ہم نے سونا سپردِ خاک کیا

513

پروفیسر ڈاکٹر خضر نوشاہی بھی چل بسے،فارسی زبان و ادب میں تحقیق و تنقید کا ایک معتبر حوالہ اور مخطوطہ شناسی میں سند کی حیثیت رکھنے والے عالم کی موت نے ایک عالَم کو افسردہ کر دیا۔نصف صدی تک زبان و ادب اور تحقیق و تنقید میں اپنا لوہا منوایا‘پنجاب کی اہم ترین درگاہ کا گدی نشین ہونے کے باوجود عاجزی اس قدر کہ ایک زمانہ مداح۔مجھے نہیں یاد کہ کسی ہم عصر‘جونیئر‘شاگرد یا کسی مرید سے کبھی تلخ لہجے میں بات کی ہو۔ہر لکھنے اور بولنے والے کو سراہتے‘نئے لکھنے والوں کی اس انداز میں حوصلہ افزائی فرمایا کرتے کہ لکھنے والا خود حیران رہ جاتا۔دنیا بھر سے لاکھوں تشنگانِ علم ان کی نشستوں میں شریک ہوتے‘آپ ان کی روحانی و علمی تربیت فرماتے‘پاس بیٹھنے والوں کو اللہ والوں سے ملواتے‘اللہ والوں کی دنیا سے روشناس کراتے۔کیسا بڑا آدمی تھا کہ جس کی موت نے ایک ہفتے سے دکھ اور تکلیف میں مبتلا کر رکھا ہے۔جنازے میں شریک ہر شخص دھاڑیں مار کر رو رہا تھا‘کوئی کامران اور ارمغان کے کندھے پہ سر رکھتا تو کوئی وجدان اور پیمان سے دکھ بانٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔مریدین کی چیخیں بھی آسمان کو پہنچ رہی تھیں،ہم شاعر ادیب ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو رہے تھے‘کیوں نہ روتے‘سخت گرمی کے موسم میں ایک ایسا سائبان اٹھ گیا تھا جس نے ہم عصر اور نئے لکھنے والوں کو ہمیشہ زمانے کی جھلسا دینے والی دھوپ سے بچائے رکھا۔
میرے ساتھ ڈاکٹر خضر نوشاہی کی محبت ناقابلِ بیان تھی،میرے تقریباً ہر کالم پر فون کرتے‘واٹس اپ پر وائس نوٹ بھیجتے اور کالم پر مفصل گفتگو فرماتے۔ انتقال سے تقریباً ایک ماہ قبل اپنی آستانے ”دار الفقراء“ ساہن پال میں ایک مشاعرہ رکھا‘راقم کو فون کیا کہ پوچھے بغیر آپ کا نام لکھ دیا‘ممکن ہو تو شرکت کیجیے گا۔ میری بدنصیبی کہ نجی مصروفیات کے باعث اس پروگرام میں شریک نہ ہو سکا جس کا ہمیشہ افسوس رہے گا کیونکہ یہ آخری تقریب تھی جس میں نوشاہی صاحب بطور خاص تشریف فرما تھے۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ آج سے تقریباً تین ماہ قبل مجھے فون کیا اور حکم فرمایا کہ ممکن ہو تو میرے کتب خانے (دار الفقراء ساہن پال)تشریف لائیں‘آپ کے ساتھ چائے پینی ہے۔میں نے حکم سنتے ہی عرض کیا کہ حضور میری مجال کہ ”آپ بلائیں اور ہم نہ آئیں“،یوں عبد الرحمن شاکر کے ہمراہ دار الفقراء حاضر ہو گیا‘تین گھنٹے کی طویل ترین نشست ہوئی‘ان کے چاروں بیٹے بھی موجود رہے اور ظہرانے کے بعد اس لیے اجازت لینا پڑی کہ کسی نجی ٹی وی کی ٹیم نوشاہی صاحب کے انٹرویو کی ریکارڈنگ کے لیے وہاں پہنچ گئی۔آپ جب بھی لاہور تشریف لاتے‘میں خود رابطہ کر لیتا(بعض اوقات وہ خود بھی فون کر لیا کرتے) اور بتاتے کہ فلاں ٹی وی کی ریکارڈنگ یا فلاں سیمینار اورکانفرنس کے لیے لاہور آیا ہوں‘ آپ مل سکتے ہیں اور یوں کئی دفعہ ملاقات ہو جاتی۔نوشاہی صاحب کی یہ کوالٹی تھی کہ وہ بلا تعصب و تخصیص ہر لکھنے والے کو عزت دیتے‘اسے تھپکی دیتے اور آگے بڑھنے کے لیے راستہ دکھاتے۔
میری ان سے آخری ملاقات بیادِ کیف عرفانی ریفرنس میں ہوئی تھی‘راقم نے اپنا مضمون”چھوٹے شہر میں بڑا آدمی“پڑھا‘تقریب کے اختتام پہ نوشاہی صاحب کے پاس آ بیٹھا‘ان کا چہرہ ان کی بیماری کی کہانی سنا رہا تھا‘اگرچہ وہ آخری دن تک(ظاہری طور پر)  ہشاش بشاش دکھ رہے تھے مگر انہیں خود بھی احساس ہو چکا تھا کہ اس بار بیماری کا حملہ سخت ہے۔کیف صاحب پر گفتگو کرتے ہوئے جیسے ان کی زبان لڑکھڑا رہی تھی‘ہال میں موجود کثیر تعداد نے محسوس کیا‘راقم نے اس بارے دریافت بھی کیا کہ”سر طبیعت زیادہ خراب ہو گئی؟“،(ہمیشہ کی طرح)مسکرا تے ہوئے فرمایا”نہیں آغر میاں یہ نارمل بات ہے“۔میرے پاس آج بھی ان کا آخری واٹس اپ میسج موجود ہے‘میں نے کسی بات پر شکوہ کیا تو ہنستے ہوئے ایک میسج بھیجا جس میں بڑے ہونے کا احساس دلایا‘جی بھر کے راقم کی تعریف کی اور دعاؤں سے نوازا۔
نوشاہی صاحب نے زندگی کا زیادہ حصہ فارسی زبان و ادب کی خدمت میں گزار دیا‘تحقیق و تدوین ان کا خاص میدان تھا‘مخطوطہ شناسی میں بھی مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ فارسی مخطوطہ شناسی میں ہندوستان کا سب سے اہم نام رخصت ہو گیا۔نوشاہی صاحب سے ان کے مریدوں کا تعلق تو پیروں والا تھا مگر یقین جانیں قلم قبیلے سے آپ کا تعلق ہمیشہ دوستانہ رہا۔تحقیقی زندگی کا ایک طویل عرصہ کراچی و سندھ میں گزارا،پنجاب سے زیادہ ان سے سندھ والوں نے سیکھا‘دنیا کے کئی بڑے ملک اور شہر گھومے‘کئی علوم پر دسترس حاصل تھی‘کئی زبانیں جانتے تھے مگر اخیر دم تک فارسی زبا ن و ادب کی ترویج میں پیش پیش رہے۔ہمارے ایک ادیب دوست نے ان کے انتقال پر کہا کہ”مہتاب ِبحرِ علم“ کا انتقال ہوا،ایک اور مفکر ادیب نے انہیں شیخِ سندھ کہا۔ڈاکٹر خضر نوشاہی جیسے نابغے صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں‘ایسے عظیم لوگ جن کی زندگی کا واحد مقصد تحصیلِ علم اور فروغ ِعلم رہا ہو۔گزشتہ ملاقات(جس کا اوپر ذکر ہو چکا) میں کہنے لگے کہ”میں نے اپنے بچوں کو آستانے کا گدی نشین نہیں بننے دیا بلکہ انہیں حصول علم کا درس دیا‘ انہیں ہمیشہ یہی ترغیب دی کہ باپ دادا کے نام کی کمائی پر عمر نہیں گزارنی‘ اپنا نام پیدا کرنا ہے‘خود کچھ کر کے دکھانا ہے“۔یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے اہم ترین آستانے کے گدی نشین بن سکتے تھے مگر انہوں نے دربار سے دور اپنا الگ ”دار الفقراء“کے نام سے فقیر خانہ بنایا‘جہاں یہ مرد ِ درویش دنیا بھر سے آئے تشنگانِ علم و ادب کو فقیری چشمے سے سیراب کر رہا تھا‘ایک زمانہ ان کے در پہ حاضری دیتا اور فیض یاب ہوتا رہا۔میں نے نمازِ جنازہ میں ہر شخص کی آنکھ اشک بار دیکھی‘ جنازے کے بعد میں نے نوشاہی صاحب کا آخری دیدار کیا‘محمد ضیغم مغیرہ(آخری وقت کے قریبی دوست) اور سید حسین محسن(قریبی شاگرد) کے کندھے پر سر رکھا‘جی بھر کے رویا اور ان کے جسدِ خاکی کو کندھا دیتے ہوئے اس مردِدرویش کورخصت کر دیا۔اب زمانہ ترسے گا ایسے شخص کے دیدار اور کردار کو‘جس نے ایک زمانے کو جینے کا ڈھنگ سکھایا۔
بقول انور مسعود
خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ
ہم نے سونا سپردِ خاک کیا

تبصرے بند ہیں.