کہانی ایک جرنیل کی

251

سابق چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل اسلم بیگ مرزا ہماری ملکی تاریخ کے ان اکّا دکّا سپہ سالاروں میں سے ہیں جنہوں نے فوجی سربراہ کی حیثیت سے تمام تر ریاستی طاقت اپنے قبضہ قدرت میں رکھنے کے باوجود شب خون نہیں مارا… آئین نہیں توڑا… اسے منجمد کر کے عضو معطل بنا کر نہیں رکھا… خالصتاً فوجی طاقت کی بنا پر کسی منتخب حکومت یا اس کے وزیراعظم کو نکال باہر نہیں پھینکا… البتہ ان کے دور میں آئین کے اندر ڈکٹیٹر ضیاء الحق کی متعارف کردہ شق 58-2-B کے ذریعے جنرل ضیاء الحق نے (تب جنرل بیگ وائس چیف آف آرمی سٹاف تھے) وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت اور اسمبلی کو برطرف کیا… بعدازاں ان کی سپہ سالاری کے عہد میں صدر غلام اسحق نے اسی شق کی تلوار کو لہراتے ہوئے بے نظیر بھٹو اور ان کی حکومت کی گردنیں اتار دیں… جنرل بیگ اپنی خودنوشت بعنوان ’’اقتدار کی مجبوریاں‘‘ میں جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے جس کی ایک کاپی جنرل صاحب نے ازراہ عنایت مجھے بھی ارسال کی ہے، ان دونوں واقعات کا بالترتیب ذمہ دار ضیاء الحق اور غلام اسحق خان کو قرار دتے ہیں… جونیجو کو کیسے اور کیونکر برطرف کیا گیا… اس کے محرکات پر تو جناب جنرل نے تفصیل سے روشنی نہیں ڈالی… البتہ بعدازاں بے نظیر کی پہلی حکومت کو گھر  بھجوا دینے کے غلام اسحق کے ارادے کی بقول جنرل صاحب انہوں نے حمایت نہیں کی تھی اور مشورہ دیا تھا انہیں کام کرنے کا موقع دیا جائے… جنرل بیگ کی ایک اور بات جو انہیں ہمارے عہد کے دوسرے سپہ سالاروں سے ممتاز کرتی ہے یہ ہے انہوں نے کبھی اپنے عہدے کے لیے توسیع نہیں مانگی … نہ اس خواہش کا کبھی اظہار کیا… ورنہ ہماری بدقسمت قومی تاریخ یہ بتاتی ہے پہلے کمانڈر انچیف نے مارشل لا ء بھی لگایا اور دو سے زیادہ مرتبہ توسیع بھی حاصل کی… کیونکہ وردی کے بغیر ہمارے یہ فوجی ڈکٹیٹر اپنے آپ کو غیرمحفوظ سمجھتے تھے… جنرل یحییٰ خاں کو اس کا موقع نہ ملا… انہوں نے دو اڑھائی سال کے اندر ملک کی لٹیا ڈبو کر رکھ دی… اس کے بعد بھٹو حکومت پر شب خون مار کر جنرل ضیاء الحق نے اپنی آمریت کے گیارہ برسوں کے دوران خدا جھوٹ نہ بلوائے اپنی ہی اتھارٹی کو استعمال کرتے ہوئے کوئی تین مرتبہ توسیع تو حاصل کی ہو گی… اگر ہوائی حادثہ نہ ہو جاتا تو بظاہر ان کے وردی پوش اقتدار کو کوئی چیلنج کرنے والا نہ تھا… یہی وتیرہ چوتھے فوجی ڈکٹیٹر جنرل مشرف نے اپنائے رکھا… انہوں نے چیف آف دی آرمی سٹاف کے منصب کے ساتھ چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی کرسی بھی اپنی دسترس  میں لے لی… یوں رسمی اور حقیقی دونوں طرح کی فوجی طاقت پر اپنا تسلط جما لیا… پھر توسیع پر توسیع لیتے رہے… موصوف کو وردی اتنی پیاری تھی کہ اسے اپنی چمڑی (SECOND SKIN) قرار دیتے تھے… مگر آٹھ سالہ غیرآئینی حکمرانی کے بعد جب سیاسی دبائو کے تحت اسے اتار دینے پر مجبور ہوئے تو موصوف کو ایوان صدر سے نکل جانے اور اقتدار سے مکمل طور پر فارغ ہونے میں دیر نہ لگی… جنرل اسلم بیگ مرزا کے جانشین جنرل آصف نواز جنجوعہ توسیع کیا حاصل کرتے وہ شب خون پر آمادہ بیٹھے تھے مگر فرشتہ اجل نے دل کے حملے کی وجہ سے ان کی جان قبض کر لی… توسیع حاصل کرنے کا موقع نہ ملا… ان کے بعد آنے والے جنرل عبدالوحید کاکڑ خواہشمند تھے مگر قائد حزب اختلاف نوازشریف نے کھل کر مخالفت کر دی لہٰذا انہیں گھر کی راہ لینا پڑی… بعدازاں جنرل کیانی زرداری صاحب سے توسیع حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے… آج کل کی کیا صورت حال ہے… اس کے بارے میں کچھ  بتانے کی مجال نہیں رکھتا بس اتنا کہنا کافی ہو گا نوازشریف بھی دبائو میں آ گئے اور آج کل ہم اگلی توسیع کے بارے میں افواہیں سن رہے ہیں… اس سارے تناظر میں جنرل اسلم بیگ مرزا کا کردار قابل تحسین رہا ہے انہوں نے مواقع ہونے کے باوجود اقتدار پر غیرآئینی قبضہ نہیں کیا… اپنے ملک کے اندر طاقتور ترین عہدے کے لئے توسیع کے طالب بھی نہ ہوئے… اپنی شخصیت کو ناگزیر سمجھتے ہوئے اسے پوری فوج کے ادارے پر مقدم سمجھنے کی کوشش نہیں کی… وقت پر ریٹائرمنٹ حاصل کر کے فرینڈز کے نام سے تھنک ٹینک قائم کیا اور سٹرٹیجک امور پر سوچ بچار کے عمل کا آغاز کیا… اسی پلیٹ فارم کے تحت بیرونی دورے کیے… کتابیں لکھوائیں اور سیمینار منعقد کرائے… اس لحاظ سے بطور آرمی چیف ان کا کردار ممتاز اور قابل تحسین رہا ہے…
جنرل (ریٹائرڈ) اسلم بیگ مرزا نے اپنی بھرپور اور کامیاب پیشہ وارانہ زندگی کی یادوں پر کتاب مرتب کی ہے… بیان ان کا ہے تحریر جنٹلمین بسم اللہ جنٹلمین استغفراللہ جیسی خوشگوار تحریروں پر مبنی
دلچسپ کتابیں رقم کرنے والے ہمارے دوست کرنل اشفاق حسین کی ہے… جنرل بیگ نے خاص طور پر فوجی زندگی اور تجربات پر مبنی جو واقعہ بھی بیان کیا ہے اس وقت کے درپیش حالات کا تفصیل سے جائزہ پیش کیا ہے اسے معاصر تاریخ کے مستند حوالوں سے مزین کیا ہے… اپنے ذاتی محاسن اور کارناموں کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کم کام لیا ہے اصل حقائق کو سامنے لائے ہیں… اس لحاظ سے 349 صفحات پر مشتمل یہ کتاب دور حاضر کی ملکی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے قابل مطالعہ تحفے کی حیثیت رکھتی ہے… کتاب کا نام ’’اقتدار کی مجبوریاں‘‘  کی توجیح پیش کرتے ہوئے انہوں نے جنرل ضیاء الحق مرحوم کے ساتھ گفتگو کا یہ خلاصہ درج کیا ہے کہ میں نے اور جنرل حمید گل نے ان کے ایما پر آئندہ کے لیے سیاسی نظام کا ایک نقشہ پیش کیا جس کے اختتامی الفاظ میں، میں نے ان سے کہا!
’’اللہ آپ پر بڑا مہربان ہے… 1985 میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو موقع دیا تھا آپ تاریخی فیصلہ کرتے لیکن آپ کی ترجیحات کچھ اور تھیں اب دوسری بار اس کا کرم ہے کہ آپ ایک تاریخی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں الیکشن کرایے اور اقتدار سے الگ ہو جایئے… تاکہ قوم مشکل حالات کا مقابلہ کر سکے… تاریخ آپ کو ایک BENEVELENT ڈکٹیٹر کی حیثیت سے یاد کرے گی‘‘ بولے آپ نے بہت صحیح کہا ہے لیکن اقتدار کی کچھ مجبوریاں ایسی ہوتی ہیں کہ فی الوقت یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے… وہ کیا مجبوریاں تھیں ان کا صریح انداز میں کتاب میں ذکر نہیں کیا گیا البتہ ایک دوسرے موقع پر اسی نوعیت کی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے جنرل بیگ نے جنرل ضیاء الحق کا یہ ردعمل نقل کیا ہے کہ کیا آپ چاہتے ہیں میں بھی پھانسی کے تختے پر لٹک جائوں… جنرل ضیاء الحق کے خدشات کچھ ایسے غلط نہ تھے اگر وہ انتخابات کرا کر اقتدار سے الگ ہو جاتے اور آئین پاکستان پوری طرح بحال ہو جاتا تو جنرل صاحب فوراً اس کے آرٹیکل 6 کی زد میں آ سکتے تھے… جس کا مطلب سیدھی سادھی سزائے موت ہے… وہ اس انجام سے دوچار ہوتے یا نہ لیکن ان کے بعد جنرل مشرف کی اقتدار سے محرومی کے بعد اس آرٹیکل کا نفاذ ان پر ہونا شروع ہو گیا… خصوصی عدالت میں مقدمہ چلا… ان کے طاقتور ادارے سے تعلق رکھنے والے ہمارے ارباب بست و کشاد کو یہ منظور نہ تھا… انہوں نے وزیراعظم نوازشریف سے اس گستاخی کا وہ بدلہ لیا کہ تین بار منتخب ہونے والے وزیراعظم کو ایک بوگس عدالتی فیصلے کے ذریعے اٹھا باہر پھینک دیا… مشرف کو اس کے باوجود باہر بھاگ کر پناہ لینی پڑی… مگر خصوصی عدالت نے اس کے لیے پھانسی کی سزا کا حکم جاری کر دیا… آج کل مشرف صاحب کی خستہ حالی دیکھی نہیں جاتی… اسی ممکنہ انجام کو غالباً جنرل ضیاء الحق نے اقتدار کی مجبوریوں سے تعبیر کیا… اور الیکشن کرا کے علیحدہ ہو جانے کی تجویز نہیں مانی… جنرل اسلم بیگ مرزا نے اپنی سوانح عمری میں تفصیل کے ساتھ اپنے عہد میں فوجی کارناموں کا ذکر کیا ہے… آپریشن ضرب مومن کے مقاصد اور حاصلات پر روشنی ڈالی ہے… عراق کویت جنگ میں اپنے نقطہ نظر کو واضح کیا ہے… جوبہرصورت اس وقت کے وزیراعظم کی پالیسی سے مختلف تھا… اس کی وجہ سے ریاستی اور خارجہ امور میں کچھ پیچیدگیاں بھی پیدا ہوئیں… اس سے ماقبل وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے حوالے سے اپنے اور ان کے تعلقات پر روشنی ڈالی ہے… جنرل صاحب لکھتے ہیں بے نظیر میں کئی خوبیاں تھیں… میں ان کی قدر کرتا تھا… تاہم مجھے معلوم ہوا کہ موصوفہ اپنے قریبی کے مشورے کے بعد مجھے ہٹا کر کسی اور ملٹری آفیسر کو اوپر لانا چاہتی تھیں… مجھے اس کی بھنک پڑ گئی… میں نے کور کمانڈرز کے ایک اجلاس میں واضح طور پر کہہ دیا کوئی سرخ بتی عبور کرنے کی کوشش نہ کرے… وہاں وہ افسر صاحب بھی موجود تھے جن پر بے نظیر کی نظر انتخاب تھی… بعد میں محترمہ نے باقاعدہ خط لکھ کر مجھے یقین دہانی کرائی وہ ایسا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتیں… جنرل بیگ کے زمانے میں کئی اور اہم واقعات بھی ہوئے… مثلاً آئی جے آئی کا قیام عمل میں لایا گیا… 1990 کے انتخابات سے قبل ایوان صدر میں الیکشن سیل نے کام شروع کر دیا… جنرل صاحب نے کتاب میں دونوں واقعات کا ذکر ضرور کیا ہے مگر مختصر انداز میں ان کی بابت تفصیل میں جانا انہوں نے پسند نہیں کیا… انہوں نے ذکر کیا ہے الطاف حسین سے صرف ایک مرتبہ ملاقات ہوئی جب وہ جنرل صاحب کے گھر آئے اور کھانا کھایا مگر اپنے اس مشہور بیان کا کہیں ذکر نہیں کیا جو ریکارڈ پر ہے … I DELIVERED MQM TO IJI…  البتہ اپنے اوپر چلنے والے مقدمے کی کافی حد تک روئیداد انہوں نے درج کی ہے… جنرل ضیاء الحق کے طیارہ حادثے کی تفصیلات بتاتے ہوئے لکھا ہے سفر سے دو دن پہلے جنرل اختر عبدالرحمن نے مجھ سے شکایت کی ان کا نام صدر کے طیارے کے مسافروں میں کیوں نہیں شامل کیا گیا میں نے جواب دیا سب سینئر افسروں کو ایک ہی طیارے میں بٹھانا سکیورٹی کے نقطہ نظر سے مناسب نہیں… لیکن صدر کا طیارہ  بہاولپور کے ہوائی اڈے پر اترا تو جنرل اختر عبدالرحمن بھی ان کے ساتھ موجود تھے… جنرل اسلم بیگ نے ریٹائرمنٹ کے بعد جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے ’’فرینڈز‘‘ کے نام سے اپنا تھنک ٹینک قائم کیا… اس کے تحت ملک کو درپیش کئی تذویراتی سٹرٹیجک امور پر مختلف ماہرین کو اپنی آراء کے اظہار کا موقع دیا گیا… اسی ضمن میں انہوں نے بیرونی دورے بھی کیے جن میں چین اور ایران کے اسفار خاص اہمیت رکھتے ہیں… 1993 میں انہوں نے چین کے ایک پانچ روزہ دورے کے دوران راقم الحروف کو بھی اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی میں نے اس مقصد کے لیے وہاں کی وزارت خارجہ کے ایک بند کمرے میں منعقدہ سیمینار میں پڑھنے کے لیے بڑی محنت کے ساتھ اپنا مقالہ تیار کیا… جس میں تجویز کیا گیا تھا کہ چین کے وسطی ایشیا کے علاقے میں چینی حکومت کے زیرنگرانی خودمختار علاقے قائم کیے جائیں تاکہ ان پر چین کا اقتدار بھی قائم رہے اور ان عوام کو جن کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے اپنی خودمختاری کا بھی پورا یقین ہو… اسی دوران جنرل اسلم بیگ نے وہاں کی وزارت دفاع کے سیمینار میں اپنا مقالہ پیش کیا… تب خبر آ چکی تھی کہ بھارت کے وزیراعظم نرسمہا رائو اگلے چند مہینوں میں چین کا دورہ کرنے والے ہیں… یہ کئی دہائیوں کی کشیدگی اور حالت جنگ کے بعد کسی بھارتی وزیراعظم کی چین کی آمد کا پروگرام تھا… اس امر کو سامنے رکھتے ہوئے جنرل اسلم بیگ مرزا نے نہایت مدلل انداز میں اعلیٰ چینی حکام کو متنبہ کیا کہ بھارت پر اعتماد کرنے کے ناقابل تلافی نقصانات ہوں گے… یہ تجزیہ پیش کرتے وقت ان کے بیان و الفاظ سے حب الوطنی کے جذبات پھوٹ پھوٹ کر نمایاں ہو رہے تھے… جنرل اسلم بیگ مرزا مسلمانان ہند کے اعظم گڑھ جیسے علمی اور تہذیبی مرکز کے پیدائشی ہیں گنگا و جمنا میں دھلی ہوئی نہایت شائستہ زبان بولتے ہیں یہی وصف ان کی کتاب میں انداز بیان میں امڈ آیا ہے جو پاکستانی تاریخ کے طالب علموں کے پڑھنے کے لائق ہے…

تبصرے بند ہیں.