف اور بلاول بھٹو تینوں کی سمجھ میں آ گئی ہے مگر نوازشریف اور مریم بی بی اپنی ہٹ پر قائم ہیں …… اسی لیے ان کی ہوا اکھڑنا شروع ہو گئی ہے …… غرض جتنے منہ اتنی باتیں …… ایک دو شکستوں نے آپ کی ضمنی انتخابات میں پچھلی تمام اور پے در پے انتخابی کامیابیوں پر پانی پھیر دیا…… کیا یہ دستور زمانہ ہے یا سیاسیات پاکستان کے معروضی حالات میں واقعی کوئی تبدیلی آ رہی ہے اور ہوا کا رخ بدل رہا ہے……
جہاں تک آزاد کشمیر کے انتخابات کا تعلق ہے وہ اپنی ایک تاریخ رکھتے ہیں …… وہاں ہمیشہ اسلام آباد میں برسراقتدار وفاقی حکومت کی پارٹی کو کامیابی کی مسند عطا کی جاتی ہے…… اسی کے نامزد افراد حکومت بناتے ہیں …… آپ نے اس تاریخ کو بدلنے کی بھرپور کوشش کی…… کامیاب ترین جلسے کیے…… شرکاء کے پُرجوش نعروں نے آپ کا حوصلہ بڑھایا…… پھولوں کی بارش کی گئی…… یہاں تک کہ نوٹ نچھار کیے گئے…… مگر نہ اسٹیبلشمنٹ سکیورٹی کی نگاہ سے اس نازک ریاست کو اپنے براہ راست رسوخ کے دائرہ کار سے باہر جانے دینا چاہتی تھی…… نہ وفاق پاکستان میں عمرانی حکومت کو یہ گوارا تھا کہ آزاد کشمیر جیسا حساس علاقہ ہاتھوں سے چلا جائے اور آپ پے در پے انتخابی کامیابیوں کا ہیٹ ٹرک کرتی چلی جائیں …… نہ ہی ماضی کے اندر آزاد کشمیر کے انتخابات میں کامیابیاں حاصل کرنے والے روایتی سیاستدانوں میں اتنی ہمت اور جرأت تھی کھل کر آپ کے امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈلواتے…… اس پر مستزاد یہ کہ آپ نے زور خطابت کی حامل اپنی انتخابی تقریروں میں عمران حکومت کے تو خوب لتّے لیتی رہیں …… اس کے پیچھے بیٹھی ہمہ مقتدر عسکری قیادت کو بھی للکارا…… عمران خان کو کشمیر فروش تک کہا…… لیکن آزادی کشمیر کے لیے اپنی جماعت کا کوئی پروگرام نہ پیش کیا…… مودی کا 5 اگست کا جارحانہ اقدام آپ کی براہ راست تنقید کا موضوع نہ بنا…… آخر کیوں …… آزاد کشمیر کے اندر اور پورے پاکستان کے لوگ آپ سے اس کی توقع باندھے ہوئے تھے…… آپ کی خاندانی حکومت کے مودی کے ساتھ یقینا بہت تعلقات رہے ہیں …… اس کے برعکس عمران خان بھارتی وزیراعظم کو ٹیلیفون کر کر کے تھک گیا…… اس نے رسمی جواب دینا بھی پسند نہ کیا…… لہٰذا عمران خان نے اپنا غصہ نکالنے میں کوئی کسر باقی نہ رہنے دی…… لیکن آپ کے والد اور جماعت کا ہمیشہ سے یہ دعویٰ رہا ہے ان کے بھارتی وزرائے اعظم کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا ہمیشہ یہ مقصد رہا ہے کہ تنازع کشمیر کے منصفانہ حل کی راہ ہموار کی جائے…… اب جو 5 اگست 2019 کے اقدام کے بعد مودی نے ایسے کسی حل کے دروازے بند کر کے
رکھ دیئے ہیں …… آپ کو اس کے اس اقدام پر ڈٹ کر تنقید کرنی چاہئے تھی…… اور آزاد کشمیر کے لوگوں کو بتانا چاہتے تھے آپ کی جماعت کی مظفرآباد اور اسلام آباد میں دوبارہ حکومت قائم ہو گئی تو مودی جارحیت کو ختم کرنے کے لیے کیا کیا اقدامات کرے گی…… اس پر کسی قسم کا سفارتی اور دوسرا دباؤ ڈالے گی…… لیکن آپ کی انتخابی تقریریں اس سے عاری نظر آئیں …… تحریک انصاف کے ترجمانوں نے اس کا خوب خوب فائدہ اٹھایا…… ووٹروں پر بھی لامحالہ اس کا اثر پڑا…… اس سب کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسٹیبلشمنٹ کی طاقت اور آزاد کشمیر کا روایتی سیاسی مزاج آپ کی جماعت کی کامیابی میں بڑی رکاوٹ بنا ہوا تھا…… لہٰذا یہ امر ہرگز باعث تعجب نہیں کہ جتنے بڑے آپ کے جلسے ہوئے اس تناسب سے ووٹ نہیں ملے اور جتنی تعداد میں آپ کے امیدواروں کو ووٹ پڑے آپ کو ملنے والی نشستوں کا تناسب اس سے کم تھا…… اس کے برعکس بلاول بھٹو جمع زرداری کی پیپلز پارٹی کو ووٹ سب سے کم ملے لیکن مبداء فیض کی جانب سے اسے نشستوں کے لحاظ سے گیارہ کی تعداد میں دوسری بڑی پارلیمانی جماعت ہونے کا اعزاز ملا…… اس حوالے سے پی پی پی کے بے باک گفتگو کرنے والے رہنما نبیل گبول کا ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں یہ کہنا بہت معنی خیز ہے کہ ہمارے ساتھ وعدہ تو سولہ نشستوں کا کیا گیا تھا…… لیکن ملیں گیارہ اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں ……
مگر سیالکوٹ کے صوبائی حلقہ نمبر 38 میں آپ کے امیدوار کو جو شکست فاش ہوئی ہے یہ آپ کے لیے زیادہ تشویش اور حالات کا کہیں بہتر گہرا اور معروضی جائزہ لینے کا باعث ہونی چاہئے…… سیالکوٹ وسطی پنجاب کے دوسرے اضلاع کی مانند آپ کی جماعت کا گڑھ ہے…… ابھی چند ماہ پہلے اسی ضلع میں ڈسکہ کے انتخابات میں دھاندلی کا کھل کر مقابلہ کیا اور پھر کامیابی کے جھنڈے بھی گاڑھے…… مگر اسی ضلع کے صوبائی حلقہ نمبر 38 میں جہاں گزشتہ تین دہائیوں سے سبحانی ویرو خاندان انتخابات جیتتا چلا آ رہا تھا اور اس کی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ وفاداری ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا ہے اس کے مقابلے میں ق لیگ اور چودھریوں کے ساتھی ایک خاندان کے نوجوان امیدوار نے بلّے کے نشان کو اپنایا…… یہ نوجوان وزیراعلیٰ پنجاب کے دفتر کی ایک بااثر شخصیت کا داماد بھی ہے اور دولت و ثروت میں کسی سے کم نہیں …… وہ میدان میں اترا…… چودھری برادران کی اشیرباد حاصل تھی…… عمران خان نے اس کے ماتھے پر اپنی ٹکٹ کا لیبل چسپاں کر دیا…… اس نے مسلم لیگ (ن) کے سبحانی خاندان کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی…… پنجاب کے دیہاتی اضلا ع میں برادریوں کا گٹھ جوڑ بہت اہمیت رکھتا ہے…… مریم نواز اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت ان تمام عوامل کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے بیانیے کی مقبولیت پر اکتفا کرتی رہی…… نتیجہ یہ سامنے آیا کہ مخالف امیدوار بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو گیا یوں اس نے مسلم لیگ (ن) کے مضبوط قلعے کی دیوار میں شگاف ڈال دیا…… مریم نواز اور ان کے مشیروں کو اس انتخاب کو اتنی آسانی سے نہیں لینا چاہئے تھا…… انہوں نے اپنے سکہ بند امیدوار طارق سبحانی کے مقابلے میں ق لیگ جمع تحریک انصاف کے نامزد کردہ احسن سلیم بریار کو شکست دینا آسان خیال کیا…… اپنی فتح کو یقینی سمجھا…… اسی خوش فہمی نے اس شکست کو یقینی بنا دیا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا رہا تھا…… اس انتخابی معرکے پر آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج نے بھی اثر ڈالا…… جو دو روز پہلے ہی منعقد ہوئے تھے…… حمزہ شہباز پنجاب میں اپنی جماعت کے تنظیمی معاملات کو گرفت میں رکھے ہوئے ہیں لیکن وہ میدان میں نہیں اترے یہی عالم ان کے والد اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کا تھا…… وہ مریم کے انتخابی جلسوں میں شریک نہیں ہوئے…… اس سے قبل مریم نے بھی ان کے جلسوں میں جا کر خطاب کرنے سے گریز کیا اس سے یہ شدید تاثر عوام تک منتقل ہوا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں …… بیانیے پر بھی اتفاق نہیں اور پارٹی کی قیادت کے مسئلے پر بھی اختلاف رائے پایا جاتا ہے…… اس صورتحال کا عمران کے حامیوں نے پراپیگنڈہ کی سطح پر جی بھر کر فائدہ اٹھایا…… نوازشریف جیسے جہاں دیدہ اور انتخابات کا تجربہ رکھنے والے سیاستدان کو اس کا بروقت اور شدید نوٹس لینا چاہیے تھا…… انتخابی شکست کے بعد یہ افواہیں گردش میں آ گئیں کہ شہباز شریف صاحب نے پارٹی صدارت سے استعفیٰ دے دیا ہے جو اگرچہ غلط ثابت ہو گئیں مگر ان باتوں نے مسلم لیگ ن کے اندر اتحاد و اتفاق کی صورت حال کو سخت دھچکا دیا ہے…… لازم ہے نوازشریف صاحب اور مریم بی بی مشترکہ مساعی کے نتیجے میں شہباز صاحب کے ساتھ اختلافات کو کم سے کم کرنے کی تدابیر اختیار کریں …… خرابی بیانیے میں نہیں جو آئین کی بالادستی پارلیمنٹ کی صحیح معنوں میں حکمرانی اور شفاف ترین انتخابات کے انعقاد پر مشتمل ہے…… نقص جماعت کے اندر تنظیمی انتشار میں پایا جاتا ہے…… تنظیم کو مضبوط تر بنانے کی اشد ضرورت ہے…… انتخابی مہم سے عین پہلے جلتی پر تیل کا کام لندن میں میاں نوازشریف کے ساتھ افغان صدر اشرف غنی کے مشیر حمداللہ محب کی ملاقات اور اس کی تصویر وائرل ہو جانے نے کیا…… یہ صاحب ملاقات سے چند روز پہلے پاکستان کو کھلے عام غلیظ گالی دے چکے تھے…… اگر ملاقات کا وقت پہلے سے طے تھا تو افغان صدر سے کہا جا سکتا تھا ان کی جگہ کسی اور نمائندے کو اپنا پیغام دے کر بھجوا دیں …… آخر میاں نوازشریف نے نوّے کی دہائی کے آغاز پر امریکی مشیروں سے ملاقات سے انکار کر دیا تھا…… افغان صدر کے پاکستان کو گالی بکنے والے مشیر سے بھی نہ ملتے تو کون سی قیادت ٹوٹ پڑتی…… مگر اس ملاقات کو ضمنی انتخاب کے وقت پاکستان کے اندر مخالفین نے خوب اچھالا…… سیاست میں PERCEPTIONS بہت اہمیت رکھتے ہیں …… میاں صاحب کے بارے میں تاثر خراب ہوا اور مخالف امیدوار کو اس سے فائدہ پہنچا…… ان تمام باتوں سے قطع نظر حالات تقاضا کرتے ہیں کہ میاں نوازشریف اپنی جلاوطنی ترک کر کے وطن واپس آ جائیں …… انہیں ہوائی اڈے سے سیدھا جیل میں بھیج دیا جائے گا لیکن پاکستانی جیل میں مقید تین مرتبہ منتخب ہونے والا سابق وزیراعظم لندن میں قیام کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور اور اسٹیبلشمنٹ و حکمران جماعت کے لیے خطرے کا باعث ثابت ہو گا…… ان کا جتنا علاج ہو سکتا تھا اب تک ہو گیا…… اس کے بہانے دیار غیر میں مزید قیام کو عوام پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے…… آخر میاں صاحب اپنی اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر عدالت میں پیش ہونے کے لیے مریم کو ساتھ لے کر سیدھے پاکستان آن پہنچے تھے…… انہیں معلوم تھا انہیں جیل بھیج دیا جائے گا…… مگر باپ بیٹی نے اس کی پروا نہ کی صورتحال کا پامردی سے سامنا کیا بلکہ تاریخ رقم کر دی…… اس تناظر میں اب بھی انہیں پاکستان واپس آ کر جیل میں چلے جانے اور خواہ جھوٹے ہوں مقدمات کا سامنا کرنے میں کیا امر مانع ہے…… جس سطح کے وہ لیڈر ہیں وہ ان سے اسی قسم کا اور جلد فیصلہ کا متقاضی ہے…… جیل میں بیٹھا نوازشریف ایک جانب اپنے اراکین اسمبلی کے لیے جن پر اس وقت پژمردگی کی کیفیت طاری ہے زیادہ حوصلے اور تقویت کا باعث ثابت ہو گا اور دوسری جانب وقت کے حکمرانوں کے لیے بھی زیادہ بڑا چیلنج بنے گا……
Prev Post
تبصرے بند ہیں.