عالمی منڈی سے بکر منڈی تک

163

منڈی بڑا دھوکے باز لفظ ہے دنیا میں سب سے زیادہ فراڈ منڈی میں انجام پذیر ہوتے ہیں ۔ تیل کی عالمی منڈی سے لے کر بکر منڈی تک عوام کو قدم قدم پر دھوکے اور جیب تراشی کا سامنا ہے۔ گزشتہ ہفتے عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت 75 ڈالر سے 73 ڈالر ہو گئی تو ہم نے اطمینان کا سانس لیا مگر ہمارے ارمانوں پر ڈاکہ اس وقت پڑا جب ہمیں پتہ چلا کہ حکومت نے پٹرول کی قیمت میں5.40 روپے اضافہ کر دیا ہے۔ اس کے دو دن بعد جب سے عالمی قیمت 71 ڈالر فی بیرل ہوئی ہے ہم مسلسل خوف میں ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ایک دفعہ پھر 5 روپے مزید اضافہ کر سکتی ہے۔ 
ہمارے ساتھ یہی کچھ بکر منڈی میں بھی ہوا۔ منڈی والے ہر دفعہ ہر جگہ ہمارے ساتھ ہاتھ کر جاتے ہیں ’’دکھانی سجی مارنی کبھی‘‘ دکھاتے اور ہیں مارتے اور ہیں اس دفعہ تاثر یہ تھا کہ ملک میں جتنی مہنگائی ہے قربانی کرنے والوں کی تعداد کم ہو گی۔ اس لیے بکرے سستے ملیں گے مگر بکر منڈی بھی تیل کی عالمی منڈی ثابت ہوئی جہاں قیمت کم ہونے سے ریٹ بڑھ جاتے ہیں منڈیوں میں بکروں کے سائز کم ہو رہے ہیں جبکہ قیمتیں زیادہ ہو رہی ہیں۔ منڈی بیو پاری بڑے بے رحم لوگ ہیں اب حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ یہ ڈبل سے کم منافع کو خود پر حرام سمجھتے ہیں اس دفعہ منڈی میں نیا رجحان سامنے آیا جو دیہاتی سیزن کے شروع میں بکرے فروخت کرنے منڈی گئے وہاں پر موجود مڈل مین مافیا نے ان سے وہ بکرے خرید لئے اور وہی بکرے بعد میں ڈبل قیمت پر بیچے گئے۔ مڈل مین ایسا مسئلہ ہے جو کینسر سے زیادہ خطرناک ہے یہ ہر جگہ پر موجود ہے۔ مڈل مین نے سب سے زیادہ نقصان سیاست کو پہنچایا ہے جب تک سیاست سے مڈل مین آؤٹ نہیں ہو گا اس کو کسی بھی غلہ منڈی سبزی منڈی یا بکر منڈی سے نکالنا ممکن نہیں کیونکہ سیاست سے بڑی کوئی منڈی نہیں۔
ہماری قومی سیاست ہمیں مویشی منڈی کی یاد دلاتی ہے پرانے زمانے میں سارے نوسر باز مویشی منڈی کا رخ کرتے تھے دیہاتی کسان جو بیل خریدنے کے لیے پیسے لے کر منڈی آتے تھے انہیں 
صرف یہ پتہ ہوتا تھا کہ جیب کتروں سے ہوشیار رہنا ہے سادہ لوح دیہاتی سارا ٹائم اپنا ایک ہاتھ جیب پر رکھتا تھا کہ پیسے چوری نہ ہوجائیں۔ نوسر باز جس کا ہاتھ جیب پر دیکھتے یہ مال ہونے کی موجودگی کا پکا ثبوت ہوتا تھا۔ وہ ایک جگہ سٹال لگاتے کہ یہاں پر ہم پیسے ڈبل کر دیتے ہیں ان کے ساتھی گاہکوں کے روپ میں دیہاتیوں کو یقین دلاتے کہ ان کے پیسے ڈبل ہوئے ہیں۔ ایک دیہاتی ایک دفعہ بڑھے غور سے دیکھ رہا تھا اس نے کہا میرے پیسے ڈبل کرو۔ اس کے پاس ایک بیل کے پیسے تھے جب کہ اسے بیلوں کی جوڑی کی ضرورت تھی نو سرباز نے کہا کہ آپ کو مغرب کی جانب 100 قدم چلنا ہے واپس مڑ کر دیکھا تو یہ پیسے مٹی میں بدل جائیں گے ۔ اس نے چلنا شروع کیا تو نوسر باز نے واپس بلا لیا اور کہا کہ تمہارے پاس جو کمبل ہے وہ تمہیں تیز چلنے نہیں دیتا یہ یہاں رکھ دو تو یہ بھی ڈبل ہو جائے گا دیہاتی خوش ہوا کہ دوسرا کمبل کسی غریب کو دیدوں گا۔ وہ پورے 100 قدم گن کر چلتا گیا وہاں جا کر رکا دل ہی دل میں خوش تھا کہ 100 قدم کے دوران کوئی دخل اندازی نہیں ہوئی مڑ کر جب دیکھا تو نوسربازوں کا گروہ پیسے کمبل اور سٹال سمیت رفو چکر ہو چکا تھا۔ انسان ہمیشہ لالچ میں آکر مار کھاتا ہے بہ حیثیت قوم ہم بھی لالچ میں آجاتے ہیں کہ ہم بھی اپنے پیسے ڈبل کروا لیں اس کوشش میں ہم اپنی پونجی سے محروم ہو جاتے ہیں مگر پھر بھی نہیں سمجھتے۔ 
اس وقت جبکہ ساری نظریں عالمی منڈی بکرا منڈی سبزی منڈی اور سیاست کی منڈی پر مرکوز ہیں ایک ایسی غیر اعلانیہ منڈی نے قوم کا جینا محال کر دیا ہے جو کسی منڈی سے کم نہیں اس کو قصائی منڈی کہنا چاہیے۔ قربانی کی عید کا سب سے بڑا فائدہ اگر کسی کو پہنچ رہا ہے تو وہ قصائی ہے سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ یہ غیر ہنر مند ہے جو کھال اتارنے میں مہارت نہیں رکھتا اس کی غیر پیشہ ورانہ کارکردگی کی وجہ سے اربوں روپے کی کھالیں ضائع ہوتی ہیں کیونکہ جگہ جگہ کٹ لگنے سے چمڑے کی کوالٹی ڈاؤن ہوتی ہے اسی طرح یہ گوشت بھی بہت ناقص کٹنگ کرتے ہیں مگر منہ مانگے پیسے لیتے ہیں اور زبردستی قربانی کا گوشت بھی لے جاتے ہیں دیہات میں ہم نے دیکھا ہے گائے کی قربانی میں 7 لوگ شریک ہوتے ہیں یہ گوشت کے 7 کی بجائے 8 حصے کرتے ہیں۔ 8 واں حصہ قصائی کا ہوتا ہے اس کے علاوہ اس کا معاوضہ الگ ہوتا ہے۔ جس گوشت کے لیے ایک حصہ دار نے اوسطاً 15 ہزار روپے دیئے ہوتے ہیں اس کے برابر قصائی کی دہی حقدار فری مل جاتی ہے پھر بھی وہ خوش نہیں ہوتا۔ اتنا معاوضہ تو اس دور میں بے روزگار ڈاکٹر یا انجینئر نہیں حاصل کر سکتے جتنا قصائی کو مل جاتا ہے۔ 
جدید دور میں قربانی کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ دین کے ایک رکن کی بجائے ایک رسم کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اللہ کو خوش کرنے کی بجائے ہمسایوں کو متاثر کرنے ریا کاری نمور و نمائش اور گھٹیا درجے کے دکھاوے کا اہتمام کیا جاتا ہے جس انداز سے بکروں اور گائے کی نمائش اور پریڈ کی جاتی ہے اس سے ثواب کا عنصر زائل ہو جاتا ہے۔ عبادت میں ریاکاری عبادت کو زیرو کر دیتی ہے اس معیار سے دیکھا جائے تو شاید ہم میں سے کتنے ہیں جو ریا کاری سے اجتناب کرتے ہیں۔ قربانی کا گوشت پہلے صرف ان گھرانوں کو بھیجا جاتا تھا جو استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے قربانی نہیں کر رہے ہوتے تھے۔ اب زمانہ بدل گیا ہے اب ا س میں بھی Socialising ہے جس کی وجہ سے مستحقین تک یہ گوشت نہیں پہنچتا بلکہ بار بار ان گھروں میں چلا جاتا ہے جہاں پہلے ہی فرج بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ 
قربانی کا سب سے بڑا سبق فرماں برداری ہے کہ کس طرح ایک بیٹے نے اپنے باپ کی خواہش پر خود کو ذبح ہونے کے لیے پیش کر دیا جب حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کو کہا کہ آپ کو جو حکم ہوا ہے میں اس کے لیے سر تسلیم خم کرتا ہوں آپ مجھے فرماں بردار پائیں گے۔ یہ انسانیت کی تاریخ کا سب سے بڑا Father’s Day تھا۔ اس موقع کے لیے فادرز ڈے کا لفظ قطعی غیر مناسب ہے مگر نئی نسل کو اس قربانی سے روشناس کرانے کے لیے لکھا ہے کہ فرماں برداری میں کسی عمل کی دلیل نہیں ہوتی بلکہ بلا چوں و چرا بجا آوری ہوتی ہے شاعر مشرق نے کیا خوب کہا ہے کہ 
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کسی نے اسمٰعیلؑ کو آداب فرزندی

تبصرے بند ہیں.